بارشیں۔ رحمت سے زحمت تک

ریاستی ادارے، افواج پاکستان کے جوان اور فلاحی تنظیمیں جیسے کہ الخدمت فاؤنڈیشن، ان بے آسرا افراد کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں ہیں

بارش کو ہمیشہ سے اللہ کی رحمت کہا گیا ہے۔ یہ کھیت کھلیانوں کو زندگی بخشتی ہے اور بنجر زمین کو نئی حیات عطا کرتی ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں یہی بارش اکثر خوفناک المیے کا روپ دھار لیتی ہے۔

پچھلے دنوں خیبر پختونخواہ اور کسی حد تک پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے، وہ دل کو لرزا دینے والی داستان ہے۔پہاڑوں سے اترتے ہوئے بپھرے پانی کے ریلے گاؤں کے گاؤں بہا لے گئے۔ کسانوں کی فصلیں، جو ان کی سال بھر کی محنت کا ثمر تھیں چند گھنٹوں میں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔

گھروں کی دیواریں زمین بوس ہوئیں، لوگ اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر جب کوئی ماں اپنے لختِ جگر کی موت پر بین کرتی نظر آتی ہے یا بچے کھلے آسمان تلے لرزتے دکھائی دیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس وقت پورا پاکستان اپنے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کے غم میں شریک ہے۔

ریاستی ادارے، افواج پاکستان کے جوان اور فلاحی تنظیمیں جیسے کہ الخدمت فاؤنڈیشن، ان بے آسرا افراد کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں ہیں۔ ریسکیو آپریشن جاری ہیں، کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کی جا رہی ہیں اور متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امداد عارضی ہے۔ بارش رکنے کے بعد اصل دکھ شروع ہوتا ہے۔

تباہ حال کسان، اجڑے ہوئے گھرانے اور خالی ہاتھ مزدور ایک بار پھر سوالیہ نگاہوں سے حکومت اور سماج کی طرف دیکھتے ہیں۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ہر سال بارش کے موسم میں ہمارے دیہات اور شہر سیلابی ریلوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ندی نالے بپھر جاتے ہیں، نکاسی آب کا ناقص نظام مزید مسائل کو جنم دیتا ہے اور حکومتی غفلت عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے۔ ہم بطور قوم اپنی غلطیوں سے سبق کیوں نہیں سیکھتے؟ جب تک ہم منصوبہ بندی کے فقدان کو دور نہیں کریں گے، بارش کی یہ رحمت ہر برس زحمت بنتی رہے گی۔

میں خود بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور بارش کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہوں۔ ہماری زمینیں اللہ کی رحمت کی منتظر رہتی ہیں۔ اگر بارش بر وقت اور مناسب ہو جائے تو فصلیں لہلہا اٹھتی ہیںورنہ سارا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ اس لیے ہم بارانی علاقوں کے لوگ بارش کو اپنے لیے زندگی اور موت کا فیصلہ کن لمحہ سمجھتے ہیں لیکن جب یہی بارش اپنی شدت سے سیلابی ریلے لے کر آتی ہے تو تمام خواب اور محنت ایک لمحے میں بہہ جاتی ہے۔حالیہ بارشوں نے وادی سون کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ خوشاب سے وادی کو ملانے والی مرکزی شاہراہ سیلابی ریلے کے ساتھ بہہ گئی۔

میرے اپنے گاؤں کھوڑہ میں کئی گھروں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، کھیتوں میں کھڑی فصلیں مٹی میں مل گئیں۔ میری زمینوں پربرسوں کی محنت سے تعمیر کیے گئے وہ دونوں منی ڈیم جو زیر زمین پانی کے ذخائر کو سہارا دیتے تھے، وہ بھی پانی کی بے رحم موجوں کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ یہاں تک کہ ایک خوبصورت کارپٹ سڑک جو کھیت سے منڈی تک کسانوں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی پانی میں بہہ گئی۔ یہ وہی سڑک تھی جس کی تعمیر پر دہائیوں بعد نظر کرم ہوئی تھی۔ اب پھر یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ ارباب اختیار کب جاگیں گے اور کب اس کی دوبارہ تعمیر ہوگی؟

یہ صرف ڈھانچے کی تباہی نہیں یہ ایک اجتماعی دکھ ہے۔ کسانوں کی برسوں کی محنت لمحوں میں ختم ہو گئی۔ کسان خالی ہاتھ کھڑے ہیں۔ فصلیں ختم ہو گئیں، بیج بہہ گئے، کھادیں برباد ہو گئیں اور سال بھر کی امیدیں خاک میں مل گئیں۔ لیکن ان کے توکل پر رشک آتا ہے وہ پھر بھی شکوہ نہیں کررہے، بس یہی کہتے ہیں ’’اللہ کی مرضی تھی، صبر کرنا ہوگا‘‘۔اگر کسی کو اللہ پر توکل دیکھنا ہو تو بارانی کسان کو دیکھے۔

مگر سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں کھڑی ہے؟ جب بازار میں اجناس کی قلت ہوگی، نرخ بڑھیں گے، شور مچے گا تو کوئی یہ سوچنے والا ہوگا کہ ان بلند داموں کے پیچھے کسان کا دکھ چھپا ہے؟ کہ جس کی فصل بہہ گئی وہ آج بھی قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور کل بھی اسی قرض کے ساتھ جئے گا؟ وادی سون سمیت متاثرہ علاقوں میں فوری سروے کرایا جانا چاہیے۔ کسانوں کے نقصانات کا درست تخمینہ لگایا جائے اور ان کی عملی دادرسی کی جائے۔

یہ محض کاغذی کارروائی نہ ہو بلکہ حقیقی مدد ہو۔ حکومت کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہوتی مگر ان وسائل کے مؤثر استعمال کے لیے درد مند دل اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ صوبے بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دے رہی ہیں ہماری استدعا ہے کہ وہ اس بارانی علاقے کے کسانوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھیں۔قدرتی آفات کو ہم روک نہیں سکتے لیکن ان کے اثرات کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ اگر ڈیموں کی بروقت مرمت کی جائے، نکاسی آب کا نظام بہتر بنایا جائے اور ہنگامی صورتحال کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جائے تو یہ نقصانات آدھے رہ جائیں۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر غور کریں۔

Load Next Story