سیلاب اور وزنی پتھروں کی بارش
برسات کے موسم کے حوالے سے قتیل شفائی کا بڑا خوبصورت شعر یاد آگیا ہے۔
دور تک چھائے تھے بادل اورکہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
اختر ہوشیار پوری کا یہ شعر بھی موجودہ حالات کی عکاسی کرتا ہوا نظر آ رہا ہے، انھوں نے بھی بارش کے کئی رنگ ایسے دیکھے ہوں گے جن میں ہریالی اور پھولوں کی مہک نے موسم کو دل فریب بنا دیا، اس کے ساتھ ہی برسات میں ہونیوالے نقصانات پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے۔
کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھرکا تھا
اس سال جو برسات ہوئی ہے، اس نے کاری زخم لگائے ہیں، شعرا نے توکچے گھروں کی بات کی ہے لیکن یہاں بارش طوفان اور سیلاب کی شکل میں آئی، گویا کوئی عذاب نما آفت تھی، پورے پورے گھرانے سیلاب میں بہہ گئے، بھاری گاڑیاں آنکھ جھپکتے ہی طغیانی میں اترتی چلی گئیں۔
خیبر پختونخوا میں بادل پھٹنے اور لینڈ سلائیڈنگ نے 214 افراد کو نگل لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ہلاکتیں چار سو تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ لاپتا افراد کی تلاش جاری ہے، وہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں، زندہ ہیں یا ابدی نیند سو چکے ہیں، زمین نے نگل لیا یا سیلابی ریلے میں بہتے ہوئے کسی انجانی جگہ پر پہنچ چکے ہیں۔
ہلاکت خیز موسم نے ایسے عبرت ناک مناظر دکھائے کہ الامان الحفیظ، کبھی دیکھا اور نہ سنا تھا وزنی پتھروں کو پانی میں بہتے ہوئے، سیکڑوں پتھروں کی بارش، اڑتے چلے آ رہے تھے، گویا ربڑکی گیندیں ہوں، بونیرکا ایک گھر پتھروں کا مدفن بن گیا، ایک ہی خاندان کے 40 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اسی طرح دوسرے علاقوں میں بھی بھیانک اموات، معصوم بچے ان کے والدین سب ہی تفریح کرنے اور موسم کا لطف اٹھانے آئے تھے۔ حسین نظاروں کو اپنی آنکھوں میں بسانے کے لیے سفر پر روانہ ہوئے تھے، اسی طرح بے شمار لوگ، سیکڑوں نوجوان برکھا کے گیت گنگناتے اور اپنے من میں موسموں کے دل آویز رنگ بھرنے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔
ابھی تو انھیں بادلوں کی چھیڑ چھاڑ کے ساتھ لطف اندوز ہونا تھا، بارش کے قطروں کو اپنی زلفوں میں موتیوں کی طرح سجانا تھا، مزے دار کھانے کھانے تھے، سب کے ساتھ زادِ راہ تھا، پکوان تھے،کچھ کو ہوٹلوں میں ٹھہرنا تھا، آخر یہ ہوٹل اور اس میں سجا ہوا عیش و طرب کا سامان ان کا ہی منتظر تھا۔
وسیع و کشادہ کمرے اور اس میں مہمانوں کے سواگت کے لیے ڈرنکس اور کھانے کی اشیا بھی موجود تھیں، گرم گرم کھانوں کا انتظام موجود تھا، چائنیز، اٹالین، جاپانی کھانے۔۔۔ لیکن یہ سیاح اپنی خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکے اور اجل نے انھیں سرِ راہ اچک لیا۔
بادل بھی اس بار بڑی تیاری سے آئے تھے، ڈھیروں پانی لے کر، یوں لگتا تھا ندی کی ندی ہی اپنے اندر سما کر لے آئے ہیں، لہٰذا وہ برسے نہیں بلکہ وہ غبارے کی طرح پھٹ گئے، غبارے ہوا سے پھولے ہوتے ہیں لیکن یہاں تو بادل پانی سے بھرے ہوئے تھے، پل بھر میں نقشہ ہی بدل گیا، پانی ہی پانی، مقدار کی وجہ سے اس میں گہرائی عود آئی، اب ڈوبنا ہی مقدر تھا، کوئی مدد کو نہیں پہنچا، کئی کئی گھنٹے بیچ پانی میں بچوں سمیت خاندان کھڑے نظر آئے، وہ سب امداد کے منتظر تھے۔
یہ کیسے اپنے تھے،کوئی زندگیاں بچانے نہیں آیا۔ نہ کشتی اور نہ ہیلی کاپٹر۔ پاکستانیوں نے تو اپنے وطن کے لیے اپنی جانیں قربان کیں ، جنگیں لڑیں، شہادت کا تمغہ سجایا، زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے، کوہ پیمائی، مختلف کھیل کھیل کر پاکستان کا نام روشن کیا، محلات تعمیرکیے، حصے میں پکا مکان بھی نہیں آیا، موسموں کی سنگینی برداشت کی، غربت میں زندگی کاٹی، ہر موقع پر اپنے بھائیوں کی مدد کی۔
کبھی رضاکار بن کر،کبھی اپنے علم و ہنر سے فائدہ پہنچایا لیکن صاحبان اختیارات نے تو اپنی آنکھیں موند لیں، کیا انھیں نہیں معلوم تھا کہ موسموں میں تبدیلی آئے گی، گلیشیئر پگھلیں گے، دھوپ کی تمازت میں مزید اضافہ ہوگا۔ سردی گرمی کا درجہ حرارت بڑھے گا۔
شمالی پاکستان کے گلیشیئرز موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں، اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ عمل دریاؤں کے بہاؤ میں اضافے کا باعث بن چکے ہیں اور سیلاب آنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ قدرتی آفات سے ہزاروں لوگ بے گھر اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
کراچی بھی پانی میں ڈوب چکا ہے، بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کی قلعی بارش نے اتار دی ہے، اب صرف زنگ آلود لوہا نظر آ رہا ہے، کام کرتے نہیں، باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں، عوام سے محبت اور ان کا احساس نہیں، انھیں دکھوں، غموں اور اس مصیبت کی گھڑی میں تنہا چھوڑ دیا گیا، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ اور دوسرے لوگ دوپہر سے کھڑے پانی میں بھیگتے رہے، رات تین اور چار کے درمیان گھر پہنچے اور کچھ لوگ تو دوسرے روز بھی دفاتر میں رکنے پر مجبور ہوئے۔
ہر طرف دریا بہہ رہا تھا، گڑھے اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، نالے، مین ہول سب پر پانی کا ریلا گزر رہا تھا، ٹرانسپورٹ کس طرح اپنے راستوں پر گامزن ہوتی۔
آفت زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے گھروں میں انتظار سولی کی مانند آ کر ٹھہرگیا تھا، اس سولی پر لٹکنے والے والدین ہی تھے۔ کاش حکومت وقت کو اس بات کا احساس ہوتا کہ برسات کے زمانے میں شہر کا کیا حال ہوگا؟ یہ وہی شہر کراچی ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور ٹیکس کی رقم بھی اپنا پیٹ کاٹ کر دی جاتی ہے، گھر میں فاقے ہوں، دکھ بیماری ہو، حکومت کو ٹیکس چاہیے اور بس۔ کے الیکٹرک کے ادارے نے بھی ظلم کی انتہا کر دی ہے ایک طرف برسات کی تباہ کاریاں تو دوسری طرف گھروں، گلیوں اور شاہراہوں پر اندھیرے کا راج، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔
کئی الیکٹرک پول بھی موت کی دعوت دے رہے تھے، ایک راہ گیر کرنٹ لگنے کے باعث جاں بحق ہوگیا، یہ تو آنکھوں دیکھا حال ہے نہ جانے کتنے راہ چلتے لوگوں نے موت کو گلے لگایا ہوگا۔ اپنے معاملات میں تو بہت ایکٹیو نظر آتے ہیں، بل ادا نہ کرنے پر فوراً میٹر اتار کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں یا بجلی بند کر دیتے ہیں، احساس سے عاری، کتنے بزرگ اور بیمار جن کا بجلی کے بغیر جینا محال ہو جاتا ہے۔ محسن نقوی کا یہ شعر توجہ کا طالب ہے۔
اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا