طالب علم اور ہمارا تعلیمی نظام
ہم اپنے ملک اور معاشرے کے ہر شعبے کو روبہ زوال ہوتا دیکھ رہے ہیں، اسی طرح ہم تعلیمی نظام کی بربادی کو بھی اسی بے حسی کے ساتھ قبول کرتے جا رہے ہیں۔ طلبا اساتذہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اساتذہ طلبا کی عدم دلچسپی کا رونا روتے ہیں۔
گزشتہ چند برس میں تعلیم کا معیار جس طرح گرا ہے وہ یقینا تشویشناک ہے اور بلاشبہ توجہ کا متقاضی ہے، اگر طالب علم پڑھنا نہیں چاہتا تو اس کی کیا وجوہات ہیں اور استاد بھی اگر پڑھانا نہیں چاہتا تو کیوں؟ جگہ جگہ اسکول،کالجز، یونیورسٹیز اورکوچنگ سینٹرزکھلنے کے باوجود ہمارا تعلیمی معیار، عالمی معیار کے آس پاس بھی کیوں نہیں ہے؟
امتحانات میں نقل کا رجحان اس قدرکیوں بڑھ رہا ہے؟ طالب علم محنت کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ یہ اور اس طرح کے ان گنت سوالات ہیں جو ہمارے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں اور ہم ان کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
جب بھی ہم کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ’’اس کام سے ہمیں کیا حاصل ہوگا؟‘‘ ہمارا اولین سوال ہوتا ہے۔ ’’حاصل‘‘ جتنا پرکشش ہوگا، کام کرنے کی لگن اور محنت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اسی سوال کو اگر ہم حصول علم کے حوالے سے پوچھیں تو ہمیں معاشرے میں پنپتے کئی رجحانات کی وجہ سمجھ آ جائے گی۔
یاد رہے یہاں ’’علم‘‘ کی نہیں بلکہ اس رسمی تعلیم کی بات ہو رہی ہے جو معاشرے میں بقا کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اس تعلیم کے عموماً دو بنیادی مقاصد سمجھے جاتے تھے، معاشرے میں عزت حاصل کرنا اور دوسرا ضروریات زندگی کے لیے روپے پیسے کا حصول۔
آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک یہ دونوں بنیادی مقاصد تعلیم کے ذریعے ہی پورے ہوتے تھے تو طلبا کو بھی حصول تعلیم میں کچھ دلچسپی تھی مگر انتہائی تیزی سے بدلتی دنیا نے جہاں کئی نئے افق کھولے وہیں شعبہ تعلیم کو بھی نئی جہتوں سے روشناس کروا دیا نتیجتاً وہ طالب علم جس کے لیے پڑھائی اور اچھی ڈگری کا حصول کامیابی کی کنجی تھی وہ اب اس کو ثانوی سمجھنے لگا۔
معاشرے میں پروان چڑھتی اس سوچ اور رجحان میں سب سے بڑا کردار ہمارے فرسودہ نظام تعلیم اور طریقہ امتحان کا ہے ہمارا نصاب کسی بھی طرح جدید تقاضوں پر پورا نہیں اترتا نہ اس میں ہر سال تبدیلیاں لائی جاتی ہیں نہ اس کو پڑھانے والوں کی کوئی تربیت کی جاتی ہے نہ ہی اس میں تحقیق کا کوئی عنصر شامل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بہ مشکل آٹھویں جماعت تک تو بچہ مارے باندھے پڑھائی میں پھر بھی دلچسپی دکھاتا ہے مگر جیسے ہی وہ ان درجوں میں آتا ہے جو کسی زمانے میں ’’ مستقبل کی بنیاد‘‘ بتائے جاتے تھے تو وہ ان گھسے پٹے مضامین میں اپنا رجحان صفر پاتا ہے۔
نصاب میں شامل یہ مضامین جن میں نہ کوئی نیا عنصر شامل ہے نہ جدید تحقیق کیونکر بچے کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا سکتے ہیں۔ مرے پہ سو درّے ہمارا امتحانی طریقہ ہے جو صرف بچے کی یاد داشت کو جانچتا ہے اور اسی پر اس کو کامیاب یا ناکام قرار دیتا ہے تو لازمی طور پر طالبعلم ان مضامین کو پڑھ کر وقت کا ضیاع کرنے کے بجائے رٹ کر یا نقل کرکے جواب لکھنا ہی آسان سمجھتا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ ممتحن کو بھی اسی جواب سے غرض ہے جو سالہا سال سے امتحانی کاپیوں میں لکھا جا رہا ہے، لہٰذا وہ دس سالہ حل شدہ پرچہ جات نکالتا ہے، ان کو یاد کرتا ہے یا ان کو نقل کر کے لکھتا ہے اور پرچے میں پاس ہو جاتا ہے یوں امتحان کا یہ سلسلہ تمام ہوتا ہے۔
اس پورے عمل میں بچے کا تجسس و تحقیق کا جذبہ، اس کی ذہنی صلاحیت یا تخلیقی قابلیت کہیں نظر نہیں آتی اور نہ آ سکتی ہے کیونکہ ممتحن کو بھی اسی گھسے پٹے جواب سے غرض ہے۔ اس فرسودہ نظام تعلیم کے علاوہ تعلیم کی اہمیت میں کمی کا دوسرا عنصر یہ بھی ہے کہ اب معاشرے میں عزت اورکمائی کے لیے کئی دوسرے آسان طریقے موجود ہیں۔
یاد رہے کہ فی زمانہ عزت دار وہ ہے جس کے پاس پیسہ ہو اور وہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے اس سے کم ہی لوگوں کو سروکار ہوتا ہے۔ایک ذہین طالبعلم ابھی بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کو اپنی پہلی ترجیح مانتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی اچھوتے، جدید اور منفرد مضمون کا بھی انتخاب کرتا ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال بھی کرسکے اور اپنے مقاصد بھی حاصل کرسکے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ موقعہ اسے ہمارا تعلیم نظام نہیں بلکہ اے لیول اور او لیول سسٹم دیتا ہے وہ نہ صرف جدید مضامین چن سکتا ہے بلکہ اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں جہاں ذہانت اور قابلیت ہی کامیابی کے لیے سب سے بڑی سند ہے۔
ذہین دماغوں کا انخلا جتنا ہمارے ملک سے گزشتہ دو دہائیوں میں ہوا ہے وہ شاید ہی کہیں اور ہوا ہو۔اب یہاں اوسط درجے کے طالبعلم کی بات کرتے ہیں جو پڑھ صرف اس لیے رہا ہے کہ کسی نوکری کے ذریعے کما سکے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو ایک ڈگری مل جائے چاہے کیسے بھی ملے اور اس کے حصول کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز ذریعہ اپنانے کو تیار ہے یہی وہ طالبعلم ہے جو نقل کرکے پاس ہونے کو درست گردانتا ہے۔
ستم بالائے ستم اس کام میں اس کا بھرپور ساتھ دینے کے لیے کوچنگ سینٹرز کے واٹس ایپ گروپ بمعہ موبائل فون و جدید آلات ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ امتحانی پرچہ ایک رات پہلے ہی آؤٹ ہو جاتا ہے یا پھر صبح پیپر شروع ہونے سے قبل واٹس ایپ گروپ پر بمعہ جوابات دستیاب ہوتا ہے۔
پرچے کا وقت شروع ہونے کے باوجود طلبا اپنی کلاسز میں نہیں جا رہے ہوتے کیونکہ وہ یہ پیپرز دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس نقل کے طریقے میں کوچنگ سینٹرز سب سے زیادہ معاونت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے؟ کیا ہم نسل نو کو ایسے ہی فرسودہ نصاب کا رٹا لگانے اور اسی نظام تعلیم کا حصہ بننے پر مجبورکرتے رہیں گے؟
یا پھر ہمارا بچہ تعلیم کو ثانوی چیز گردان کے صرف روپے کے حصول کے پیچھے بھاگے گا؟ اس کا سب سے ٹھوس حل تو یہ ہے کہ نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، وہ مضامین شامل کیے جائیں جن کی جدید و عملی دنیا میں واقعی ضرورت ہے۔
موجودہ دنیا سائنس، ٹیکنالوجی، کمپیوٹر اور ہنر کو اہمیت دیتی ہے لہٰذا ان سے منسلک مضامین کو ابتدا سے ہی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے اور ہر تعلیم علم کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی تحقیق کرے اور کوئی نئی دریافت کرنے کی کوشش کرے، ان مضامین کا امتحان بھی عملی ہونا چاہیے تاکہ بچہ جو کچھ پڑھ رہا ہے وہ عملی زندگی میں کتنا کارآمد ہے وہ اس کو ثابت کر سکے اور بہترین عملی مظاہرے پر اس کو تعلیمی سند سے نوازا جائے۔
ان مضامین کے ساتھ فنون لطیفہ بھی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں جو طلبا ان میں دلچسپی رکھیں، ان کے لیے بھی یہی امتحانی طریقہ وضع کیا جائے۔ اس کے علاوہ جب بچہ بالکل ابتدائی کلاسز میں ہو تو اس کا امتحان زیادہ سے زیادہ زبانی لیا جائے۔ ثانوی جماعتوں میں آنے کے بعد جب اس کے رجحانات واضح ہوں تو وہ اپنے پسندیدہ مضامین کا انتخاب کرکے ان کا امتحان عملی طور پر دے جب کہ باقی مضامین صرف پڑھ لے۔
موجودہ صورتحال میں کچھ یونیورسٹیز یہ طریقہ اپنا چکی ہیں کہ کچھ مضامین میں صرف کریڈٹ آورز مکمل کرنے کی بنیاد پر طالب علم کو پاس قرار دے دیا جاتا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نہ تو طالبعلم خود پر غیر ضروری بوجھ محسوس کرتا ہے نہ ہی اپنے بنیادی اور اہم مضمون کو بھرپور وقت دینے میں اسے کوئی مشکل پیش آتی ہے۔
اس ضمن میں ایک اور تجویز یہ بھی ہے کہ ہر مضمون کو پڑھانے سے پہلے ایک تعارفی کلاس ہونی چاہیے جس میں اس مضمون کی اہمیت، اس کی عملی زندگی میں جگہ، جاب حاصل کرنے کے مواقع اور اس پر مزید کیا کام ہو سکتا ہے، سب واضح کیا جائے تاکہ طالبعلم اس بات سے واقف ہو کہ وہ جس مضمون میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے وقت اور پیسہ لگا رہا ہے وہ آگے جا کر اس کو کیا دے گا۔
ہمارے معاشرے میں کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی مناسب جاب یا کاروبار کرنے میں اسی لیے ناکامی کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی عملی زندگی میں اپنی تعلیم کا درست استعمال کرنا جانتے ہی نہیں ہیں۔ موجودہ دنیا میں پیسہ کمانے کے بے شک کئی اور بہترین ذرایع ہیں مگر دنیا میں سکون اور خوشحالی کے لیے جس تربیت، اخلاق و کردار اور شخصیت سازی کی ضرورت ہے وہ صرف تعلیم کے ذریعے ہی پوری ہو سکتی ہے۔