پارٹیوں میں اختلاف ہوتا ہے، یہ ڈھکی چھپی بات نہیں
فوٹو: فائل
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ اختلاف بھی ہوتا ہے اور اختلاف رائے بھی ہوتا ہے پارٹیوں میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، پی ایم ایل (این) کو ہی لے لیں، اس میں ایک سوچ آپ کو نواز شریف کے زیادہ قریب نظر آتی ہے وہ ڈیفرنٹ بات کر رہے ہوتے ہیں، ایک شہباز شریف کے قریب ہے وہ ڈیفرنٹ بات کر رہے ہوتے ہیں وہاں اس طرح سے اختلاف نظر نہیں آتاجس طرح پی ٹی آئی میں نظر آرہا ہوتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے کارکن ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے بانی کی رہائی کے لیے تحریک چلائیں۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ میرے خیال میں پارٹی جو ہے وہ مکمل بدنظمی اور انتشار کا شکار ہے، پارٹی لیڈران کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پارٹی میں اختلاف رائے تو جمہوریت کا حسن ہے، وہ ڈاؤن پلے کر نے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بالکل اختلاف رائے ہوتا ہے ، جب بند کمروں میں پالیسی میٹرز ڈسکس ہو رہے ہوتے ہیں تو وہاں اختلاف رائے سمجھ میں آتا ہے لیکن جب وہ اختلاف رائے سوشل میڈیا پر آ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پارٹی کے اندرسب اچھا نہیں۔
تجزیہ کار عامرالیاس رانا نے کہا کہ جو پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں وہ تو وڈیو بیانات جاری کرتے ہیں، 26نومبر لیے بھی کہ دیکھیں رستے ہی بند ہیں، جو میں بار بار مثال دیتا ہوں، جب پولیس مارے گی تو انقلاب کیسے لائیں گے، جب پولیس نے راستہ بند کر دیا تو سیکریٹری جنرل اسلام آباد کیسے آئیں گے پھر عمران خان نے دیکھا کہ عالیہ حمزہ کی ضرورت ہے تو وہ اس کو لائے پھر سلمان اکرم راجہ نے اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور عالیہ حمزہ کو اس کے انڈرمائن کیا۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ اختلافات پہلے بھی تھے مگر جو اب اختلافات ہیں وہ پارٹی کے لیے ٹھیک نہیں ہیں، پارٹی کو اسٹیبل کرنے کے لیے، تحریک چلانے کے لیے چاہیے تھا کہ آپس میں مل بیٹھتے، حال ہی میں دیکھ لیں علی امین گنڈاپور لاہور آئے ہیں اور عالیہ حمزہ کو نہیں بلایا گیا، پارٹی میں عجیب سی بات ہے، ایک دوسرے کے خلاف چلتے ہیں، پارٹی میں جو صورت حال ہے وہ یونٹی نہ ہونے کی وجہ سے ہے،تحریک چلانے کے لیے بھی یہ متحد نہیں۔