زباں فہمی نمبر250کشمیر اور اُردو (حصہ آخر)
زباں فہمی نمبر250کشمیر اور اُردو (حصہ پنجم) ؛ تحریر :سہیل احمد صدیقی
کشمیر کی صحافت میں بعض روزانہ کالم لکھنے والے ادیبوں نے بھی خوب نام کمایا جیسے شہزادہ بسمل جن کے کالموں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے; ان کالموں کے عنوانات سے تنوع اور زندگی کے ہمہ گیر مسائل کی عکاسی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے: نور کی بے قدری، لالہ صحرا، گولر کا پھول، سایو نارا (جاپانی کلمہ یعنی خداحافظ: س ا ص)، السلام علیکم، نندادیپ، بحری قذاق،گلاب آنگن میں، بجھ گئے جلے چراغ، درد کی سوغات اور دودھ کا بٹوارہ ۔
کشمیری کے متعلق یہ انکشاف چونکانے والا ہے کہ یہ زبان نہ صرف سنسکِرت سے فیض یافتہ ہے بلکہ قدیم دور میں باقاعدہ تحریری زبان کے طور پر رائج بھی تھی۔ لاہور کے عجائب گھر میں محفوظ دِید (Didda) حکمراں، مَلِکہ کے فرمان سے اس کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ یہ ملکہ 924 ء میں پیدا ہوئی، اور اس نے 980ء سے اپنی وفات 1003ء تک حکومت کی۔ اس سے بھی مدتوں پہلے اس خطے پر ایک عورت Yasovati(یسومتی یا جیشومتی) بطور حکمراں راج کرچکی تھی۔ یہ زمانہ قبل از مسیح (علیہ السلام) کی بات ہے اور اُس کی کہانی میں مشہور ہندودیومالائی کردار کرشن کا نام بھی بطور مددگار ملتا ہے۔
جہاں تک کشمیری زبان کی ساخت کی بات ہے تو یہ بات بلاتردد، بلا تحقیق بارہا کہی گئی کہ چونکہ اس میں عبرانی الفاظ بھی شامل ہیں، لہٰذا اس کا امکان ہے کہ یہ زبان، کشمیر میں یہودیوں کے اقتدار کے عہد میں پروان چڑھی ہو۔ لسانی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم ہندو دوراقتدار میں یہاں سنسکرت، پھر بُدھ دور میں پالی اور یہودیوں کے دور میں عبرانی کے اثرات گہرے ہوئے، جبکہ مابعد مسلم حکمرانی میں عربی اور فارسی کے اثرات نظر آنے لگے اور بقول جناب یوسف ٹینگ ’’واقعہ یہ ہے کہ فارسی، کشمیر میں عوامی زبان اور کشمیر کی تہذیبی و ادبی تواریخ فارسی زبان کی آغوش ہی میں موجود ہے۔
اس کے رسوخ کا نتیجہ یہ ہوا کی کشمیری زبان کی شکل و شمائل پر فارسی کا گہرا رنگ چڑھ گیا۔ اس کی پارینہ لفظیات کا سارا خزانہ دگر گوں ہوگیا اور اُس پر فارسی نے اپنے جھنڈے گاڑدیے۔ یہ بات کشمیر میں اُردو کے فروغ کے لیے غالبؔ کے الفاظ میں ’خداساز‘ ثابت ہوئی‘‘ (مقدمہ ’کشمیر میں اردو‘ از عبدالقادرسروری)۔ فارسی کا دور پانچ سو برس تک رہا ، جبکہ سکھ دور(1819ء تا 1846ء) میں یہاں پنجابی نے خوب رنگ جمایا۔
اردو اور کشمیری کے مشترک الفاظ
ان دونوں زبانوں کے درمیان بنیادی قدرمشترک یہ ہے کہ مغربی ماہرین لسانیات کی تحقیق کی رُو سے یہ دونوں شورسینی اپ بھرنش کی پیداوار ہیں۔ میری اب تک کی معلومات کے مطابق کشمیری اور کشمیر کی دیگر بڑی زبانوں بشمول ڈوگری سے اردو کے اشتراک ومماثلت کے موضوع پر برائے نام ہی تحقیقی کام ہوا ہے۔
جہاں تک خاکسار کی اپنی مساعی کی بات ہے تو کشمیر کی زبانوں میں گوجری سے اردو کے تعلق پر سلسلہ زباں فہمی میں قسط وار مضمون لکھ چکا ہوں۔ پہاڑی سے اردو کے تعلق پر میری تحقیق ابھی تشنہ ہے، لیکن اسی کی ایک ترقی یافتہ شکل پوٹھوہاری کے بارے میں لکھ چکا ہوں اور مزید لکھنے کا ارادہ ہے، ہندی کے لیے الگ سے تو نہیں لکھا، مگر اِس کا ذکر گاہے ہوتا رہا ہے، اسی طرح پنجابی سے اردو کے تعلق پر قسط وار لکھ چکا ہوں، ڈوگری اور اُردو کے تعلق پر مواد فراہم ہوجائے تو لکھ سکتا ہوں;بروشسکی اور اردو کے تعلق پر لکھ چکا ہوں جبکہ بلتی اور شِنا (شِنڑا) کا باب ابھی باقی ہے۔
فارسی کے زوال کے بعد جب پورے ہندوستان میں اردو غالب آنے لگی تو ایسے میں جمّوں وکشمیر میں بھی اردو کا ہر شعبے میں دخل نمایاں ہوگیا، حتیٰ کہ راجہ رنبیر سنگھ نے اسے سرکاری زبان کا درجہ دے دیا اور 1881ء کے بعد سے ماضی قریب تک اس کی یہی حیثیت برقرار رہی۔
ہندواڑہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فیض قا ضی آبادی نے ’’کشمیری اور اُردو زبان کا لسانی و ادبی رشتہ‘‘ کے عنوان سے مضمون میں لکھا کہ
’’کشمیری زبان اپنی سرشت اور گرا مر میں اُردو سے بہت دور ہے یہی وجہ ہے کہ اُردو بولنے والے لوگوں کو کشمیری سیکھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص اُسی طرح جس طرح انگریزوں کو اُردو سیکھنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اس کا ثبوت اس رپورٹ سے بھی ملتا ہے جو خواجہ غلام السیدین کی صدارت میں ایک کمیٹی نے دی تھی۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب ہندوستان میں ہندی اور اُردو کا مسئلہ شدت پکڑ گیا تو اس کے اثرات کشمیر پر بھی پڑنے لگے۔
ہندی کے دوستوں نے حکومت پر اَثر انداز ہو کر پر جا سبھا میں ہندی کے حق میں قواعد بنوانے کی کوششیں کیں لیکن عوامی نمائندوں نے اُردو کی پاسداری کی۔ اس وقت اُردو زبان ہی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی راہ ہموار کی گئی، وجہ یہ ہے کی یہ زبان ڈوگری، پنجابی، پہا ڑی اور گوجری سے ملتی جلتی ہے۔
یہاں پر کشمیری زبان کا نام نہیں لیا گیا۔ رپوٹ کا یہ حصہ ملاحظہ فرمائیے: ’’وہ زبان جو تاریخی اور تعلیمی اسباب کی بناء پر ریاست کی عام زبان ہے، وہ اُردو ہے جو ریاست میں پہلے درجے سے لے کر اُوپر تک کے لیے ذریعہ بھی ہے اس میں شک نہیں کہ اُردو ریاست میں رہنے والوں کی اکثریت کی مادری زبان نہیں ہے لیکن یہ ڈوگری اور پنجابی سے بہت قریب ہے اور ایک حد تک پہاڑی اور گوجری سے بھی ملتی جلتی ہے لہٰذا اُن لڑکوں کے لیے جو یہ زبان جانتے ہیں، اُردو کا ذریعہ تعلیم ہونا کوئی دشواری کا سبب نہیں‘‘۔ اردو کا چلن اتنا بڑھا کہ ہر جگہ، حتیٰ کہ پارلیمان میں بھی لوگ بہت اچھی اردو بولنے لگے اور بقول فاضل مضمون نگار، کشمیری، ان دو زبانوں کا مرکب ہوکر رہ گئی۔
کشمیری ادب میں بھی اردو کا حصہ غالب ہوگیا ہے اور اَب ایسے اردو الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں: خوبصورت، معشوق، رفیق، دوست، محرم، ستم گر، سنگدل، ماہ رُو، فریفتہ، دیوانہ، خستہ دل، بے دل، زُلف، کاکُل، سُنبل، خال، کمر، روئے، خوئے، موئے، رخسار، رفتار، گفتار، چال، دیدار، گلزار، جُدائی، فارق، شوق، ذوق، درد، سوز، وصل، عذاب، نقاب، رباب، کتاب، گلاب، کباب، حجاب، دلبر، حُور، مستور، بے وفا، حسِین، پاک دامن، سروقد، عاشق، شیدا، فدا، مجنون، بے تاب، بے حجاب، بے صبر، عذاب، نقاب، شراب، ساز، راز، ناساز، سنطور، مخمور، مجبور، کافور، بُلبل، گل، قد، تاج، زیور، جوش، خمار، جنگل، کوہ وغیرہ۔ اس کے برعکس مجھے ابھی تک کوئی ایسی فہرست نہیں ملی جس سے یہ معلوم ہو کہ خود اُردو نے کشمیری (یا کشمیر کی زبانوں ازقسم ڈوگری) سے کس قدر استفادہ کیا۔
میری معلومات کے مطابق اردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے خاندانی نام ’منٹو‘ کی مثال ہی مشہور ہے جس کا مطلب خود منٹو نے ’’ڈیڑھ سیر کا باٹ‘‘ بیان کیا، مگر یہ محض ایک اصطلاحی معنیٰ ہے۔ ایک محقق کی رائے میں لفظ منٹو کی اصل ’من وٹ‘ [Manwata] ۔یا۔من وٹی [Manwati] ہے جسے مَن [Mann] یا منوٹ[Manout] بھی کہا جاتا تھا اور جو درحقیقت دو سے ڈھائی سیر تک وزن والے باٹ کو کہتے ہیں۔ یہ باٹ راجگان کے عہد میں دھان اور مکئی کا وزن کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور بادشاہ ِ وقت کے لیے یہ کام کرنے والوں کی ذات ’منٹو‘ کہلاتی تھی جو ہندو مت اور اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل تھی۔ منٹو کو اپنے کشمیری ہونے پر فخر تھا، مگر وہ کشمیر میں فقط بانہال تک گئے تھے اور اُنھیں کشمیر دیکھنے کی حسرت تھی۔
آزاد کشمیر میں اُردو
لسانی وادبی تحقیق میں یہ باب قدرے نیا اور تشنہ ہے۔ آزاد کشمیر کے محققین نے اپنی کتب اور مقالہ جات میں وادی میں اُردو کے نثری ادب خصوصاً افسانہ نگاری کا پس منظر بیان کرتے ہوئے وہی نام اور کام گنوائے ہیں جن کا ذکر ماقبل خاکسار نے اجمالاً کیا، (بشمول منشی فوقؔ، چراغ حسن حسرتؔ، راجا محمد اَفضل، دیانند کپور، موتی لال کپور، برج باسی، پنڈت بہار لال شاستری، ملک رام آنند، کرشن چندراور پریم ناتھ پردیسی)، مگر شاید اُن کے نزدیک اس کے بغیر تحقیق کا نوالہ توڑنا ممکن نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ پنیری لگائی گئی تو پودے بنے اور پھر اَلگ ہوئے تو پیڑ بنے۔ راقم سہیل ؔ کا یہ قول یقیناً اُردو تنقید میں یاد رکھا جائے گا۔
تقسیم ہند وقیام پاکستان نیز الحاق آزاد جمّوں وکشمیر کے بعد افسانوی ادب کا اوّلین بڑا نام، کشمیری نژاد پنجابی سعادت حسن منٹو ہے جس نے کشمیر کے عشق میں مسلسل لکھا ;اُن کے افسانوں میں موج دین، شغل، موسم کی شرارت ، بیگو، آخری سلوٹ ، ٹیٹوال کا کُتّا، ایک خط، پانچ دن اور ’جاؤ، جاؤ حنیف! جاؤ‘ ایسے فن پارے ہیں جن میں کشمیر کی سماجی وسیاسی زندگی کے عکس بھرپور طریقے سے اُجاگر کیے گئے ہیں۔
دوسرا نمایاں نام محمودہاشمی کا ہے جن کے افسانوں میں ’ٹالسٹائی کی کہانیاں‘ اور ’اور شہنائیاں بجتی رہیں‘ مشہور ہوئے۔ پونچھ اور جمّوں کے ترجمان، ٹھاکر پونچھی نے زندگی کی دَوڑ، چناروں کے چاند، موت کے سائے، زعفران، معاوضہ ، اندھے کی بیوی اور ڈھولک بجتی رہی جیسے مجموعوں سے آزادجمّوں وکشمیر کے افسانوی ادب میں اپنا مقام بنایا۔ نامور ادیب قدرت اللّہ شہاب کے مجموعوں ’نفسانے‘، ’ماں جی‘ اور ’سُرخ فِیتہ ‘ نے اپنا معیار اَلگ متعین کیا۔ غلام الثقلین نقوی کے افسانے بندگلی، شفق کے سائے، دھوپ کا سایہ اور سرگوشی بہت مشہور ہوئے۔
منفرد اسلوب کے حامل رشید اَمجد کے افسانے ’بے زار آدم کے بیٹے‘، کاغذ کی فصیل، ریت پر گرفت، سہ پہر کی خزاں، پت جھڑ میں خودکلامی، دشتِ نظر سے آگے، شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد، فتادگی میں ڈولتے قدم اور سبز پھول جیسے مجموعوں میں شامل ہیں اور خوب ہیں۔ کشمیری لال ذاکر کے مجموعے ’جب کشمیر جل رہا تھا‘ میں چار اَفسانے شامل ہیں۔ سابقہ خاتون اوّل ثریا خورشید (اہلیہ کے ایچ خورشید) کا مجموعہ ’املتاس کے پیڑ‘ کے موضوعات اور اسلوب کی خوب پذیرائی ہوئی، کہکشاں ملک کے مجموعوں کی اہمیت کلاسیک اور جدّت کے امتزاج سے نمایاں ہوئی۔ جُزئیات نگاری کے لیے مشہور محمد الیاس کے مجموعوں کی اچھی خاصی طویل فہرست ہے۔
دیگر قابل ذکر اسماء میں محمد صغیر قمر، پروفیسر وقار ملک، محمد سعید احمد ، احمد شمیم، منصورقیصر، پروفیسر خالد نظامی، سلیم خان گمی، امجدممتاز، توصیف خواجہ وغیرہ شامل ہیں۔ ناول کے شعبے میں ماقبل تقسیم ہند، پنڈت سالگرام سالک اور منشی فوق کے نام بنیاد گزار کے طور پر محفوظ ہیں جبکہ کرشن چندر کے ناولوں کی تعداد اڑتالیس ہے (شکست، جب کھیت جاگے، ایک گدھے کی سرگزشت وغیرہ)، مابعد نرسنگداس نرگھس، کشمیری لال ذاکر، ملک رام آنند، ٹھاکر پونچھی سے ہوتے ہوئے قدرت اللّہ شہاب جیسا اہم نام سامنے آتا ہے جن کا ناوِلٹ ’یا خُدا‘ بہت مشہور ہے۔
ان کے بعد حامدی کاشمیری کا نام ِ نامی بہت نمایاں ہوا جبکہ آزاد جمّوں وکشمیر میں سیّد محمود آزادؔ، کہکشاں ملک، سلمان عارف، سردار بشیر احمد صدیقی، عبدالسلام، سردار عنایت اللہ خان، پروفیسر مقصوداحمد راہیؔ، پروفیسر حفیظہ رحمان، محمود فریدی، محمود ہاشمی وغیرہ دیگر اہم اسماء میں شامل ہیں۔ ان میں کئی ناولوں میں تحریک ِ آزادی کشمیر کا موضوع بھی خوب برتا گیا ہے۔ یہاں بوجوہ آزاد ریاست میں صحافت اور تحقیق وتنقید کے باب اَن چھُوئے چھوڑنے پڑ ے ہیں۔
آزاد جمّوں وکشمیر میں اردوشاعری کا احاطہ کرنے کے لیے ایک مکمل قسط بھی ناکافی ہوگی۔ ایک اہم کتاب ’’آزادکشمیر میں اُردوشاعری‘‘ ہے جو ممتاز صحافی، شاعر، ادیب، محقق اور سرکاری افسر ڈاکٹر افتخار مغل مرحوم (متوفیٰ10اپریل 2011ء: صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی یافتہ) کا ایم فل کا مقالہ ہے۔ اس کا پورا نام ’’آزاد کشمیر میں اردو شاعری کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ ہے اور یہ ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹربشیر سیفی مرحوم کے زیرنگرانی لکھا گیا۔ کتابی شکل میں اشاعت کا سہرا ترتیب وتہذیب کے ساتھ، برادرم فرہاداحمد فگار جیسے محقق شاعر کے سر بندھا، جبکہ ڈاکٹر مغل نے معروف شاعر ڈاکٹر صابر آفاقی کے زیرنگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ’آزاد کشمیر میں اردو نثری ادب‘ لکھا تھا۔
فگار ؔ کی عنایت سے مجھے چند اور کتب کے ساتھ یہ کتاب بھی موصول ہوگئی ہے جس کے سرسری مطالعے سے محقق موصوف کی محنت شاقّہ کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر مغل مرحوم نے پنجاب اور گردونواح میں ہائیکو کے نام پر بے تحاشا لکھی جانے والی، مساوی الاوزان (مبنی بر بحر خفیف مسدس) سہ مصرعی کو اپنے مقالے میں بہت جگہ دی، البتہ وہ اس موضوع پر ہونے والی جدید تحقیق اور اس صنف کے فروغ کے لیے دس سال جاری رہنے والے، جنوبی ایشیا کے اوّلین اور واحد کثیر لسانی جریدے ہائیکو انٹرنیشنل [Haiku Inernational] سے قطعاً واقف نہ تھے جو خاکسار نے 1998ء تا 2008ء مرتب کرکے شائع کیا اور دنیا بھر میں اس کی پذیرائی بھی ہوئی۔ محقق موصوف نے کوئی ایک بھی مثال ایسی پیش نہیں کی جس سے اردو ہائیکو کی مقبول ومتداول بحر، بحر متقارب (فعلن فعلن فع/فعلن فعلن فعلن فع/فعلن فعلن فع) کے آزاد جمّوں وکشمیر میں اپنائے جانے کا پتا چلتا ہو۔
یہ درست ہے کہ ان میں شامل بعض اسماء کی سہ مصرعی بعنوان ہائیکو میرے رسالے میں بھی (بربنائے مصلحت) شائع ہوئیں، مگر میرا تحقیقی اختلاف میرے بزرگ معاصر ڈاکٹر محمد امین بھی بخوبی جانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ جاپانی صنف سخن ہائیکو میں سب سے زیادہ پسندیدہ ترتیب پانچ ۔سات ۔پانچ صوتی ارکان [Sound syllables] کی ہے، دیگر تجارُب کو قبول عام کی سند حاصل نہیں، تو پھر کیا وجہ ہے کہ اُردومیں، ایک سے زائد سہ مصرعی اصناف کے ہوتے ہوئے مساوی الاوزان بھی کہی جائے اور اُسے ہائیکو کہا جائے جب بنیادی شرط ہی پوری نہیں ہوتی۔
آزاد جمّوںوکشمیر کے شعراء کی فہرست میں منشی محمد الدین فوقؔ، چراغ حسن حسرت، حبیب کیفوی، شفقت تنویرمرزا، آزر عسکری، الطاف قریشی، انجم خیالی، مشنی غلام نبی مسکینؔ، حبیب اللّہ کوثر، راجا شیر علی خان بسمل، میجر اقبال رُشدی، صابر آفاقی، مرزا طالب گورگانی، مظفر احمد ظفرؔ، شیخ عبدالعزیز علائی، عبدالغنی غنیؔ، مُخلص وجدانی، منوّرقریشی، محمد خان نشترؔ، پروفیسر بشیر مغل، راجہ لطیف خان موزوںؔ سرمدی (تلمیذ سیماب اکبرآبادی)، صباؔسلمانی، بُوٹا خان راجس، عبدالرحیم افغانی، میاں اسحق سوزؔ، بشیر احمد صدیقی، عبدالغنی شوکت، جابر آزاد، مشتاق شاد، سعیداختر، منیر گیلانی، برکت علی عاصی، پروفیسر حلیم صدیقی، پروفیسر اکر م طاہر، خُمار دہلوی، میر عبدالعزیز، اسمٰعیل ذبیح، غلام علی بلبل، غلام احمد کشفی، مسعودکشفی، تحسین جعفری، رانا فضل حسین راجوروی، امین طارق قاسمی، زید اللّہ فہیم، ملک کاشمیری، تبسم مینائی، احمدشمیم، بشیر صَرفی، طاؤس بانہالی، عمادالدین سوزؔ، اثرؔ صہبائی، قیس شِروانی، قمرقمرازی، شجر طیرانی، خواجہ بشیر احمد حسرتؔ، ضیاء الحسن ضیاءؔ، محمد سعید بخاری، رعنا راجوروی، نذیر انجم، ایم یامین وغیرہ جیسے بے شمار اہل ہنر شامل ہیں۔ اس فہرست میں وہ نام شامل نہیں جنھیں سہ مصرعی کہنے کے سبب نمایاں مقام حاصل ہوا۔ جدید دورمیں خاکسار کو اپنے بزرگ معاصر نصیر احمد ناصر اور خُرد معاصر فرہاد احمد فِگار سے بذریعہ خط کتابت اورسماجی ابلاغ کے ذرائع، ربط ضبط رہا، البتہ نصیر صاحب نمعلوم کیوں ایک عرصے سے سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں ۔(اختتام)
ہدیہ تشکر: اس مقالے کی قسط وار تحقیق وترتیب کے لیے کتابی مواد جمع کرنے کا آغاز بہت سال پہلے کیا، مگر ماضی قریب میں متعدد روابط سے اس جہت میں بہ سرعت تمام اضافہ ہوا۔ میرے لیے محال ہے کہ یہاں تمام مآخذ کا حوالہ درج کروں۔ اس ضمن میں بزم زباں فہمی کے معزز اَراکین فرہاد احمد فگار، اطہر اقبال، نوید رضا خان، حاشر افنان (مقبوضہ کشمیر) اور فیس بک دوست سہیل سالم (مقبوضہ کشمیر) نے کتب، مقالات، مضامین، پی ڈی ایف فائلزاور بعض مختصر معلومات فراہم کرکے میرا کام سہل کیا۔ ان سبھی کا صمیم قلب سے شکرگزار ہوں۔