آبنائے ہرمز اور پاکستانی معیشت پر پٹرول کا مالی بوجھ

پاکستان اپنی توانائی ضروریات کا تقریباً 85 فی صد پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات سے پورا کرتا ہے

کہا جاتا ہے کہ سمندرکی گہرائی اور خاموشی سب کچھ بیان کر دیتی ہے اور آبنائے ہرمز جس پر ایران کا کنٹرول ہے جوکہ خلیج کی سانس ہے جسے توڑنے کے لیے امریکا نے کوئی کسر نہ چھوڑی، اسرائیل اور امریکا نے ایران پر بلاجواز ایسا حملہ کردیا ہے کہ توانائی کی سمندری لہروں کی نبض اب رک رک کر چلنے کے خدشات نے تیل بردار جہازوں کے گزرنے کو ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔

بھیانک خواب، پہلے ایندھن کا خواب بہت سے خواب بانٹتا تھا۔ صنعتوں کا خواب چین کے توانائی کی اسی سمندری راستے سے درآمد نے چینی صنعت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ گاڑیوں میں سفر کا خواب پاکستان میں قیمتی درآمدی گاڑیوں نے تو ملک کے ہر روڈ یہاں تک کہ گلیوں کو بھی ٹریفک جام کا مزہ چکھا دیا ہے، مگر اب ہر ترقی و خوشحالی کے خواب پر گرد بیٹھ رہی ہے،کیونکہ ہرمز کے پانیوں کے موج میں اب ہتھیاروں کی گونج اور جنگ کی آہٹ چھپی ہوئی ہے اور پاکستان کی خارجی معیشت کی سانس اس لیے دشواری محسوس کر رہی ہے کہ کیونکہ جب تیل مہنگا ہوگا تو بہت سے پاکستانیوں کے چولہے بجھ جائیں گے اور معیشت پھر نڈھال ہو کر آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہوگی، جس پر رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 53 ارب ڈالر سے زائد کا درآمدی بوجھ ہے۔ اب پٹرولیم کی درآمدی مالیت بھی بڑھ جائے گی۔

آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش کوئی علاقائی مسئلہ نہیں ہے، یہ محض ایک تنگ سمندری گزرگاہ نہیں ہے۔ یہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی وہ دھڑکن ہے، ایران جیسے ہی اس کا نام لیتا ہے درآمدی ممالک کی دھڑکنیں بھی تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ آبنائے اب دھیرے دھیرے وہ دہکتا ہوا تندور بنتا جا رہا ہے جس میں عالمی تیل کی منڈی اب دہک رہی ہے۔

اسرائیل اور امریکا کی ایران پر بلاجواز حملے کی چنگاریوں سے اٹھتی ہوئی دھوئیں دار کشیدگی نے عالمی تیل کی منڈی کو بے چین کردیا ہے۔ تیل کے درآمدی ممالک کی سانسیں اٹک رہی ہیں،کیونکہ جب بھی ایران ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے، خام تیل کی قیمتیں اچک اچک کر بلندی کو چھونے لگتی ہیں اور پاکستان کی خارجی معیشت کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں کیونکہ اس کی معیشت پہلے ہی آئی ایم ایف کی دھمکیوں سے سہمی سہمی رہتی ہے جہاں معیشت کا بحران بھی ہے اور درآمدی دباؤ ایسا کہ 15 سے 16 ارب ڈالر تو توانائی کی درآمد پر پھونک دیے جاتے ہیں۔پاکستان اپنی توانائی ضروریات کا تقریباً 85 فی صد پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات سے پورا کرتا ہے۔

پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران 14 ارب 62 کروڑ 55 لاکھ ڈالرز کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کی جس میں خام تیل اور دیگر بھی شامل ہیں۔ اس کے بالمقابل جولائی تا مئی 2024 کے دوران 15 ارب 34 کروڑ ڈالرز کی درآمدات کے باعث پٹرولیم گروپ کی درآمد میں 4.65 فی صد کی کمی واقع ہوئی اور یوں تقریباً 71 کروڑ ڈالر سے زائد کی بچت ایک ایسے وقت میں جب پاکستان شدید مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے خوش آیند ہے۔ اب یہ سب خواب ہو کر رہ گیا ہے۔

عالمی سفارتی منظرنامے میں اگرچہ پاکستان ایران کا ہمسایہ بھی ہے، برادر اسلامی ملک بھی ہے۔ ایران کے پاس چاہ بہار پاکستان کے پاس گوادر بھی ہے، سمندر کے راستے سے دونوں ملے ہوئے بھی ہیں، خشکی کے راستے سے بھی ملے ہوئے ہیں، محدود پیمانے پر ایرانی تیل بلوچستان آ رہا تھا، جس سے بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کا روزگار جڑا ہوا تھا، ایران اسرائیل جنگ کے ساتھ ہی سب کچھ داؤ پر لگ گیا تھا، اب پاکستان کو توانائی سے متعلق نئی اور فائدے والی منصوبہ بندی پر غور کرنا ہوگا۔اب ایران اسرائیل جنگ بندی ہوئی ہے تو امید ہے کہ یہ جنگ بندی یونہی قائم رہے اور حالات نہ بگڑیں۔

Load Next Story