بارشیں اور سیلاب؛ غفلت کب تک؟

ارباب اختیار فیصلہ کرلیں کہ کام کرنا ہے یا پھر لوگوں کو ڈبونا ہے؟

رواں برس بھی گزشتہ برسوں کی طرح معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں جن کی وجہ سے بونیر، سوات، باجوڑ، بٹگرام سمیت مختلف علاقوں میں سیلاب اُمڈ آیا اور 320 سے زیادہ افراد کی جانیں لے گیا۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں 279 مرد، 15 خواتین اور 13 بچے شامل ہیں۔ بونیر میں سیلاب بادل پھٹنے کی وجہ سے آیا اور پورے کا پورا گاؤں ہی بہا کر لے گیا۔

ان علاقوں کی تباہی کی خبریں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں دیکھی گئیں، صحافت کے عالمی اداروں نے ان واقعات کو شہ سرخیوں کا حصہ بنایا۔ ملک بھر میں غم کا سماں ہے۔ ہر پاکستانی سیلاب زدگان کے دکھ درد میں شریک ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی متاثرہ اضلاع کی بحالی کےلیے مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جس میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے کے طور پر بونیر کے لیے 15 کروڑ، باجوڑ، مانسہرہ اور بٹگرام کے لیے 10، 10 کروڑ روپے جب کہ سوات کےلیے 5 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کا یہ قدم قابل ستائش ہے مگر یہ پیسے سیلاب زدگان تک پہنچنے میں کافی وقت لگے گا۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کے گھر بہہ چکے ہیں، انہیں راشن، رہن سہن، مالی و طبی مدد کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ فلاحی اداروں کے وسائل محدود ہیں، لہٰذا وہ ایک حد سے زیادہ مدد نہیں کرسکتے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنائے۔

سائنسی اعتبار سے سیلاب آنے کی وجہ گلوبل وارننگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر کے پھٹنے یا پگھلنے سے سیلاب آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شدید اور غیر رسمی بارشیں بھی سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔

حالیہ سیلابی ریلے بھی زیادہ بارشوں کا نتیجہ ہیں اور جو نقصانات ہوئے ہیں،یہ ہماری نااہلی ہے۔ میں بونیر کے نقصانات کو مکمل طور پر نااہلی قرار نہیں دے سکتا، کیوں کہ اب تک میری نظر سے کوئی ایسی چیز نہیں گزری جس میں بادل کے پھٹنے سے پیشگی بچاؤ کے بارے میں رہنمائی ملتی ہو۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اگر کسی چھوٹے پہاڑی علاقے (1 سے 10 کلومیٹر تک) میں ایک گھنٹہ میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ہو تو وہاں بادل پھٹ کر اپنا سارا بوجھ ایک ہی وقت میں گرا دیتے ہیں جو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ سیلاب اپنے ساتھ پتھر اور درخت سمیت سامنے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے۔ مردان کے علاقے کاٹلنگ میں بننے والے سسٹم نے جب بونیر کا رخ کیا تو وہاں بالکل یہی ہوا اور پورا بشنوئی گاؤں بہہ گیا۔

بونیر میں بادل پھٹنے سے ہونے والی اس تباہی سے شاید بچنا ممکن نہ تھا مگر جن علاقوں میں بادل نہیں پھٹے اور تباہی ہوئی، وہاں تمام تر نقصانات کی ذمے داری حکومت اور دریا کے قریب ہوٹل اور مکانات بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت تو ہر ایک پہلو سے مجرم ٹھہرتی ہے۔

بارشیں پوری دنیا میں ہوتی ہیں، وہاں بھی سیلا ب آتے ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں اپنی بساط کے مطابق پورے انتظامات کرتی ہیں۔ چین اور انڈیا سمیت بڑے ممالک میں درجنوں ڈیم بنے ہوئے ہیں جہاں وہ پانی ذخیرہ کرکے اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بارشیں نہ ہوں تو پانی نایاب ہو جاتا ہے اور جب ہوں تو سیلاب اُمڈ آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات کا فقدان ہے۔

پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کےلیے 1991 میں بنائے جانے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف 2 بڑے ذرائع ہیں جن میں تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم شامل ہیں۔ ان دونوں ڈیموں میں صرف 30 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔

ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فٹ پانی بچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کےلیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اب تک ایسے ڈیم نہیں بنائے جا سکے ہیں، نتیجتاً! خشک سالی اور سیلاب ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ 
پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن ابھی تک بیچارے پاکستانی ایسی کسی بھی پروجیکٹ کے ثمرات سے محروم ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کو لے لیں، یہ منصوبہ 1980 سے زیر غور ہے اور ابھی 2020 میں اس پر کام تیز کرنے کا اعلان کرکے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر 2028 میں مکمل ہوگی۔ اسے پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم قرار دیا جارہا ہے۔ اللہ کرے یہ ڈیم بروقت مکمل ہو۔ بہرحال، حکومت کو اس سے آگے کا بھی سوچنا چاہیے کیوں کہ اب ملک مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر دیامر بھاشا ڈیم سمیت مزید ڈیم بنانے چاہئیں۔ حکومت کو درخت کاٹنے، دریا کے پانی کے قریب ہوٹل اور مکانات بنانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کےلیے حکومت کو سب سے پہلے اس طرح کے کاموں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی کرنا ہوگی۔ ارباب اختیار فیصلہ کرلیں کہ کام کرنا ہے یا پھر لوگوں کو ڈبونا ہے؟
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 

Load Next Story