ہم کیا اور ہماری کیا مجال

ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں کا دریاؤں میں بدل جانا حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے

Shireenhaider65@hotmail.com

آپ نے کبھی سڑک کے بیچوں بیچ دیکھا کہ ایک ننھا سا پودا ہے جو کنکریٹ کی تہوں کو پار کرتا ہوا باہر کو نکل آتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا نازک سا پودا آپ کو کبھی اینٹوں کی دیوار میں سے، کبھی سیمنٹ یا ماربل کے فرش میں سے اور کبھی اپنے گھر کی چھت کے کسی کونے سے۔

اس کی طاقت دیکھیں کہ کس طرح وہ سڑک، ماربل یا اینٹوں کا سینہ چیر کر خود نمائی کرتا ہے۔ بیج سے پودا بننے کے عمل میں قدرت کارفرما ہوتی ہے ، اب قدرت کو تو ہر قسم کی طاقت ہے کہ و ہ قطرے سے دریا بنا دے یا ذرے سے صحرا، ہم ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو غور سے دیکھنا، اور ان سے بڑے بڑے سبق سیکھنا چھوڑ گئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں ایسے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں-

پہلے پہل ہم سب شہروں، دیہات اور قصبات میں دیکھتے تھے کہ ایک کونے سے لے کر پورے شہر میں سے گزرتا ہوا ایک چوڑا سا نالہ ہوا کرتا تھا جو بہتا ہوا بالآخر کسی قریبی دریا میں جا گرتا تھا، ملک میں آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ تعمیراتی کام بھی بڑھتا چلاگیا ، ان ندی نالوں ، نہروں اور دریاؤں کے کنارے رہائشی آبادیاں بننا شروع ہوگئیں ، جہاں کہیں راہ میں نالہ آ گیا ہے،اس نالے کو یا تو کچرے سے بھر کر بند کر دیا یا اس کا پاٹ تنگ کیا، اس پر چھت ڈالی اور اسے بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے نقشے میں اس طرح شامل کر لیا کہ کسی کو اس نالے کا نام و نشان تک نہ ملے-

تفریحی مقامات پرتو پہلے پہل رواج ہوا کہ چھوٹے چھوٹے کھوکھے دریاؤں اور نالوں کے کناروں پر بننا شروع ہوئے۔ ہم بہت پہلے جب کبھی مری یا گلیات کی طرف جاتے تھے تو راستے میں جہاں کہیں تازہ پانی کا چشمہ نظر آتا تھا،انھی چشموں کے کنارے بیٹھ کر کھانا کھاتے، ان چشموں میں پاؤں رکھ کر کنارے پر بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔

کچھ وقت گزرا تو ان جگہوں پر ہوٹل نظر آنے لگے،چشموں کے عین بیچ میں چارپائیاں اور کرسیاں لگ گئیں، چائے اور پکوڑوں وہاں ملنے لگے ، اگر کسی نے چائے اور پکوڑے نہیں کھانا تو ان پانی کے اندر بچھی ہوئی کرسیوں یا چارپائیوں پر بیٹھ کر تصاویر بنوانا ہیں تو اس کا بھی نرخ مقرر ہوگیا، شمالی علاقہ جات مکیں جوہوٹل بر لب دریا ہیں، ان کے نرخ زیادہ ہیں اور صبح کا ناشتہ دریا کے عین بیچ میں بیٹھ کر کرایا جاتا ہے ۔

قدرت بھی اپنی رسی کسی حد تک دراز کرتی ہے، آپ دریاؤں کے رخ موڑنے، ان کو تنگ کرنے یا ان کے آگے اینٹ پتھر تو کیا، سیسے کی دیواریں بھی بنا دیں تو آپ اس بپھرے ہوئے پانی کا مقابل نہیں کر سکتے۔ امریکا جیسی سپر پاور بھی اور ان کا نیو یارک جیسا شہر بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہا۔

حال ہی میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ عذاب الٰہی تو کہا جا رہا ہے مگر یہ ہے تو ہماری اپنی ہی حرکتوں کا شاخسانہ، ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو ہم نے بویا ہے۔ دریائے سوات میں بہہ جانے والے ایک خاندا ن کے بعد کتنے ہی خاندان نذر سیلاب ہوئے، وہ تو سیاح نہیں تھے، وہیں کے مکین تھے اور دریاؤں کے عین اوپر گھر بناتے وقت انھیں کبھی سوچ نہیں آئی ہو گی کہ کبھی یہ دریا بپھر بھی سکتے ہیں، کسی چیزکا فطری راستہ روکیں تو اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔

ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں کا دریاؤں میں بدل جانا حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔کیسے اس طر ح کی تعمیرات کی اجازت مل جاتی ہے کہ عین نالوں کے اوپر بیس بیس منزلہ عمارات کھڑی کردی جاتی ہیں ، برساتی نالے بند کر کے اس تمام پانی کو یوں سڑکوں پر آنے کی سہولت دی جاتی ہے۔

دنیا میں کتنے ہی ممالک ہیں جہاں سارا سال بارش ہوتی ہے مگر وہاں نہ اسکول اور کالج بند ہوتے ہیں نہ معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایسا ہوتا ہے، ہم ہر بار یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، لوگ مرتے ہیں، گھروں سے بے گھر ہوتے ہیں، غربت کی انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ 

بارشوں کا موسم ختم ہوتے ہی ایسا ہی منظر ہو گا جیسا کہ وہ پرندے جو صبح اپنے گھونسلوں کو چھوڑ کر رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شام کو واپس لوٹ آتے ہیں، اسی طر ح مون سون ختم ہو گا تو وہی ٹھکانے پھر بن جائیں گے، پھر بہہ جانے کے لیے، پھر وہی نقصا ن ہوں گے، پھر وہی غم کی داستانیں اور حکومت ہر سال سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دنیا بھر سے فنڈ اکٹھے کرے گی اور ہم سوچتے رہ جائیں گے کہ وہ فنڈ کیا ہوئے۔

Load Next Story