سفارت کاری کے محاذ پر نئے سیاسی امکانات
salmanabidpk@gmail.com
وہ ریاست جو سفارت کاری کے محاذپر اپنی نظر رکھتی ہے اور اپنے لیے نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرتی ہے وہ ہی آج کی گلوبل دنیا سے جڑی سیاست میں اہمیت رکھتی ہے۔کیونکہ آج کی جنگ دو بنیادوں پر کھڑی ہے۔اول، سیاسی اور معاشی داخلی استحکام اور دوئم، سفارت کاری کے محاذ پر آپ کا عالمی تشخص یا مثبت چہرہ ہی آپ کے لیے نئے امکانات کو پیدا کرتا ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی یا ایران اور اسرائیل تنازعہ کے بعد پاکستان کی اہمیت اور ریاستی تشخص کو دنیا کی سیاست میں جہاں اہمیت ملی ہے وہیں ہمارے بارے میں جو شکوک و شبہات یا غلط فہمیاں تھیں وہ کافی حد تک دور ہوئی ہیں ۔پاکستان کا تشخص اب عالمی بالخصوص علاقائی سیاست میں بھارت کے مقابلے میں توازن اور برابری کی بنیاد پر سامنے آیا ہے۔
اس حالیہ کشیدگی میں جو توازن پر مبنی پالیسی پاکستان نے اختیار کی اس نے جہاں بھارت کو سفارت کاری کے محاذ پر سیاسی پسپائی پر مجبور کیا وہیں ہمیں بطور ریاست سفارت کاری کے محاذ پر نئے مواقع دیے ہیں جس کو بنیاد بنا کر ہم اپنی ریاست اور حکومت کا سیاسی قد عالمی اور علاقائی سطح پر بڑھا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان موجودہ حالات میں اپنی علاقائی اور جغرافیائی سیاست میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور اس کی حیثیت ایک پرامن ریاست کے طور پر دیکھی جا رہی ہے ۔بھارت نے ہمیشہ سے یہ کوشش کی کہ وہ علاقائی اور عالمی سیاست میں پاکستان کو جہاں تنہا کرے وہیں اسے ایک دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طو ر پر دیکھا جائے ۔مگر پہلگام واقعہ کے بعد سے لے کر اب تک بھارت کی پاکستان مخالف مہم جوئی اورسفارت کاری کے محاذ پر اختیار کی جانے والی منفی سرگرمی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ناکام ہوئی ہے ۔اس ناکامی نے بھارت کو نہ صرف سیاسی تنہائی میں مبتلا کیا ہے بلکہ اس کی داخلی سیاست بھی تنقید کی زد میں ہے۔
عالمی دنیا میں بھارت کے اس بیانیہ کو کہ پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے، کوکسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ۔ دنیا میں بھارت کے بیانیہ کے مخالف پاکستان کی حمایت میں جو بیانیہ سامنے آیا ہے وہ یقینی طور پر خطہ سمیت دنیا میں بھارت کی مشکلات کو بڑھانے کا سبب بنا ہے۔بھارت میں یہ رائے مضبوط ہورہی ہے کہ نریندر مودی کی پاکستان مخالف مہم نے بھارت کا عالمی دنیا میں سیاسی مقدمہ کمزورکیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے حالیہ بہت سے علاقائی معاملات میں اپنے کارڈ بہت اچھے کھیلے ہیں اور اس نے اسٹرٹیجک سطح پر خود کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا ہے۔
ایک طرف بھارت کے مقابلے میں سیاسی ،دفاعی اور سفارت کاری میں برتری کا پہلو، تو دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بداعتمادی کے مقابلے میں اعتماد سازی اور نئے مثبت تعلقات کا سامنے آنا ، پاکستان کے لیے چین کا اسٹرٹیجک پارٹنر بننا،افغانستان سے بہتر ہوتے تعلقات اور مڈل ایسٹ کی سیاست میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ظاہر کرتی ہے کہ ہم دنیا اور علاقائی سیاست میں ماضی کے مقابلے میں ایک مختلف اور مثبت جگہ پر کھڑے ہیں۔پاکستان بنیادی طورپر عالمی اور علاقائی سطح پر اپنے لیے نئے سیاسی، سفارتی اور معاشی امکانات کو پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
جو نئے حالات عالمی سیاست میں پاکستان کے تناظر میں بنے ہیں وہ ہمارے لیے نئے دروازوںاور راستوں کو بھی کھول رہا ہے اور دنیا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اب ایک نئے انداز میں دیکھ رہی ہے جو بطور ریاست پاکستان کے لیے خوش آئند پہلو ہے۔بالخصوص پاکستان کے بارے میں عالمی دنیا میں یہ رائے مثبت بنی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ اس کے عملی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے ۔
اسی طرح دنیا میں اس بات کو بھی اہمیت ملی ہے کہ پاکستان نے ایران اسرائیل تنازعہ کے خاتمہ میں بھی اپنی سفارت کاری کی بنیاد پر اہم کردار ادا کیا ہے۔بنگلہ دیش کے ساتھ ہوتے بہتر تعلقات اور روس کے ساتھ بہتری کے نئے امکانات جہاں ہمارے لیے سودمند ہے وہیں بھارت کو اس بات پر گلہ ہے کہ پاکستان عالمی اور علاقائی تعلقات میں نئے رشتے استوار کررہا ہے ،جو بھارت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔
ان حالات میں جب بھارت داخلی ، علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے وہیں اس کی ایک نئی مشکل یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تسلسل کے ساتھ پاک بھارت تنازعہ میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش کر رہے ہیں جو بھارت کو یقینی طور پر نہ تو قبول ہے بلکہ اس کے لیے یہ سفارت کاری کے محاذ پر ایک بڑا سیاسی جھٹکا ہے۔ایسے میں پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ اپنی سفارت کاری کو بنیاد بنا کراپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں اپنا سیاسی اور سفارت کاری کا مقدمہ مضبوط کرے۔ ہمیں دنیا کو ان معاملات پرمطمئن کرنا ہوگا اور ان کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا کہ پاکستان دہشت گرد نہیں بلکہ ایک پرامن ریاست ہے جو تنازعات کو جنگوں کی بجائے بات چیت کی مدد سے حل کرنا چاہتا ہے ۔
کیونکہ آج کی دنیا بیانیہ کی دنیا ہے اور جو ملک دنیا میں اپنا بیانیہ مثبت طور پر پیش کرے گا اسی ملک کا بیانیہ قابل قبول ہوگا۔ہمیں سفارت کاری کے محاذ کے میدان کو فعال کرنا ہوگا اور ایسے لوگوں پر انحصار کرنا ہوگا جو عالمی سطح پر ہمارا تشخص مثبت بنا سکیں۔اس کے لیے ہمیں اپنے داخلی نظام کو بھی درست کرنا ہے اور اس میں موجود سیاسی ،معاشی،سیکیورٹی یا دہشت گردی سے جڑے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو اس بات کا ادراک بھی ہے کہ دنیا ہم سے کیا چاہتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ میں ریاستی اقدامات میں کافی سنجیدگی بھی نظر آتی ہے۔
پاکستان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ داخلی استحکام اور سلامتی کے بغیر ہم سفارت کاری کے محاذ پر بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔یہ سمجھنا ہوگا کہ سفارت کاری کے عمل میں محض جذباتیت سے ہم کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہ جو قومی سطح پر سیاسی تقسیم ہے وہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے ۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سیاسی تقسیم کے پہلو کو نظرانداز کرنے کی پالیسی سے پاکستان سیاسی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے تو یہ بھی ممکن نہیں ہوگا۔اصل چیلنج ادارہ جاتی مضبوطی کا ہے۔
اگر پاکستان نے داخلی، علاقائی اور عالمی سیاست میں موجود اور نئے ابھرتے امکانات سے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں ماضی کی پالیسیوں سے باہر نکل کر کچھ نیا کرنا ہے۔جب تک ریاست اور حکومت کے تمام فریق مل کر کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار نہیں کریں گے مسائل کا حل کسی بھی صورت ممکن نہیں۔نئے سیاسی اور معاشی امکانات کا ابھرنا یقینی طور پر ایک فطری امر ہوتا ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ ہم ان نئے امکانات سے کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔