پاک بھارت کشیدگی اور عالمی طاقت
جنوبی ایشیا ایک بار پھر عالمی سیاست کے مرکز میں آ گیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کو بھی خطرات سے دوچارکردیا ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں، اس لیے کسی بھی قسم کی جنگ کے عالمی اثرات ناگزیر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں خصوصاً امریکا، روس اور چین فوری طور پر متحرک ہوگئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی و عسکری قیادتوں کے دروازوں پر عالمی سفارت کاروں اور اعلیٰ حکام کی آمد و رفت اس امرکا ثبوت ہے کہ کشیدگی کو قابو میں لانے کے لیے سفارتی دباؤ اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔
حالیہ جھڑپوں اور سخت بیانات نے دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا کردی ہے۔ سرحدی صورتحال کشیدہ ہے اور میڈیا میں بھی جنگی ماحول دکھائی دیتا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی خطے کی طاقت کا توازن متاثر ہوا ہے جس نے عالمی طاقتوں کو مداخلت پر مجبورکردیا۔
امریکا، روس اور چین تینوں بڑی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اس کشیدگی کو قابو میں لانے کے لیے سرگرم ہیں۔امریکا اور روس کے لیے جنوبی ایشیا محض ایک خطہ نہیں بلکہ عالمی طاقت کے توازن کا میدان ہے۔ واشنگٹن نئی دہلی کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات رکھتا ہے لیکن اسلام آباد کو بھی مکمل نظرانداز نہیں کرسکتا۔
افغانستان اور انسداد دہشت گردی جیسے معاملات میں پاکستان کے بغیر امریکا کی پالیسی ادھوری رہتی ہے۔دوسری جانب روس کی دیرینہ قربت بھارت کے ساتھ ہے، مگر حالیہ برسوں میں اس نے پاکستان کے ساتھ بھی دفاعی اور تجارتی تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماسکو بھی کھلی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس کشیدگی نے دونوں طاقتوں کو بے چین کردیا ہے اور وہ اپنے اپنے چینلز کے ذریعے فریقین کو صبر و تحمل کا مشورہ دے رہے ہیں۔پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل جنرل آصف منیر کے امریکا کے دورے بھی خطے کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔
کشیدگی کے عین وقت پر پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل آصف منیر نے امریکا کے دو دورے کیے۔ یہ دورے سفارتی اور عسکری دونوں اعتبار سے نہایت اہم سمجھے جا رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے واشنگٹن میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے دوران اس بات پر زور دیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ انھوں نے پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہوئے عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کی۔ فیلڈ مارشل جنرل آصف منیر کے امریکی عسکری قیادت سے روابط نے ظاہرکیا کہ واشنگٹن پاکستان کی دفاعی تشویش کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔
اس دورے کی اطلاعات ہیں کہ انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس تعاون پر بھی بات ہوئی۔اس دورے کے نتیجے میں پاکستان نے یہ پیغام دیا کہ وہ امریکا کے ساتھ کھلے رابطے رکھنا چاہتا ہے، تاہم واشنگٹن کی اصل پالیسی بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات پر ہی مرکوز ہے۔
اس کے باوجود امریکی حکام نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں گے۔ دوسری طرف بھارت نے بھی وقت ضایع کیے بغیر روس کا رخ کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ کے ماسکو دورے نے کئی پیغامات دیے۔
بھارت نے واضح کر دیا کہ وہ روس کے ساتھ اپنی تاریخی قربت برقرار رکھنا چاہتا ہے، خصوصاً دفاعی معاملات کے حوالے میں ماسکو سے یہ امید وابستہ کی گئی کہ وہ پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالے گا تاکہ بھارت کو سرحدی معاملات میں فوقیت حاصل ہو۔
روس نے اگرچہ دونوں ممالک سے تحمل اختیار کرنے کا کہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماسکو کی ہمدردی اب بھی زیادہ تر بھارت کے ساتھ سمجھی جاتی ہے۔ اس دورے نے پاکستان کے خدشات میں اضافہ کیا کہ عالمی طاقتوں کی صف بندی کہیں یکطرفہ نہ ہو جائے۔
چین کے وزیر خارجہ کے پاکستان و بھارت کے دورے کو دیکھیں تو اس صورتحال میں چین کا کردار نہایت اہمیت اختیارکرگیا۔ چین کے وزیر خارجہ نے بیک وقت اسلام آباد اور نئی دہلی کے دورے کے پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ بیجنگ اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، علاوہ ازیں معاشی تعاون اور سی پیک کے حوالے سے بھی اہم یقین دہانیاں کرائی گئیں۔
چین نے بھارت کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ غیر جانبدار رہ کر خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ تاہم بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا۔ چین کے ان دوروں نے یہ واضح کیا کہ بیجنگ خطے میں ’’ امن کے ثالث‘‘ کے طور پر اپنی ساکھ بنانا چاہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے قریبی اتحادی پاکستان کو بھی اکیلا چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
یہ تمام سفارتی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنوبی ایشیا کی کشیدگی اب صرف مقامی مسئلہ نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر ایک بڑا بحران بن چکا ہے۔ پاکستان کو فائدہ یہ ہوا کہ امریکا اور چین دونوں اس کے مؤقف کو سننے پر مجبور ہوئے۔ بھارت کو سہارا روس سے ملا جس نے اس کے دفاعی خدشات کو سمجھنے کی کوشش کی۔
چین کا کردار ثالث کے طور پر سامنے آیا لیکن حقیقت میں وہ پاکستان کے قریب رہا۔ خطے کے چھوٹے ممالک جیسے نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی ان حالات کو تشویش سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ کسی بھی بڑے تصادم کا اثر ان کی معیشتوں اور سلامتی پر بھی پڑے گا۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا عالمی طاقتوں کے لیے کس قدر حساس خطہ ہے۔ امریکا، روس اور چین تینوں نے اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت اسلام آباد اور نئی دہلی کا رخ کیا۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور فیلڈ مارشل آصف منیر کے امریکا کے دورے، بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ روس اور چین کے وزیر خارجہ کے دونوں ممالک کے دوروں نے کشیدگی کم کرنے میں وقتی کردار ضرور ادا کیا ہے، مگر اصل مسئلے کے حل کے لیے مسلسل سفارت کاری اور اعتماد سازی ضروری ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اگر عالمی طاقتیں صرف اپنے مفادات تک محدود رہیں تو خطہ ایک بڑے بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، لیکن اگر یہ سفارتی کوششیں خلوص نیت پر مبنی ہوں تو جنوبی ایشیا کو ایک نئے دور کے امن اور استحکام کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔