سہ فریقی اجلاس اور شدید بارشیں

معاشیات میں بارش ہو یا طوفان صرف زبانی امداد وعدے کام نہیں کرتے۔ برسات کے بعد بھی معاشیات حساب کتاب مانگتی ہے

سی پیک کو افغانستان تک بڑھانے پر اتفاق کر لیا گیا ہے، کابل کی فضا میں آج بھی وہ گرد باقی ہے جو صدیوں پرانے قافلوں کے قدموں سے اڑتی رہی۔ کبھی وہ قافلے ریشم لاتے تھے، کبھی مسالے، کبھی کپڑے اور گُڑ اور کبھی کہانیاں بھی۔ اب انھی راہوں پر ایک نئی کہانی لکھی جا رہی ہے۔

یعنی جدید دور کا سی پیک، اس سلسلے میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے ایک میز پر بیٹھ کر یہ اتفاق کر لیا کہ سی پیک کو افغانستان تک بڑھایا جائے اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لڑائی لڑی جائے گی۔ یہ تو تھا وزارت خارجہ کا اعلان، لیکن تجارت خارجہ کے حالات انتہائی تشویش ناک ہوگئے کیونکہ چند سال قبل افغانستان پاکستان کی برآمدی ممالک کی فہرست میں کبھی تیسرے نمبر پر اور کبھی چوتھے نمبر پر تھا۔

وہ قریبی ہمسایہ جس کے ہر شہر اور قصبے کے بازاروں میں پاکستانی مال کی خوشبو رچ بس گئی تھی اب یہ رشتہ زوال کی طرف بڑھتے بڑھتے اور گرتے گرتے آٹھویں نمبر پر آگیا ہے اور پاکستان کی برآمدات میں افغانستان کا شیئر محض ساڑھے چار فی صد رہ گیا ہے۔

جولائی تا مارچ 2025 تک افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات کا حجم ایک کھرب ایک ارب روپے تک سمٹ آیا ہے کبھی یہ حجم سالانہ تین کھرب سے 4 کھرب تک بھی پہنچتا تھا۔ یہاں سے بھارت اپنے لیے موقع تلاش کر چکا تھا۔ وہ اپنی تجارت کو بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ اب افغانستان کے بازاروں میں بھارتی مصنوعات کی بھرمار ہو گئی ہے اور پاکستان سے گہرے تجارتی رشتے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

ذرا سوچیے پاکستان کے 20 ٹاپ خریدار ممالک کی فہرست میں جرمنی پانچویں نمبر پر، نیدرلینڈ چھٹے نمبر پر، اسپین ساتویں نمبر پر، پاکستانی برآمدات کے بڑے خریدار ہیں۔ یعنی قریبی برادر اسلامی ملک اس فہرست میں دور جا کر بیٹھ گیا اور دور دراز کے ممالک بڑے قریبی تجارتی شراکت دار بن گئے اور بھارت نے افغانستان میں اپنی تجارتی جڑیں مضبوط کرلیں۔

کابل میں ہونے والے اجلاس کو محض اعلان کا پلندہ نہ سمجھا جائے بلکہ اب یہ پاکستان کی وزارت خارجہ اور تجارت خارجہ کے حکام کا امتحان ہے کہ کس طرح سے وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر افغانستان کے ساتھ اپنے کھوئے ہوئے تجارتی رشتے کو دوبارہ واپس حاصل کر لیں۔ کیونکہ تجارت محض روپے یا ڈالر کمانے کا فن نہیں رہا بلکہ اب یہ دماغی، اعلیٰ صلاحیتوں کا وہ امتحان ہے جو نفرت کی دیوار کو گرا کر محبت کے رشتے میں باندھ دے۔

اب سی پیک کے خواب کو حقیقت بنانا تینوں ملکوں کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک سیاسی سفارت کاری نہیں بلکہ گرتی ہوئی تجارت کو اونچے گرم جوش تجارتی رشتوں میں باندھنے کی کوشش ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم بھی ساتھ ہی دہرایا گیا ہے تاکہ اس سی پیک کو آگے بڑھاتے بڑھاتے وسط ایشیائی ممالک کو ساتھ لے کر چلتے چلتے یورپ تک پہنچ سکتے ہیں۔

بشرطیکہ یہ راستے امن و امان کے امین بن جائیں اور افغانستان ان قافلوں، ٹرالروں، ٹرینوں، ٹرکوں کو بحفاظت گزار کر دیگر ملکوں کی طرف رواں دواں کر دے یا ان ملکوں کا مال انھی راستوں سے بحفاظت پاکستان میں داخل ہو کر گوادر کی بندرگاہ سے آگے کا رخت سفر باندھ لے۔ملک بھر میں بارشوں اور کہیں کلاؤڈ برسٹ کے باعث ہزاروں اموات، ہزاروں مویشیوں کے ہلاک ہونے اور اربوں کھربوں روپے کے املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ معاشیات میں بارش ہو یا طوفان صرف زبانی امداد وعدے کام نہیں کرتے۔ برسات کے بعد بھی معاشیات حساب کتاب مانگتی ہے۔

جائزے پیش کرتی ہے کہ ملک بھر میں کتنے ارب یا کھرب کا نقصان ہو گیا، کتنے ہزار مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا، کتنے ہزار بالکل زمیں بوس ہو گئے۔ حکومت کو چاہیے کہ موسم گزرنے سے پہلے اور کہیں بعد میں فوری بحالی کا کام کیا جائے۔ وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کے دوروں سے متاثرین کے غم کو ہلکا کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس کے ساتھ ملک کے عوام کو اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے ہر طرح کی امداد سے لیس ہو کر ان کی مدد کو پہنچنا ہوگا۔حالیہ بارشیں کراچی کی معیشت کو درجنوں ارب روپے کا نقصان پہنچا گئی ہیں۔ نکاسی آب کا نظام فرسودہ ہو چکا ہے۔

ٹرانسپورٹ کی روانی کے لیے سڑکوں کی فوری مرمت اور بحالی کے کام کا آغاز کر دیا جائے کیونکہ کراچی کی معیشت رکتی ہے تو پورا پاکستان رک جاتا ہے۔ بارشوں کے بعد جس انداز میں پانی جمع ہو جاتا ہے گڑھوں میں بھر جاتا ہے، گلیوں میں رک جاتا ہے، سڑکوں پر بہے چلا جاتا ہے، ایسے میں شہر کو ایک نئی جدید تازہ ترین اور تیز تر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے پورے شہر کی ازسر نو پلاننگ کی جائے جس میں صاف پینے کے پانی کی فراہمی، نکاسی آب، پائیدار سڑکیں اور بہت سی ضرورتیں ایسی ہیں جن کی فوری فراہمی کی ضرورت ہے۔

Load Next Story