وقتی فلڈ رسپانس سے کام نہیں چلے گا…
بارش کے ساتھ بے شمار رومانوی داستانیں، گیت اور اشعار منسوب ہیں۔
رم جھم رم جھم پڑے پھوار
تیرا میرا نت کا پیار
تاہم بارش کے ساتھ یہ رومانوی تعلق آجکل شدید گڑ بڑ کا شکار ہے۔ معمول کی بارش نہ ہو تو ماحول اور انسان گھبرا جاتا ہے، نوبت دعاؤں تک آ جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بارش معتدل ہو تو رحمت ورنہ زحمت بن جاتی ہے۔ پاکستان اس سال مون سون کے بدلے ہوئے تیور کا شکار ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال بارشیں پچھلے سال کی نسبت 60 فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ مون سون کے پہلے تین اسپیل اپنا غضب ڈھا چکے۔ این ڈی ایم اے کے نئے الرٹ کے مطابق بارشوں کا چوتھا اسپیل 25 جولائی تک جاری رہے گا۔
مون سون ایک فطری عمل ہے اور اس کے پانی کا بہاؤ بھی ایک فطری عمل سے گزرتا ہے۔ بالائی پہاڑی علاقوں میں قدرت کی طرف سے بارشوں کے لیے آبی گزرگاہیں ندی نالوں کی صورت میں پانی کو راستہ دیتی ہے۔ میدانی علاقوں میں بھی آبی گزرگاہوں کے سلسلے صدیوں سے قائم تھے۔ البتہ چند دہائیوں کے دوران آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
بڑھتی آبادی کے دباؤ میں وسائل کی چھینا جھپٹی معمول بنتی گئی۔ مفادات کی نگہبانی اور ہل من مزید پر استوار سیاسی نظام ، انتظامی ڈھانچہ اور اداروں کو تسمہ پاء بنانے کے مسلسل عمل نے قانون کی کمزور عمل داری، کرپشن اور مار دھاڑ پر مبنی گورننس اسٹرکچر کو فروغ دیا ہے۔
نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے جا بجا کمرشل اور زرعی مقاصد کے لیے زمینوں پر قبضے اور تعمیرات معمول ہے۔ بالائی پہاڑی علاقوں میں سیاحت کے تجارتی مقاصد کے لیے تجاوزات کی بھرمار ہے۔ میدانی علاقوں کی آبی گزرگاہوں پر ناجائز تصرف کا بھی یہی حال ہے۔ شہری آبادیوں میں تو رئیل اسٹیٹ ہی اصل دھندہ ہے۔ ایسے میں پانی کے قدرتی راستے مسدود ہو گئے یا ناکافی ہو گئے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔دوسری طرف عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں بارشوں کے معمول میں حیرت انگیز تغیر و تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ پاکستان کو بھی اب ان ان چاہی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ ،فلیش فلڈز اور اربن فلڈنگ کے واقعات اب کم و بیش معمول بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
دریائے سوات کے کنارے چند ہفتے قبل ایک ہی خاندان کے متعدد افراد دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی نذر ہو گئے۔ اس خون ناحق پر اٹھا شور اور انکوائریاں متعلقہ اداروں کی غفلت کی پردہ پوشی اور باہمی الزام تراشیوں کے گھاٹ اتر گئیں۔ چکوال میں اسی ہفتے کلاؤڈ برسٹ نے قیامت ڈھائی۔ 250 ملی میٹر بارش نے گھنٹے بھر میں جہلم، چکوال اور نواحی علاقے کا منظر بدل کر رکھ دیا۔ راولپنڈی میں 18 گھنٹے کی مسلسل بارش نے عملاً شہر کو پانی پانی کر دیا ۔ گاڑیاں بچوں کے کھلونوں کی طرح بہتی دیکھی گئیں۔کئی جگہوں پر پھنسے افراد کو ایئر لفٹ کیا گیا۔ ان حادثات میں درجنوں لوگ اپنی جان سے گئے۔این ڈی ایم اے کے تازہ ترین الرٹ کے مطابق بارش کا حوصلہ اور جوش ٹھنڈا نہیں پڑا اور یوں بارش کا چوتھا اسپیل 25 جولائی تک برسنے کو تیار ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔
رواں مہینے محض ایک ہفتے کی بارش نے راولپنڈی، مردان، نوشہرہ، وزیرآباد، لاہور اور کراچی کو گویا کسی جنگ زدہ شہر میں بدل دیا۔ نالے اْبل پڑے، سڑکیں ٹوٹ گئیں، گاڑیاں پانی میں تیرنے لگیں، اور بجلی و گیس کی فراہمی معطل ہو گئی۔ اگرچہ پاکستان میں مون سون کا آنا نیا نہیں، مگر اربن فلڈنگ کا یہ غضب نیا ہے جو اب معمول بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے بیشتر شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ اب ایک خطرناک اور مستقل رجحان بن چکا ہے۔ راولپنڈی کا نالہ لئی ہر مون سون میں خبروں میں آتا ہے۔ لاہور، کراچی سمیت دیگر شہروں کا بھی بارش کے جل تھل میں یہی حال ہوتا یے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تباہی سراسر کوئی قدرتی انتقام ہے یا ہماری اپنی بدنظمی کا بھی اس میں کچھ حصہ ہے؟ محکمہ موسمیات کے مطابق، جولائی کے پہلے پندرہ دنوں میں صرف پنجاب میں اوسط سے 65% زائد بارش ریکارڈ ہوئی۔NDMA (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی 15 جولائی 2025 کی رپورٹ کے مطابق 326 افراد جاں بحق ہوئے۔ 41 اضلاع میں 42,000 سے زائد خاندان متاثر ہوئے۔ 9,200 مکانات کی تباہی کا تخمینہ ہے۔ نقصان کا ابتدائی تخمینہ 38 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
2025 کا پہلا نصف دنیا بھر میں شدید موسمی تغیرات کا غماز رہا۔ امریکا کی کئی ریاستوں میں حال ہی میں سیلاب نے بے تحاشہ تباہی مچائی۔ چین کے صوبے سیچوان میں 11 جولائی کو صرف 24 گھنٹوں میں 230 ملی میٹر بارش ہوئی، بھارت کی ریاست آسام میں 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے، اٹلی کے شہر بولونیا میں بارش نے 75 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، کینیڈا کے صوبہ البرٹا میں تاریخی سیلاب سے 1.2 بلین کینیڈین ڈالر کا نقصان ہوا۔ عالمی موسمیاتی ادارے (WMO) نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں مون سون اب ’’کم مگر انتہائی شدید‘‘ بارشوں کے رجحان کی طرف بڑھ رہا ہے۔مگر ہم نے ان عالمی اشاروں کو نظرانداز کیا… اور نتیجہ ہمارے شہروں کے اندر اْبلتے نالے، ٹوٹی سڑکیں اور شہری سیلابی ریلوں میں گرتے پڑتے ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ ماحولیاتی تبدیلیوں اور بارشوں کے معمول میں غضبناک تبدیلیوں کے پیش نظر ہمیں کئی اقدامات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے تحت سیلابی زونز کی فوری نشاندہی اور تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہر بڑے شہر میں الگ ‘‘فلڈ ریسپانس پلان’’ ہونا چاہیے، جس میں پانی کے بہاؤ، ذخیرے اور نکاسی کا مکمل ڈیٹا شامل ہو۔ روایتی نالوں کی جگہ اب زیر زمین سرنگی نظام، واٹر ری سائیکلنگ اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹمز وقت کی ضرورت ہیں۔ ہر ضلعے میں چھوٹے ڈیمز اور واٹر ریٹینشن پوائنٹس تعمیر کیے جائیں۔
کیا ہم اس موسمیاتی چیلنج کا سامنا پائیدار بنیادوں پر کرنے میں سنجیدہ ہیں؟اس سوال کا جواب ہمارا اپنا عمل دے گا۔ کیا ہم ہر سال تباہی کے بعد ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھیں گے یا زمین پر قدم جما کر عقل، سائنس اور دیانت کے ساتھ منصوبہ بندی کریں گے؟