کہاں سے لاؤں وہ دن

زمانہ حال کے بڑے اپنے چھوٹوں کی ڈھنگ سے تربیت کرنے میں بالکل قاصر نظر آرہے ہیں

یہ دنیا، یہاں کے ادوار اور اس میں رہائش پذیر افراد پچھلے کچھ عرصے سے جتنی تیزی سے اپنی ہیئت تبدیل کر رہے ہیں اُنھیں دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے میرا دماغ شدید تناؤکا شکار ہے۔ اس کے ساتھ میرے وجود پر مسلسل ایک بوجھل پن سوار رہنے لگا ہے۔ مجھے اس امرکا بالکل ادراک ہے کہ میں فردِ واحد ہی اس اذیت سے دوچار نہیں ہوں بلکہ ہر ذی شعور انسان جس میں ابھی احساس زندہ ہے، دنیا کی ان ہولناک تبدیلوں کے باعث اپنے اندر دہکتے لاوے کی تپش سے دن کے چوبیس گھنٹے جل رہا ہے۔

انسان، انسانیت اور احساس ان تینوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے منسلک ہے لیکن جب زمانہ حال کے انسان کی تصویر نظروں کے سامنے آتی ہے تو وہاں انسانیت دکھائی دیتی ہے نہ احساس تلاش کرنے سے میسر آتا ہے بلکہ ایک مشینی ربورٹ کا سا گمان ہوتا ہے جس میں فرق فقط اتنا ہے کہ روبوٹس آپس میں ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہیں، نہ اپنا مطلوبہ مفاد حاصل کرنے کے لیے دنیا میں شر پھیلاتے پھرتے ہیں۔

دورِ حاضر کا انسان اپنی ذات کی خود ہی نفی کر رہا ہے اور مزے کی بات اُس کو یہ بات بخوبی معلوم ہے لیکن وہ اس کی بالکل پروا نہیں کرتا ہے۔ابھی کچھ عرصے قبل تک تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا پھر نجانے اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ انسان اپنی ذات میں ہی سمٹ کر رہ گیا، اُس کے احساس کا دائرہ کار محدود سے محدود تر ہونے لگا اور اُس کے اپنوں کی فہرست میں محض وہی لوگ اپنی جگہ بنانے لگے جن سے اُسے فائدہ یا نفع پہنچنے کا ذرا سا بھی کوئی امکان ہو۔

آج کے وقت میں یہ جگہ جہاں ہم اپنی زندگی گزار رہے ہیں، دنیا کم اور ایک اکھاڑے کا میدان زیادہ لگنے لگا ہے، جہاں ہر فرد آگے بڑھتے ہوئے دوسرے انسان کو بیدردی اور بے رحمی سے پیچھے دھکیل رہا ہے، بِنا اس بات کا خیال کیے کہ اپنی جنت حاصل کرنے کے دوران وہ دوسروں کی زندگیوں کو جہنم بنا رہا ہے۔

اس بے ثباتی دنیا میں ایک طرف تو خوشیاں یا یوں کہا جائے کہ احساسِ سرشاری ناپید ہوتی جا رہی ہے، دوسری طرف اگر بھولے بھٹکے انسان کی زندگی میں خوشی یا سرشاری کے چند لمحات میسر آ بھی جائیں تو وہ اتنے کم وقتی ہوتے ہیں کہ انسان اُن کا مزا لینا شروع کرتا ہی ہے کہ اُن لمحوں کی ساری خوشگواریت ماند پڑ جاتی ہے۔

دنیا میں اب سب کچھ سطحی ہو کر رہ گیا ہے، جذباتیت اور یگانگت کے معنوں سے انسانوں کی اکثریت ناآشنا ہو چکی ہے، اب انھیں زندگی جینے اور گزارنے میں کوئی فرق محسوس ہی نہیں ہوتا ہے۔ موجودہ دور اخلاقی اعتبار سے بھی کافی مایوس کن ثابت ہو رہا ہے، آج کل ہمارے دیسی معاشروں میں ایسی ایسی اخلاقی برائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اس دنیا کی نئی نسل کے بچوں میں بڑوں کا ادب و احترام کرنے کا رجحان آٹے میں نمک کے برابر ہے جس کے قصور وار پوری طرح سے یہ بچے نہیں ہیں بلکہ اس میں اُن کے بڑوں کا کردار بھی بے حد منفی ہے۔

زمانہ حال کے بڑے اپنے چھوٹوں کی ڈھنگ سے تربیت کرنے میں بالکل قاصر نظر آرہے ہیں، اپنے بچوں کو انگریزی زبان میں فرفر بول چال سیکھا کر اور ہاتھوں میں مضر صحت موبائل فون پکڑوا کر وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے جب کہ حقیقت میں اس طرح وہ صرف اور صرف اپنی ذمے داریوں سے بھیانک فرار حاصل کر رہے ہیں۔

سچ پوچھا جائے تو اب زندگی کی رمق باقی نہیں رہی ہے، ہمارے ارد گرد چیختا، چنگھاڑتا شور موجود ہے مگر پھر بھی احساس رکھنے والے انسانوں کے اندر موت کا سا سناٹا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اب چاند تک رسائی حاصل کر چکی ہے لیکن ادھر زمین پر رونق، محبت، اپنایت، احساسِ تشکر اور سچے جذبوں کو گرہن لگا رہی ہے۔

ایسی ترقی بیکار ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے۔ ترقی دراصل تنزلی کے بادل چھٹا کر ہر سو روشنی بکھیرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اس کے برعکس جو ترقی پہلے سے موجود روشنیوں کو مدھم یا پھیکا کر دے اُس کو وبالِ جان کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

خود کو ماڈرن اور لبرل کہلوا کر خوش ہونے والا آج کے دور کا انسان اپنی کوئی ذاتی پسند یا نا پسند نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ تو مداری کی ڈگڈگی پر ناچنے والا بندر بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کی مجموعی آبادی کا بڑا حصہ جس شے کو مقبولیت بخش دے، وہ اس کی پسند اور جس چیز سے دوری اختیار کر لے وہ اسے ناپسند۔

وقت کی مناسبت سے دنیا میں چلنے والے ٹرینڈز کو فالو کر کے جب زمانہ حال کا انسان خود کو ترقی پسند دکھلانے کی بھونڈی کوشش کرتا ہے تب وہ سب سے زیادہ مزاحیہ خیز معلوم ہوتا ہے جس پر اُردو کی مشہور کہاوت، ’’ کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ بالکل صادر بیٹھتی ہے۔

یہ سب تماشے دیکھ کر مجھے ماضی کی یاد بہت ستاتی ہے، جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو اہمیت دیتا تھا، بِنا معاشرے میں اُس کی حیثیت کو جانے اور تب رشتوں کی بنیاد بھائی چارے کے سچے جذبے پر قائم ہوتی تھی نہ کہ مفاد پرستی کے کچے قلعوں پر۔ دنیا نے اب جو شکل اختیارکر لی ہے وہ مجھے انجان انجان سی لگتی ہے، وقت نے ایسی کروٹ لے لی ہے کہ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، وہ اپنائیت سے بھرپور ماحول تو یوں لگتا ہے چھو منتر ہو گیا۔ اپنے اردگرد یہ بدلاؤ دیکھ کر میرے اندر سے مسلسل ایک ہی صدا آتی ہے،’’ کہاں سے لاؤں وہ دن۔‘‘

Load Next Story