شدید بارشیں، اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں
خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں بھی کلاؤڈ برسٹ، آسمانی بجلی گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ نے تباہی مچا دی۔ سیلابی ریلے کے سبب صوابی کے کئی پہاڑی گاؤں شدید متاثر ہوئے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے خیبر پختون خوا کے سیلاب متاثرین کے لیے وفاقی کابینہ کی ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی ہے، جب کہ اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ اگر مدد کی درخواست کی گئی تو اقوام متحدہ تیار ہے۔
پاکستان بھر میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شدید بارشیں ملک بھر میں جانی اور مالی نقصانات کا باعث بن رہی ہے، حالیہ دنوں میں جو صورتحال پیش آئی ہے، وہ نہ صرف المناک ہے بلکہ ملک میں آفات سے نمٹنے کے نظام کی کمزوریوں کو ایک بار پھر عیاں کرتی ہے۔ قدرتی آفات انسانی بس کی بات نہیں ہوتیں، مگر ان سے نمٹنے کے لیے جو تیاری اور پیش بندی درکار ہوتی ہے، وہ انسان کے اختیار میں ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور متعلقہ ادارے غیر تیاری کے عالم میں دکھائی دیے۔ موسم کی خراب صورتحال کی پیشگی اطلاعات کے باوجود کوئی پیشگی ہنگامی منصوبہ بندی، کوئی بروقت حفاظتی اقدامات یا عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا کوئی مؤثر انتظام نظر نہیں آیا۔ صوبے میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک موسمی حادثہ نہیں تھا بلکہ انتظامی ناکامی، نااہلی اور غلفلت کی واضح مثال ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں ایک حقیقت ہیں اور ان کا اثر پوری دنیا محسوس کر رہی ہے۔ پاکستان، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقے، ان تبدیلیوں کے براہ راست زد میں ہیں، مگر حکومتوں کی ترجیحات میں موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کا منصوبہ کہیں نظر نہیں آتا۔ نہ تو مقامی حکومت نے قبل از وقت کوئی وارننگ جاری کی، نہ ہی ہنگامی صورتحال کے لیے مقامی انتظامیہ کو کسی قسم کی تربیت یا وسائل فراہم کیے گئے۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی خاص طور پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں بار بار ایسی آفات رونما ہوئی ہیں، مگر ہر بار حکومت اور ضلعی انتظامیہ ایک جیسی بے بسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار، متاثرین کی رجسٹریشن میں بدنظمی، امدادی سامان کی غیر منصفانہ تقسیم اور سب سے بڑھ کر، میڈیا کی حد تک محدود سرکاری دعوے۔
عوام کو نہ صاف پانی میسر ہے، نہ رہائش، نہ خوراک، اور نہ ہی صحت کی سہولیات۔ حکومتوں کی یہ بھی ناکامی ہے کہ آفات سے متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے کوئی طویل المدتی اقدامات نظر نہیں آتے۔ سڑکیں جو ہر بار سیلاب میں بہہ جاتی ہیں، وہ اسی معیار سے دوبارہ تعمیر کی جاتی ہیں جیسے پہلے تھیں۔ پل جو لینڈ سلائیڈنگ میں گرجاتے ہیں، انھیں مرمت کی بجائے وقتی سہارا دے کر کھولا جاتا ہے، گویا اگلی آفت تک انھیں جوں کا توں چھوڑ دیا جائے۔ اسکول اور اسپتال جن کی چھتیں کمزور ہیں، آج بھی وہی خطرہ بنے ہوئے ہیں جو کل تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا یہ بیان کہ اگر پاکستان مدد کی درخواست کرے تو وہ تیار ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت میں اتنی بصیرت ہے کہ وہ بروقت، منظم اور مؤثر طریقے سے ایسی مدد کو طلب کرے اور استعمال بھی کرے؟ بدقسمتی سے، ماضی کا ریکارڈ کچھ حوصلہ افزا نہیں۔ بین الاقوامی امداد اکثر کرپشن، ناقص منصوبہ بندی، اور بدانتظامی کی نذر ہو چکی ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ یعنی بادلوں کے اچانک پھٹنے جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جب فضا میں نمی کی مقدار غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے تو بارش کا حجم معمول سے کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اب نہ صرف بارشوں کی مقدار بڑھی ہے بلکہ ان کے اثرات بھی کہیں زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ اب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زیادہ شدت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بارشوں، پگھلتی برفانی جھیلوں، زمین کھسکنے اور ندی نالوں میں طغیانی جیسے مسائل اب معمول کی بات بنتے جا رہے ہیں۔
درحقیقت موسمیاتی تبدیلی اب کوئی مستقبل کی بات نہیں رہی بلکہ حال میں ہمارے اردگرد موجود ہے اور اگر ہم نے فوری، پائیدار اور اجتماعی اقدامات نہ کیے تو تباہی کا یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جو پہلے ہی قدرتی آفات کے مقابلے میں کمزور ہیں، ان کے لیے یہ صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، سیلاب ہمارے وطن عزیز کے30سے40 فیصد سے زائد آبادی کے لیے ہر سال ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، سیالکوٹ کا نالہ ہو یا راولپنڈی کا، گنڈا سنگھ کا بارڈر ہو یا دریائے ستلج کے بہاؤ کا علاقہ، پتن کا علاقہ ہو یا سندھ کا، جہاں ہر سال سیلاب آتا ہے فصلیں تباہ ہوتی ہیں، گھروں کا صفحہ ہستی سے مٹنا بھی شامل ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تلخ نتائج سے نمٹ رہا ہے، اسے متعدد ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے جو اس کے ماحولیاتی نظام، معیشت اور معاشرتی تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو ملک کو مزید خطرات درپیش ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان مجموعی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کے لیے پانچواں سب سے زیادہ حساس ملک ہے۔
مزید یہ کہ شمالی علاقے، بشمول کے پی اور جی بی، نیز بلوچستان، اپنے جغرافیہ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات کے نزدیک تر ہیں۔ پنجاب میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہروں کو اکثر سیلابی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔
خیبر پختو نخوا (کے پی) کے علاقے، جیسے پشاور، سوات، ایبٹ آباد، دیر، مانسہرہ اور کوہستان کو سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا ہے لیکن سندھ بھی پیچھے نہیں۔ بالائی سندھ، بشمول سکھر اور لاڑکانہ، کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ وغیرہ میں موسلادھار بارشوں کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے شمال مشرقی اور مشرقی حصے، جیسے ڈیرہ غازی خان کے پہاڑی دھارے، اچانک سیلاب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان (جی بی) شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور رکاوٹوں کا شکار ہے، تاہم کشمیر مظفرآباد جیسے علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اورتیز سیلاب سے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے کا احتمال ہے۔
این ڈی ایم اے کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بارش کھیتوں کو ڈبو سکتی ہے، جس سے فصلوں کو نقصان ہوتا ہے، خاص طور پر گندم اور کپاس جیسی پانی کی حساس فصلوں کے لیے۔ تاہم بھاری بارشیں اوپر کی مٹی کو دھو سکتی ہیں، مٹی کی زرخیزی کو کم کر سکتی ہیں اور مستقبل کی فصل کی پیداوار کو منفی طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔ بارش کے بے ترتیب نمونے زرعی کیلنڈر میں خلل ڈال سکتے ہیں، پودے لگانے اور کٹائی کے اوقات میں تاخیر، جس سے فصل کا معیار اور پیداوار کم ہو سکتی ہے۔
نمی میں اضافہ اور کھڑا پانی کیڑوں اور بیماریوں کے لیے سازگار حالات پیدا کرتا ہے اور فصلوں کو مزید نقصان پہنچاتا ہے۔ مزید برآں مسلسل شدید بارشیں آبی ذخائر کا سبب بن سکتی ہیں، فصلوں کے جڑوں کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہیں اور پودوں کی خراب صحت اور کم پیداوار کا باعث بنتی ہیں۔ سیلاب زدہ سڑکیں اور انفرا اسٹرکچر زرعی سامان کی نقل و حمل میں تاخیر کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں فصل کی کٹائی کے بعد نقصان ہوتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور شجر کاری نہ ہونے سے قدرتی نکاسی آب کا نظام کو بھی درہم برہم ہے، اس سے بھی مون سون بارشوں کی شدت اور اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے لیے پوری قوم کو تیار کر کے مستقل لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔عوام کی تکالیف کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان کی تکلیفوں کا ازالہ صرف امدادی سامان سے نہیں، بلکہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل سے ہو سکتا ہے۔
انھیں روزگار، چھت، تعلیم، صحت، اور عزت کے ساتھ جینے کا حق دیا جانا چاہیے، نہ کہ صرف دکھاوے کی امداد سے بہلایا جائے۔اگر ہم نے اب بھی نہ سیکھا، تو ہر سال مون سون کی بارشیں ہمیں یہ سبق دہراتی رہیں گی۔ وقت ہے کہ ہم صرف ’’ قدرتی آفات‘‘ کا رونا رونے کے بجائے اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور انھیں دور کریں، کیونکہ یہ محض قدرت کا قہر نہیں، بلکہ ہماری اپنی نااہلی کا نتیجہ بھی ہے۔