حکایتِ دل، درد آشنا

’’حکایت دل درد آشنا‘‘ ادارے کی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب ہے جو ڈاکٹر طارق سہیل کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہے

ڈاکٹر طارق سہیل معروف سائیکیٹرک ہیں۔ انھوں نے کراچی کے ایک میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ زمانہ طالب علمی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے۔ اس وقت کے این ایس ایف کے رہنماء شیر افضل ملک سے متاثر ہوئے۔ بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان کے رفیق رہے۔

عظیم دانشور سبط حسن کی شخصیت نے ان کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے برطانیہ کے میڈیکل کے معروف اداروں میں کام کیا اور برطانیہ کے رائل کالج آف سائیکیٹرک سے ایم آر سی سائیکک کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر طارق سہیل کے والد ایس ایم سہیل اپنے زمانے کے جانے پہچانے وکیل تھے۔ ایس ایم سہیل جنرل ایوب خان کے حامی تھے اور ایوب خان کی مسلم لیگ کونسل کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

ڈاکٹر طارق سہیل این ایس ایف کی پالیسی کے تحت جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف سینہ سپر رہے۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں 1989 سے 1990 تک قومی صحت پالیسی بنائی اور قومی اسمبلی کے امیدوار ہوئے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ جب 1988میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے متحدہ قومی موومنٹ سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی تو ڈاکٹر طارق سہیل اس کے رکن تھے۔

ڈاکٹر طارق سہیل نے ایک اسپتال اور ایک یونیورسٹی بھی قائم کی۔ انھوں نے ایس ایم سہیل ٹرسٹ کے تحت انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ (IHSR) قائم کیا۔ یہ ادارہ ایک متحرک ترقی پسند اور عوام دوست وژن کے ساتھ قائم ہے۔ اس ادارہ کی ایک حیثیت ایک ایسے تھنک ٹینک کی ہے جو ایک جانب پاکستان میں سماجی ارتقاء کی نوعیت اور اس کے ہر رخ پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسری جانب موجودہ مسائل کے معروضی تجزیوں کے نتیجے میں ایسی تجاویز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک عام شہری کی بہبود، اس کی خوشی اور کامرانی کا وسیلہ بن سکے۔

پروفیسر ڈاکٹر سید جعفر احمد اس ادارے کے روحِ رواں ہیں۔ اس ادارے نے اپنے قیام کے مختصر عرصے میں کئی اہم کتابیں شایع کی ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے مختلف شعبوں میں اہم خدمات انجام دینے والے صحافیوں، ادیبوں، ڈاکٹروں، معروف خواتین، سیاسی کارکنوں اور مزدور رہنماؤں سے طویل انٹرویو لینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ یوں ان شخصیات کی زندگی کے اہم واقعات کتابی شکل میں مرتب ہوتے ہیں اور قارئین کو نئی مصدقہ معلومات میسر آتی ہے۔ ’’حکایت دل درد آشنا‘‘ ادارے کی حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب ہے جو ڈاکٹر طارق سہیل کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر طارق سہیل نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’’ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ عام آدمی جو ناواقف ہے اس کو واقفیت ہو، مثلاً ایک سوال یہ تھا کہ سیکنڈری اور پرائمری ہیلتھ میں کیا فرق ہے۔ میرا جواب یہ تھا کہ پرائمری ہیلتھ وہ ہے جو ساری آبادی کے لیے کرتے ہیں اور سیکنڈری ہیلتھ جو One by Oneکرتے ہیں۔ مثلا پنجاب میں گورنمنٹ سیوریج اور صاف پانی کی بات کر رہی ہے، یہ پہلے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ہم نے ویکسین پر توجہ دی مگر پرائمری کاموں پر توجہ نہیں دی۔ پہلی مرتبہ 1958میں انگلینڈ میں کلین واٹر ایکٹ آیا۔

اس کی وجہ سے 25 برسوں سے پھیلنے والی بیماریاں آدھی ہوگئیں اور اینٹی بائیوٹکس کا خرچ کم ہوگیا۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے مزید لکھا ہے کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گاؤں میں پانی کی نکاسی کا پروگرام شروع کیا جو بہت قابلِ تعریف ہے۔ اس سارے کام میں ہیلتھ انجینئرزکی ضرورت ہے جن کا بیک گراؤنڈ ہیلتھ کا ہونا چاہیے۔ امریکا میں مقیم معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹر چارلس امجد نے اس کتاب کے تعارف کے لیے ایک تحقیقی مضمون تحریر کیا ہے۔

ڈاکٹر چارلس امجد لکھتے ہیں دو ماہرین تشکیک نے ڈاکٹر طارق سہیل کے خیالات اور علمی بنیادوں کو بہت گہرا متاثر کیا۔ وہ کھلے دل سے کارل مارکس اور سگمنڈ فرائیڈ کے بارے میں تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ان کے رہبر بنتے ہیں اور ان کے تجزیاتی طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اس سے ہمیں یہ نکتہ ماننے میں دیر نہیں لگتی کہ وہ تیسرے ماہر یعنی فریڈرک نطشے کا اگرچہ نام نہیں لیتے لیکن اس کے تصورات و تشریحات کو اپنی زندگی میں روبہ عمل لاتے ہیں۔ ان تین ماہرین تشکیک سے آگے بڑھ کر ڈاکٹر طارق سہیل ایک آفاقی اعتبار سے انھی سے مشابہ چوتھے نام میں سے چارلس ڈارون کا بطور ماہر اضافہ کیا ہے جس کے کام سے ڈاکٹر طارق سہیل کو رہنمائی ملی۔ اس کتاب کے دوسرے باب کا عنوان ’’ تقسیمِ سند، منطق اور سیاست کے فاصلے‘‘ ہے۔

ڈاکٹر طارق نے یہاں بتایا کہ ’’ ہمارے خاندان کی پاکستان میں ہجرت کی اصل وجہ بہار میں ہونے والے فسادات تھے۔ ڈاکٹر طارق سہیل بتایا کہ 1960میں میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، یہاں آنے کے بعد میری زبان، آنکھیں اور دماغ کھلنے لگا، اس وقت سولہ سال کا تھا۔ این ایس ایف کے ڈاکٹر محبوب مجھے ملے۔ انھوں نے مجھے شیر افضل ملک کے حوالے کیا جنھوں نے میری تربیت کی اور میں این ایس ایف میں شامل ہوگیا۔ معراج محمد خان سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کافی دوستی ہوگئی۔ وہ میرے والد کے پاس آتے تھے اور میں باقاعدہ طور پر این ایس ایف میں کام کرنے لگا۔

ڈاکٹر طارق سہیل نے 1965کی جنگ اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ایوب خان نے یہ اعلان کیا کہ میں انتخاب لڑوں گا تو بنیادی جمہوریت کے تحت انتخابات ہوئے۔ ایوب خان نے سابق وزیر خزانہ محمد شعیب کو کراچی میں اپنا الیکشن چیف بنایا۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے کہا کہ ان کے والد کو سیاست کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے بنیادی جمہوریت کے اراکین کے انتخاب میں بھرپور حصہ لیا۔ انھوں نے چالیس پچاس افراد کو الیکشن لڑوایا اور ان پر پیسہ خرچ کیا، انھوں نے ایوب خان کو ووٹ دیا۔ اس زمانے میں بندوق کے پرمٹ اور زمینیں وغیرہ دی جاتی تھیں۔

ان انتخابات میں پیسہ نہیں چلتا تھا۔ ایوب خان کراچی سے بھی ہار گئے اور بنگال میں بھی ہار گئے۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے اپنی یاد داشتوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مرتبہ میں شام کو گھر آیا تو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر 50ء کی دہائی میں پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس وقت کے صدر ڈاکٹر سرور بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے والد کو اس بات پر راضی کرنے آئے تھے کہ الیکشن میں فاطمہ جناح کی حمایت کریں لیکن والد صاحب کا مؤقف تھا کہ سیاست کرنی ہے تو طاقتور کے ساتھ رہو۔ ڈاکٹر طارق سہیل اپنے لندن میں قیام کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 1971میں جنگ کے دوران میں انگلستان میں تھا۔ لندن میں میرا ملنا جلنا سوشل اور پولیٹیکل ایکٹیوسٹ سے تھا۔

طارق علی کا ایک گروپ تھا۔ ایک بیرسٹر صبغت اللہ قادری تھے جو اس گروپ میں تھے، سب ایکٹو تھے۔ پہلے میں بطور مارکسٹ اس عمل کے بہت خلاف تھا۔ حالانکہ ہم نے پڑھا تھا کہ مارکسٹ کا کام ملک توڑنا نہیں مگر مجھے بعد میں احساس ہوا کہ بنگالیوں کے ساتھ بہت ناانصافیاں ہوئیں، لہٰذا جو ہوا اسی طرح ہونا تھا۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے ایک سوال پر کہا کہ مجھ پر اس وقت تک سید سبط حسن کا کافی اثر ہوگیا تھا، وہ تفصیل سے سب سمجھاتے تھے۔ میں نے ان سے ڈسکس کیا کہ مارکسزم میں تو ملک کی تقسیم منع ہے۔ انھوں نے نیشنل لبریشن موومنٹ کی وضاحت کی اور سوویت یونین کے بانی لینن کے مشہور پرچے Nation's Right of Self Determination کا حوالہ دیا تھا۔

 انھوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ معراج محمد خان مجھے ذوالفقار علی بھٹو سے ملوانے لے گئے تھے جب الیکشن مہم میں شریک تھے۔ معراج انتخابات میں حصہ لینے کے خلاف تھے۔ بقول ڈاکٹر طارق وہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے 1998میں ایم کیو ایم سے مذاکرات کا احوال یوں بیان کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر 90 پہنچ گیا، وہاں بہت سے گھر تھے، مجھے ایک گھر میں لے جایا گیا۔

ان لوگوں نے اپنی ڈیمانڈ بتائی جو کچھ بھی نہیں تھی۔ میں نے کہا کہ اس میں کچھ اور بھی بڑھا دیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق بات چیت کمیٹی کے اہم رکن تھے۔ میں ان کے ساتھ 60-68 دن تک رہا۔ پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے یہ معاہدہ پاس کردیا لیکن کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ اس آرٹیکل میں کتاب کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کئی اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر سعید جعفر احمد نے پاکستانی سیاست کے طلبہ کے لیے ایک اچھی کتاب ترتیب دی ہے۔

Load Next Story