زباں فہمی260؛دارُالّسُرُور۔رام پور (حصہ پنجُم/آخر)
زباں فہمی260 ؛ دارُالّسُرُور۔رام پور (حصہ پنجُم/آخر)، تحریر : سہیل احمد صدیقی
’’رام پور کا ذوقِ سخن یہ رہا ہے کہ:
ا)۔ اغلاق (دقیق الفاظ: س اص) سے بچاجائے۔ب)۔ عام مضامین کو کہتے وقت اُن میں کوئی اچھوتا اور نادر پہلو اختیارکیا جائے اور ج)۔ الفاظ کی ہم آہنگی سے شعر میں مُوسیقیت پیدا کی جائے‘‘۔ (اقتباس: ’رام پورکا ذوقِ سخن‘ از رازؔ یزدانی مشمولہ ’دبستان ِ رام پور‘ مرتبہ سلیم عنایتی و اظہرعنایتی)۔
اس اقتباس کے بعد کی عبارت بھی توجہ چاہتی ہے، مرتب نے بہ بانگِ دُہل یہ اعلان کیا کہ ’’یہی وجہ ہے کہ رام پور کی شاعری نے نظام الدین ممنونؔ کی پیروی کی نہ شاہ نصیرؔ کی تقلید....یعنی رام پور کی شاعری میں مراعاۃ النظیر اور رِعایتِ لفظی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
میرا دعویٰ ہے کہ رام پور کی شاعری کے کسی دورمیں شعر کو لفظی گورکھ دھندہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ اُس کو اَچھوتا، ہلکے پھُلکے بیان اور شعری مُوسِیقیت کا مظہر بنادیا گیا ‘‘۔ ا س دعوے کی تائید میں انھوں نے فہرستِ شعراء یا نمونہ ہائے کلام کی بجائے تمام معتبر تذکروں کے نام لکھے ہیں جن میں ایسے رام پوری (یعنی ساکن ِ ریاست) شعراء کا بھی ذکر ملتا ہے جن کا دیوان محفوظ یا معلوم نہیں!
{ا)۔ میر نظام الدین ممنون ؔ دہلوی کو بہادرشاہ ظفرؔ کے والد شاہ اکبر ثانی نے ’فخرالشعراء‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ فنّی محاسن کے لحاظ سے اپنے عہد کے ممتاز سخنور تھے۔ اُن کے دور میں یہ مصرع ضرب المثل بن کر اُن کی شناخت ہوگیا تھا: ع میرممنونؔ خیر باشد؟ تم پہ کیا اُفتاد ہے؟ ڈاکٹر منشاء الرحمٰن خاں منشاءؔ نے اُن کی شاعری پر ناگپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔
اُن کا مقالہ ’مطالعہ میر نظام الدین ممنون ؔ دہلوی: حیات، شخصیت اور شاعری‘ 1973ء میں منصہ شہود پر آیا اور آنلائن دستیاب ہے۔ منشاءؔ کے بیان کے مطابق، ممنونؔ کے کلام کی نمایاں خصوصیات میں جذبات کی مصوّری، چھوٹی یعنی مختصر بحور میں مشقِ سخن، سنگلاخ زمینوں میں طبع آزمائی، دقّت پسندی، رنگ ِ تصوف، سہل مُمتنع، طویل ومسلسل غزلیات گوئی، بدیہہ گوئی، صنائع وبدائع کا اہتمام، تمثیل نگاری، لطفِ بیان واسلوبِ بیان اور منفرد آہنگ شامل ہیں۔ اس قدر بھرپور تعارف کے حامل شاعر کو نظراَنداز کردیا گیا...ہائے ہائے۔
ممنونؔ کے والد، میر قمرالدین منّت ؔ بُخاری عربی وفارسی کے جیّد عالم اور فارسی و ریختہ کے مستند، صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ گویا راقم کے ننھیالی ہم جَد تھے کہ ہمارا ننھیالی سلسلہ بھی سیّد جلال الدین سُرخ پوش بخاری رحمۃ اللّہ علیہ سے جاملتا ہے۔ منّتؔ کے اشعار کی تعداد ڈیڑھ لاکھ بتائی گئی ;عاشق مزاج ، انگریز اور دیگر اُمراء کے خوشامدی درباری اور شاہ ولی اللّہ کے عزیز وتلمیذ، نیز مولانا فخرالدین دہلوی کے مُرید تھے۔ موصوف گورنرجنرل کی طرف سے مَلِک الشُعراء کے لقب سے ملقب ہوئے اور پھر لکھنؤ جاکر، انھوں نے شیعہ مذہب اختیار کرلیا۔
ب)۔ شاہ نصیر ؔ(1756 تا 23 نومبر 1838) اپنے وقت کے استاد شاعر تھے۔ شیخ حاتمؔ، سوداؔ، میرؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے معاصر، یہ شاعر بدیہ گوئی میں بہت ممتاز تھے۔ اُن کا یہ شعر مشہور ہوا:
چرائی چادر مہتاب، شب میکش نے جیحوں پر
کٹورا صبح دوڑانے لگی، خورشید ِ گردوں پر
جیحوں ایک بڑے دریا کا نام ہے جسے آمُو (Amu) اورOxus بھی کہتے ہیں۔ یہ دریا افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان اور اُزبکستان کو سیراب کرتا ہے}۔
راقم اس بیان پر یہ تبصرہ کرنا چاہتا ہے کہ جب دِلّی اور لکھنؤ کے بڑے مراکز نیز اُن کے پہلو بہ پہلو کوئی مقام حاصل کرنے والے دکن اور بِہار وبنگال کے مراکز سماجی، سیاسی، علمی واَدبی زوال کا نوحہ رقم کررہے تھے اور یہ معاملہ بھی متفق علیہ نہ تھا کہ کلاسیکی طرز سے کس قدر دُوری بہتر ہے، ایسے میں ایک نئے ادبی محور کا قائم ہونا بذاتہ، علمی وادبی سرگرمیوں کے لیے ایک نئی جہت تھی۔ یہ بات کسی بھی طرح مستحسن نہ تھی کہ اِن بڑے مراکز کے سائے میں پروان چڑھنے والے ایک نئے ادبی گڑھ میں وہی زبان، وہی اسلوب اور وہی رنگ ڈھنگ جاری رہیں، لہٰذا ہمارے شعراء نے شعوری طور پر اور کچھ ریاست کے مقامی ماحول اور فضاء کو دیکھتے ہوئے اکتسابی طور پر نئی راہ نکالی۔
علامہ نیاز فتح پوری نے کیا خوب نثری قصیدہ لکھا تھا:’’فردوس مکاں نواب یوسف علی خاں ناظمؔ اور خُلد آشیاں نواب کلبِ علی خاں نواب ؔکا عہد بھی رام پور کی تاریخ میں ہمیشہ عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جائے گا، جب ہندوستاں کے اصحابِ ذوق اور اَربابِ کمال کھِنچ کھِنچ کر بارگاہِ حکومت میں جمع ہورہے تھے، مغلیہ بز م کی آخری شمع گُل ہوچکی تھی اور اِس کے پروانے اِھراُدھر ہوچکے تھے کہ اُفُقِ مصطفی آباد (رام پور) میں روشنی کی جھلک نظر آئی اور سب نے اُسی طرف کا رُخ کرلیا‘‘۔
اسی طرح کئی دیگر مشاہیرِادب نے دبستانِ رام پور کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ نثاراحمد فاروقی نے فرمایا کہ ’’دبستانِ رام پور کی نمایاں شعری خصوصیات ہیں: زبان وبیان کی سلاست و فصاحت، لب ولہجے کا تیکھا پن، طنز آمیز مگر شائستہ تمسخر اور اُردو کی کلاسیکی شعر میں روایتوں کی پاسداری۔ ان میں سب سے نمایاں وصف، لہجے کی ندرت اور دل نشیں کیفیت ہے‘‘۔ بقول ’عنایتی‘ مرتبینِ ’دبستانِ رام پور‘ (سلیم عنایتی اور اظہر عنایتی) اس دبستان کی شاعری میں، پشتو زبان کے اثرات اور روہیلہ پٹھانوں کے مزاج جیسی خصوصیات دَر آئی ہیں اور یہ مردانہ لہجے، صاف گوئی، بے ساختگی، چٹخارے اور منفرد تیور کے سبب ممتاز ہوگئی ہے۔
نوابیِن رام پور اور اُن کے اُمراء کی علم دوستی واَدب پروری کے طفیل بہت جلد یہ ریاست ہندوستان میں شیرازو اِصفہان جیسی اہمیت اختیار کرگئی۔ دو بڑے لسانی وادبی مراکز دِلّی اور لکھنؤ کے دم توڑتے توڑتے، رام پور جیسا منفرد مرکز معرِضِ وجود میں آیا تو اِ س کی لسانی حیثیت واہمیت تسلیم کی گئی۔ بقول ’عنایتی‘ حضرات، روہیل کھنڈی لہجے میں پشتو کی صلابت شامل ہونے سے یہ زبان یعنی اس حصے کی زبان اور بھی ممتاز ہوگئی، جبکہ اسے دلِی اور بِہار کے بعد ، تیسرے بڑے مرکز کا درجہ بھی مل گیا۔
شعرائے رام پور میں ایک بڑی تعداد، وہاں نقل مکانی کرکے آنے والے اور مقامی رنگ اختیار کرنے یا اس پر اثراَنداز ہونے والے حضرات کی ہے۔ ماقبل نظام رام پوری اور اُن کے مقلد داغ ؔ دہلوی کا ذکر ہوا۔ اب یہ تحقیق بھی نظر سے گزری کہ مجموعی جائزے کے لحاظ سے داغ ؔ کی زبان دِلّی سے زیادہ رام پور کی ہے اور بقول پروفیسر عبدالشکور، یہ دونوں سخن میں دوش بدوش ہیں۔ مومنؔ کے ایک شاگرد مِیر تسکین دہلوی نے رام پور کو اَپنا مسکن بنایا اور وہی اُن کا مدفن بنا۔ اُن کا یہ شعر سہواً مومنؔ سے منسوب کیا گیا:
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
یہاں بے شمار دیگر مثالیں چھوڑتے ہوئے کچھ اور بات کہنا چاہتا ہوں۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
اس مشہورِ زمانہ شعر کا خالق بطور شاعر کم اور بطور جری سیاست داں اور معتبر صحافی زیادہ معروف ہے۔ (ضمنی نکتہ: دوسرا مصرع عموماً یوں لکھا اور پڑھا جاتا ہے; یہ بندہ دوعالَم سے خفا میرے لیے ہے)۔ اُسی منفرد علمی واَدبی شخصیت کا دوسرا مشہور شعر یہ ہے:
قتلِ حُسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اب تو یقیناً جاننے والے جان گئے ہوں کہ یہاں عظیم مجاہدِ آزادی ، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؔ سے مراد ہے جو فقط باون سالہ زندگی میں بہت سوں سے بڑھ کر کام کرگئے۔ ہرچندکہ شعری محاسن کے جائزے سے وہ کوئی بڑے شاعر معلوم نہیں ہوتے، مگر بہرحال اُن کے شعری معائب بھی کچھ ایسے نمایاں نہیں کہ ہم انھیں سرے سے نظراَنداز کردیں۔ بطور صحافی اُنھوں نے The Weekly Comradeاور ’ہمدرد‘ جیسے منفرد اخبارات کے ذریعے ایک عالم کو متاثر کیا، خصوصاً انگریزی علمی و صحافتی و سیاسی حلقوں کو۔ علی گڑھ اور آکسفرڈ کی جامعات سے فارغ ہونے والے محمد علی کو اُن کے حینِ حیات، مسٹر محمدعلی کہا جاتا تھا، پھر تحریک ِ خلافت میں اُن کے کلیدی کردار نے انھیں ’مولانا محمد علی‘ اور بعداَزآں مولانا محمد علی جوہرؔ بنادیا۔ میری پرانی تحریروں میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ وہ اور اُن کے بھائی شوکت علی، اپنے زمانہ طالب علمی میں بہت اچھے کرکٹر بھی تھے۔ ایک مرتبہ جب محمدعلی کی پرانی درس گاہ آکسفرڈ سے ایک کرکٹ ٹیم ہندوستان آئی تو ایک بھائی آکسفرڈ اور دوسرے بھائی علی گڑھ کی ٹیم سے کھیلے تھے۔
مولانا محمد علی جوہر نے غزل کے پیرائے میں یہ مشہور نعتیہ شعر بھی کہا تھا:
تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگیں اُن سے خلوت میں ملاقاتیں
جوہرؔ کو کراچی سے ایک خاص نسبت تھی۔ جولائی1921ء میں عیدگاہ میدان (بالمقابل جامِع کلاتھ مارکیٹ، بندر روڈ)کراچی میں اُن کی سربراہی میں تیسری ’آل انڈیاخلافت کانفرنس‘ منعقد کی گئی جو حکومتِ وقت کے خلاف اعلانِ بغاوت کے مترادف ثابت ہوئی۔26 دسمبر 1921ء کو غلام حسین خالق دِینا ہال میں مولانا محمد علی جوہرؔ، شوکت علی، حسین احمد مَدْنی، مولانا نثار اَحمد کانپوری، پِیر غلام مجدد سرہندی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور سُوامی شنکر اَچاری (یہ اچاریہ غلط مشہور ہے) پر مقدمہ بغاوت چلایا گیا اور ملزمِین کو دو۔دو سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ مولانا جوہر کو یہیں کراچی کی سینٹرل جیل کی ایک کھولی میں قید کیا گیا جو آج تک محفوظ ہے۔ جوہرؔ نے ہندوستان کی سیاست میں شعلہ انگیز کردار اَدا کیا۔ گاندھی سے قربت بڑھی تو ’ہندو۔مسلم اتحاد‘ کا سلسلہ دراز ہوا، مسلمان تحریکِ ترک موالات ( تحریک عدم تعاون ) اور پھر تحریک ِ ہجرت میں شامل ہوئے اور جب علی برادران، تحریک خلافت چلانے کے جرم میں قید ہوئے تو گاندھی جی نے ایک معمولی واقعے کو بنیاد بناکر تحریکِ عدم تعاون ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ رہائی کے بعد، علی برادران نے اپنے مؤقف سے رجوع کرتے ہوئے، ’ہندو۔مسلم اتحاد‘ سے توبہ کی، اعلیٰ حضرت احمد رضاخاں بریلوی (رحمۃ اللہ علیہ) کا نظریہ ’’دوقومیت ‘‘تسلیم کیا اور اُن کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب محمد علی جوہر نے محمد علی جناح کو سید وزیر حسن کی معیت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا رُکن بنوایا تو وہ دور شروع ہوا جس کے لیے آگے چل کر کہا گیا:
ملا ہے وراثت میں تختِ سیاست
محمد علی سے محمد علی کو
انگریزوں کو براہ راست للکارنے والے محمد علی جوہرؔ نے 4جنوری 1931ء کو وفات پائی تو اَپنا ہی شعر صحیح ثابت کردیا:
ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر
یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے
انھوں نے خاکساری میں ایک مرتبہ کہا تھا:
جیتے جی تو کچھ نہ دِکھلایا، مگر
مرکے جوہرؔ آپ کے جوہر کھُلے
مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن کی ولولہ انگیز قیادت کچھ اور عرصہ میسر رہتی تو آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا دھارا، چودھری رحمت علی کی تن تنہا ’تحریکِ پاکستان‘ کی طرف جلد مُڑجاتا اور شاید بہتر حالات میں پاکستان قائم ہوتا۔
رام پور کی علمی وادبی تاریخ میں شاعری کا حصہ اس قدر توانا ہے کہ ذکر کرتے ہوئے نثر کا گوشہ نظرانداز ہوجاتا ہے، حالانکہ نثر، وہ بھی علمی موضوعات پر، بہت لکھی گئی اور نثر نگار حضرات میں ایک بڑا طبقہ علماء و صوفیہ کرام کا تھا یعنی نثر میں دینی ومذہبی تصنیف وتالیف وترتیب کا حصہ غالب تھا۔ اس باب میں طبع زاد نگارشات بر موضوع تذکرہ، تاریخ، داستان، لغات، قواعدواِنشاء وغیرہ اور تراجم کی بہت بڑی فہرست موجود ہے۔ قلمی مخطوطات کا ایک حصہ رضا لائبریری میں موجود ہے جبکہ مزید منتشر ہے۔ ریاست کے قیام کے بعد ابتدائی دور میں مشہور اَوَدھی ہندی شاعر مَلِک محمد جائسی کی ’’پدماوت‘‘ (سن تصنیف: 1538) کا اردو ترجمہ میرضیاء الدین عبرت ؔاور میر غلام علی عشرت ؔکی کاوش سے1796میں منصہ شہود پر آیا۔ (غلام علی عشرت وہی شخص ہیں جنھوں نے رامپور میں ’’داستان سحر البیان‘‘ کے نام سے نثری داستان لکھی۔ اس داستان کا مخطوطہ رامپور کی رضا لائبریری میں موجود ہے)۔ اس کے بعد لکھنؤ میں پنڈِ ت بھگوَتی پرساد پانڈے انوج، ساکن موضع ہاتھی گردہ، پوسٹ متھرابازار، بہرائچ نے ترجمہ کیا تھا جو لکھنؤ کے نَوَل کِشورمطبع سے شایع ہوا اور آنلائن دستیاب ہے۔ اس پر نظرِثانی مولوی عبدالباری آسی ؔ اور جعفر علی فاضل دیوبند نے کی تھی۔
تذکروں کی فہرست (منثور ومنظوم) بہت طویل ہے جس میں بیرونِ ریاست لکھے گئے وہ تذکرے بھی شامل کیے جاسکتے ہیں جن میں رام پور کے مقامی یا نقل مکانی کرکے وہاں مقیم شعراء کا احوال قلم بند کیا گیا مثلاً مجموعہ نغز، تذکرہ ہندی گویاں، ریاض الفُصَحاء، شمیمِ سخن، طُورِ کلیم، مخزنِ نِکات، عقدِ ثریا، بیاضِ سخن، انتخابِ یادگار، خُم خانہ جاوید، طبقات الشعرا، تذکرہ کاملان رامپور، تاریخِ ادبیاتِ رام پور، دبستانِ رام پور، ادب گاہِ رام پور، تذکرہ ہنر مندان رامپور، رامپور شناسی اور رامپور کا دبستان شاعری وغیرہ شامل ہیں۔
علمائے رام پور کے باب میں ایک تفصیلی قسط لکھی جاسکتی ہے، مگر تنگی قرطاس و تنگی وقت دونوں ہی مانع ہیں۔ مصلحتاً اس موضوع کو یہیں ختم کرتے ہوئے فقط یہ عرض کردوں کہ ’دارالسرور‘ کے لقب سے ملقب ہونے والے مقامات میں برہان پور، رام پور، بہاول پور کے علاوہ جے پور، راجستھان اور خیرپور، سندھ کے اسماء شامل ہیں جبکہ ایران کے صوبے قزوین میں ایک گاؤ ں کا نام ’دارالسرور‘ ہے۔
’دارالسرور۔رام پور‘ کے موضوع پر لکھتے ہوئے مجھے بزم زباں فہمی کے اراکین حکیم حافظ محمد ذیشان احمد، عبیدالرحمٰن ، سلیم خان ودیگر نے بیش قیمت مواد فراہم کیا۔ جن کے نام ابھی ذہن سے محو ہوگئے ہیں، وہ بھی اس ہدیہ سپاس میں شامل ہیں۔
(اختتام)