کراچی میں اربن فلڈنگ

شاہراہوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں‘بیسیوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پانی میں ڈوبنے کے باعث خراب ہو گئیں

خیبرپختونخوا میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے ‘اس کے ساتھ ہی گزشتہ روز کراچی میں بھی غیر معمولی بارش نے جل تھل ایک کر دیا ۔بارش اس قدر شدید تھی کہ پورے کراچی شہر کی سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ شاہراہیں بند ہوگئیں، پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔

شہر کے مختلف علاقوں میں اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔بدھ کو بھی کراچی میں بارش کا سلسلہ جاری رہا ۔اطلاعات کے مطابق دیواریں گرنے اور دیگر حادثات میں11افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ادھر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے رابطہ کرکے ہنگامی صورت حال میںوفاقی حکومت کی طرف سے ہر قسم کا تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں تیز ہواؤں کے ساتھ موسلادھار بارش کا سلسلہ شروع ہوا اور آنا فاناً پورا شہر تالاب کا منظر پیش کرنے لگا۔

سرجانی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، قیوم آباد ، گلستان جوہر، ملیر، شارع فیصل، ناظم آباد، نیو کراچی میں موسلادھار بارش ہوئی۔شہر کی مرکزی سڑکوں کے ساتھ اندرونی گلیوں میں پانی جمع ہوگیا۔ حسن اسکوائر، نیپا چورنگی، ضیاء کالونی، گلشن شمیم، لیاقت آباد 10 نمبر، جیل چورنگی، کارساز، کورنگی اور ایکسپریس وے اور دیگر علاقوں میں بارش کا پانی جمع ہوگیا۔ ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوگئی۔شاہراہوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں‘بیسیوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں پانی میں ڈوبنے کے باعث خراب ہو گئیں۔ شہر میں 900 سے فیڈرز ٹرپ ہونے سے بجلی کی فراہمی بھی بند ہوگئی۔

انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہوگئی۔ کراچی میں بارش سے حد نگاہ محدود ہونے سے 8پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ 20پروازیں تاخیر کا شکار ہوگئیں۔ سکردو سے آئی پرواز پی کے 456 کوسکھرائیرپورٹ بھیجاگیا اور دبئی سے آنے والی غیرملکی ائیرلائن کی پرواز کو ملتان بھیج دیا گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی اور سندھ میں 25اگست کے بعد بارشوں کا نیا سلسلہ متوقع ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مون سون بارشوں کے دوران متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم دے دیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے کراچی میں تین روزہ طوفانی بارش کی پیشگوئی کر رکھی ہے۔

کراچی میں سندھ حکومت نے عام تعطیل کا اعلان کیا جس کے باعث بدھ کو شہر کے اسکول و کالج بند رہے۔ ٹیکنیکل بورڈ نے امتحانات بھی ملتوی کردیے۔ سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے شہریوں کو کہا ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ سب سے زیادہ بارش کراچی میں گلشنِ حدید 145، ایئرپورٹ اولڈ ایریا 138، کیماڑی 137، جناح ٹرمینل 135، یونیورسٹی روڈ 132، سعدی ٹان 123، ڈی ایچ اے  121، فیصل بیس 114، سرجانی ٹان 111 اور نارتھ کراچی میں 108ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

ٹنڈو جام 45، تھرپارکر میں اسلام کوٹ میں 17ملی میٹر بارش ہوئی۔ پنجاب میں نورپور تھل 104، کوٹ ادو 70، رحیم یار خان 68، بھکر 67، جوہرآباد 53 اور سرگودھا میں 52ملی میٹر بارش ہوئی۔ بلوچستان میں خضدار 60 اور سبی میں 40ملی میٹر بارش ہوئی۔ خیبر پی کے میں کاکول 56اور پارا چنار میں 41ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں وقفہ وقفہ سے شدید بارشوں کی پیشگوئی کردی ہے جب کہ سندھ اور بلوچستان میں نشیبی علاقوں کے ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے ۔

بارشیں کوئی ایسا قدرتی مظہر نہیں جو اچانک ظہور میں آتا ہے۔ہر سال مون سون اپنے مقررہ ایام میں آتا ہے۔مون سون کے دوران تقریباً دو ماہ میں سال کے دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ بارش ہوتی ہے۔ان بارشوں کی شدت کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔محکمہ موسمیات اور دیگر اداروں کے پاس اعدادوشمار ہوتے ہیں کہ موجودہ سیزن سے پہلے مون سون میں کتنی بارش ہوئی اور اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنی بارش ہوئی ہے۔

یہ ریکارڈ قیام پاکستان سے پہلے انگریز دور میں بھی مرتب ہوتا تھا اور اب بھی مرتب ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ بارش کا تخمینہ موجود نہیں ہے اور اچانک بہت زیادہ بارش ہوئی۔ ٹاؤن پلاننگ کا اصول یہی ہے کہ کم از کم 50برس کا ریکارڈ سامنے رکھ کر سیوریج سسٹم ڈیزائن کیا جاتا ہے ‘50برس گزرنے کے بعد اگلے 50برس کے لیے سابقہ ریکارڈ کو دیکھ کر شہر کے پھیلاؤ کے مطابق ڈرینیج سسٹم میں توسیع کی جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شہر میں سے گزرنے والے گندے نالے اور برساتی نالے نکاسی آب کا اہم ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ سیوریج سسٹم اور گندے نالوں اور برساتی نالوں کی صفائی کا کام تواتر کے ساتھ کرنے کے لیے ادارے قائم ہیں۔ آج بھی یہ ادارے کاغذوں کی سطح پر بھی قائم ہیں اور ان اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں افسراور ملازمین کام کر رہے ہیں ۔ان افسران اور ملازمین کو سرکاری خزانے سے ہر مہینے باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں اور دیگر مراعات اور سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے ‘ یہ شہر پاکستان کا کاروباری دارالحکومت ہے اور انٹرنیشنل پورٹ بھی ۔قیام پاکستان سے پہلے کراچی متحدہ ہندوستان کے انتہائی خوبصورت اور ترقی یافتہ شہروں میں سے ایک تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں بھی کراچی کا یہی اسٹیٹس قائم رہا۔لیکن پھر بتدریج کراچی میں سسٹم زوال پذیر ہونے لگا‘ انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ‘نئی آبادیاں ابھرنے لگیں ‘شروع میں تو پرانا سسٹم اچھا ہونے کی بنا پر مسائل سامنے نہیں آئے لیکن جب آبادیوں کا جنگل اگنے لگا تو پھر آہستہ آہستہ شہری نظام زوال پذیر ہونا شروع ہوا اور اس میں تیزی آ گئی۔

پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی روز گار کے سلسلے میں لوگ جوق در جوق کراچی میں آنے لگے ‘قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی بھی ایک بڑی تعداد کراچی میں آ بسی ‘ یوں خود رو آبادیاں وجود میں آنے لگیں اور کراچی شہر کے ارد گرد کچی آبادیوں اور جھگیوں کا جنگل اگنے لگا۔ ان آبادیوں میں سیوریج سسٹم موجود نہیں تھا ‘اگر موجود بھی تھا تو وہ جدید تقاضوں کے مطابق نہیں تھا۔

ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کے تحت کچی آبادیوں میں ناقص سیوریج سسٹم بنایا گیا ‘آبادی مزید بڑھنے لگی اور ٹاؤن پلاننگ کا اختتام ہو گیا۔ شہری ادارے موجود تو تھے لیکن ان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہنے لگی ‘شہری اداروں میں سفارشی بھرتیوں کی بھرمار کے باعث بھی ان اداروں کی کارکردگی متاثر ہونا شروع ہوئی ‘80کی دہائی کے بعد کراچی میں افغانستان سے آنے والے مہاجرین کی آبادیاں قائم ہونے لگیں۔90کی دہائی میں افغان مہاجرین کی کراچی آمدمزید تیز ہوئی اور پھر کراچی میں لاکھوں افغان مہاجرین آ گئے۔

یوں کراچی میں چائینہ کٹنگ کا عمل تیز ہوا ‘ندی نالوں کے ارد گرد آبادیاں بننے لگیں ‘گندے نالوں کے اوپر کمرشل عمارتیں تعمیر ہو گئیں اور پانی کے نکاس کی متعدد گزر گاہیں بند ہو گئیں۔ کراچی میں مختلف قسم کے سیاسی تنازعات کے ساتھ ساتھ یہاں انتظامی بریک ڈاؤن بھی سامنے آیا۔

کراچی میں معمولی بارش بھی شہر کو اتھل پتھل کر دیتی ہے۔سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام ہو جاتی ہے شہریوں کے معمولات زندگی رک جاتے ہیں۔ یوں برسوں کی غفلتوں ‘کوتاہیوں اور نااہلی کا نتیجہ آج سب کے سامنے آ چکا ہے۔شہر میں نہ ٹرانسپورٹ کا جدید سسٹم موجود ہے اور نہ ہی شہری انتظامیہ کا ڈھانچہ مسائل حل کرنے کے قابل ہے۔

کراچی کا اربوں کھربوں روپے کا بجٹ ہے۔لیکن اس کے باوجود کراچی شہر کی حالت کھنڈر جیسی ہے۔وہ شہر جو کبھی ایشیا کے جدید اور خوبصورت شہروں میں شمار ہوتا تھا آج وہ آلودگی اور گندگی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ بیوروکریسی پر کوئی چیک ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی کا کوئی رول نظر آتا ہے۔ شہر کو لسانیت اور گروہی تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔حالیہ دو دنوں کی بارشیں اتنی بھی زیادہ نہیں ہیں کہ پورا شہر مفلوج ہو جائے اور جگہ جگہ پانی کھڑا ہو جائے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ شہر کا انفرااسٹرکچر برباد ہو چکا ہے۔

شہری انتظامی اداروں کی بیوروکریسی اور ملازمین اپنے فرائض تندہی اور ایمانداری سے ادا نہیں کر رہے۔کراچی کو دوبارہ ایک ترقی یافتہ شہر بنانے کے لیے جہاں سیاسی قیادت کو ذمے دارانہ اور ڈویلپمنٹ اورینٹیڈکردار ادا کرنا ہے ‘وہیں سول سوسائٹی کو بھی کراچی کی ترقی کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ حکومت اور بیوروکریسی پر دباؤ آئے اور وہ آئین و قانون کے مطابق اپنا کام کریں۔

Load Next Story