ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز
دنیا اس وقت ایک ایسے بحران سے دوچار ہے جو کسی ایک خطے یا ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی نے ہمارے عہد کو ایک ایسی آزمائش میں ڈال دیا ہے جس کے اثرات نہ صرف ہمارے حال بلکہ مستقبل پر بھی انتہائی گہرے ہوں گے۔
بڑھتی ہوئی گرین ہاؤس گیسز، جنگلات کی کٹائی، صنعتی آلودگی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بے تحاشا توانائی کے استعمال نے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں غیر معمولی بارشیں، تباہ کن طوفان، شدید خشک سالی، سمندری طغیانی، گلیشیئرز کے پگھلنے اور زرعی پیداوار میں کمی جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی تازہ رپورٹس اس خطرے کو مزید نمایاں کرتی ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق اگر زمین کا درجہ حرارت 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا تو دنیا کے کئی خطے ناقابلِ رہائش ہو جائیں گے۔ پانی کی فراہمی میں کمی آئے گی، زراعت تباہ ہو گی اور خوراک کا بحران شدت اختیار کرے گا۔
سائنسدان خبردار کر چکے ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک سمندری سطح میں 30 سے 40 سینٹی میٹر تک اضافہ ہو سکتا ہے، جو کم بلندی والے ساحلی علاقوں کو ڈبو دے گا۔ یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جو محض سائنسی مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو اس بحران کے سب سے زیادہ نشانے پر ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے، مگر ماحولیاتی تباہ کاریوں کا بوجھ پاکستان پر سب سے زیادہ پڑ رہا ہے۔ 2010 کا ہولناک سیلاب اس بات کا ثبوت ہے جس نے دوکروڑ سے زائد انسانوں کو متاثر کیا اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔
اس کے بعد 2022 کا تباہ کن سیلاب آیا جس نے تاریخ کی سب سے بڑی آفت کا روپ دھار لیا۔ اس سیلاب میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 30 ملین یعنی تین کروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہوئے اور ملک کو تقریباً 32 ارب ڈالرکا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس سانحے نے پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
یہ بات بھی باعثِ تشویش ہے کہ پاکستان کو ہر سال ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں 3 سے 4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے دریاؤں میں پانی کی کمی آرہی ہے، جو براہِ راست زرعی پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر یہی شعبہ کمزور پڑ جائے تو پورا اقتصادی ڈھانچہ لرزنے لگتا ہے۔ 2022 کے سیلاب نے تقریباً 40 لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچایا، جس سے گندم، کپاس اور چاول جیسی اہم فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
اس کے اثرات نہ صرف ملکی معیشت بلکہ عام آدمی کی روزمرہ زندگی تک پہنچے۔ موسمی بگاڑ نے برسات کے نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ کہیں بارشوں کی شدید کمی سے خشک سالی پیدا ہوتی ہے اور کہیں اچانک طوفانی بارشیں بڑے پیمانے پر تباہی مچاتی ہیں۔ 2023 میں بھی ملک کے مختلف حصوں میں طوفانی بارشوں اور تیز ہواؤں نے ہزاروں گھر تباہ کیے اور لاکھوں افراد کو مشکلات میں ڈالا۔
یہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ حال کا المیہ ہے جسے ہم روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں میں درجہ حرارت میں اوسطاً 0.5 سے 1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ بظاہر معمولی اضافہ لگتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اثرات نہایت سنگین ہیں۔ گرمی کی شدت بڑھنے سے فصلیں سوکھ رہی ہیں، پانی کے ذخائرکم ہو رہے ہیں اور انسانی صحت بھی براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔
ہیٹ ویوزکی شدت میں اضافہ کئی شہروں میں روزانہ کی زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے اور درجنوں قیمتی جانیں نگل لیتا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً سات ہزارگلیشیئرز موجود ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی نے ان کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ عمل اسی رفتار سے جاری رہا تو آیندہ چند برسوں میں ملک کو شدید پانی کی کمی کا سامنا ہو گا۔ دریاؤں میں پانی کم ہونے سے زرعی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور قحط کے خدشات پیدا ہوں گے۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر اس بحران سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟ بدقسمتی سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے پاس محدود وسائل ہیں۔ صنعتی ترقی کی کمی کے باوجود یہ ماحولیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔ بڑے پیمانے پر شجرکاری، صاف توانائی کے منصوبوں کو فروغ دینا، پانی کے ذخائر میں اضافہ، جدید زرعی ٹیکنالوجی کا استعمال اور ماحولیاتی قوانین پر سختی سے عملدرآمد ایسے اقدامات ہیں جو پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان تنہا اس مسئلے کا حل تلاش نہ کرے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ پالیسی اپنائے۔ ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی قید نہیں مانتی، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے عالمی سطح پر تعاون کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ پاکستان کو اپنی عوام کو بھی اس حوالے سے شعور دینا ہوگا۔ جب تک عام آدمی اس مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھے گا، اس وقت تک کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پانی کے محتاط استعمال، توانائی کے ضیاع سے بچاؤ اور ماحول دوست رویوں کو فروغ دینا ہماری قومی ذمے داری ہونی چاہیے۔
آخر میں یہ حقیقت یاد رکھنی ہوگی کہ ماحولیاتی تبدیلی محض ایک سائنسی اصطلاح نہیں بلکہ ایک وجودی خطرہ ہے، اگر ہم نے ابھی سے اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلوں کو ایک تباہ حال زمین ورثے میں ملے گی۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع بھی ہے کہ وہ اس بحران کو سنجیدگی سے لے کر نہ صرف اپنے عوام کو محفوظ مستقبل دے بلکہ دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرے۔ وقت کم ہے اور خطرات بڑے ہیں، لیکن اگر اجتماعی بصیرت اور عملی اقدامات کو بروئے کار لایا جائے تو یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔