بارشوں سے تباہی : اسباب اور سدباب
1970 میں سائنسدانوں نے انکشاف کیا کہ انسان کی ماحول خراب کرنیوالی سرگرمیوں سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ 1974 میں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ صنعتی کارخانوں سے کئی طرح کی زہریلی گیسز نکل کر اس اوزون کی سطح کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
ساتھ ہی خبر دار بھی کیا گیا کہ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو آنیوالے 75 برسوں میں اس تہہ کا مکمل خاتمہ بھی ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں انتہائی خطرناک سمندری طوفان اور سیلابوں کے آنے کا بھی خطرہ ہے، نیز دنیا بھر کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔
جے۔ ڈائیمنڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جنگلات کو گزشتہ پچاس برسوں میں اتنا نقصان نہیں پہنچایا گیا جتنا کہ موجودہ جدید دور میں پہنچایا گیا، اگر جنگلات اسی طرح کاٹے جاتے رہے تو آیندہ پچاس برسوں میں جنگلات کا مزید ایک چوتھائی حصہ ختم ہوجائے گا اور پھر اس کا خمیازہ تمام دنیا کو بھگتنا ہوگا۔
بارشوں میں کمی ہوگی یا پھر طوفانی ہوں گی، زمین کی زرخیزی ختم ہوجائے گی، درجہ حرارت بڑھنے سے سخت گرمی پڑے گی، پانی کے ذخائر اور پیداوار ختم ہوتی چلی جائی گی، خشک سالی میں اضافہ ہوگا۔ غرض ڈائیمنڈ نے آیندہ ہونے والے نقصانات کی ایک بڑی تفصیل بیان کی ہے، جو باتیں اس نے بیان کی ہیں، ان کا اظہار دنیا بھر میں بھرپور طریقے سے شروع ہوچکا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والی ترقیاتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پاکستان مشکلات میں گھرگیا ہے اور وقفے وقفے سے مختلف قسم کے طوفانوں سے تباہی پر تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے مسائل میں سخت قسم کا اضافہ ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مسلسل جو تباہی کے واقعات سامنے آرہے ہیں، کیا اس میں ہم پاکستانیوں کا بھی کچھ ہاتھ ہے؟ غورکریں تو اس تناظر میں ہمارا قصور بھی بہت بڑا ہے۔
مثلاً درختوں کی کٹائی تو دنیا بھر میں جاری ہے مگر ہم اپنی ہی گھر میں خود یہ کام بہت تیزی سے کر رہے ہیں اور یہ کام صرف کراچی جیسے شہروں میں ترقی کے نام پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ شمالی علاقہ جات میں بھی ہو رہا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں قیمتی زمین حاصل کرنے کے لیے پانی گزرنے کے قدرتی راستوں کو بند کیا گیا اور اس ملک کے شمالی علاقہ جات میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا وہ وہاں سیاحوں سے پیسہ حاصل کرنے کے لیے آبی گزرگاہوں پر ہوٹل بنائے گئے۔
اسی طرح ان علاقوں سے درختوں کی کٹائی سے بھی خوب کمائی کی گئی اور یہ عمل پورے ملک میں تاحال جاری ہے۔ یہ تو ’’ کامن سینس‘‘ کی بات ہے کہ جب کسی آبی گزرگاہ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا تو پانی اپنا راستہ کہیں نہ کہیں سے تو بنائے گا۔ یوں عالمی ماحولیاتی مسائل کے سبب جب بارشوں اور سمندروں میں شدت پیدا ہوئی تو انھوں نے اپنا راستہ خود بنایا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ کراچی سے لے کر شمالی علاقہ جات،کشمیر تک کیا کچھ تباہی ہوئی اور یہ تو ابھی آغاز ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ان آنے والی تباہیوں کے اسباب کو سمجھیں کیونکہ اس کے اسباب سمجھ کر ہی ان کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جا رہا ہے کہ صرف درختوں کی کٹائی ہی اس کا سبب ہے جب کہ ایسا قطعی نہیں ہے، یہ صرف ایک سبب ہے۔ ہمیں قدرتی عمل میں جو بھی رکاوٹیں ہیں، ان کو بھی سمجھنا چاہیے۔
مثلاً قدرتی آبی گزرگاہوں کے راستوں کو نہ صرف کھلا رکھنا چاہیے، یعنی محض پیسہ کمانے کے لیے ان کے راستے بند نہیں کرنا چاہیے، نیز اب ان راستوں کو اور وسیع اور رواں کرنا چاہیے کیوں کہ آنیوالے وقتوں میں اس قسم کے سیلابوں وغیرہ کے واقعات اور شدت دونوں میں اضافہ ہوگا۔
ہماری قومی ترقی والی پالیسیوں میں یہ خرابی بھی ہے کہ ہم ترقی کے لیے قدرتی چیزوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں یہ بہت خطرناک عمل ہے مثلاً قیمتی زمین دیکھ کر کنکریٹ کی عمارتیں، سڑکیں وغیرہ بنا دیتے ہیں اور بڑا احسان کرتے ہیں تو ازالے کے طور پرکہیں اور درخت، سبزہ وغیرہ لگا دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قدرتی چیزیں قدرتی ہی ہوتی ہیں۔
کراچی جیسے شہر میں پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر آبادیاں قائم کردی گئیں، حالانکہ یہ پہاڑیاں قدرت کے سسٹم کا ایک حصہ تھیں۔ اسی طرح ایک عام آدمی میں یہ شعور تو آگیا ہے کہ درخت لگائے جائیں مگر یہ شعور ابھی تک نہیں آیا کہ اشیاء کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور سادگی اپنائی جائے،کیونکہ اشیاء جتنا زیادہ استعمال ہوں گی، اتنا ہی ماحولیات کے مسائل جنم لیں گے۔
آج کا انسان ہر لمحے نئی سے نئی شئے حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے دن رات تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اگر پیدل ہے تو موٹر سائیکل، موٹر سائیکل ہے تو کار،کار ہے تو لگژری کار حاصل کرنا چاہتا ہے، ایک جوڑا پہننے کو ہے تو کئی جوڑے خریدنا چاہتا ہے، مگر اس کے اس عمل سے اس کرہ ارض کو کیا نقصان پہنچے گا، اس کا احساس نہیں، مثلاً ایک شخص کے پاس پہننے کو دو جوڑے جوتے ہیں مگر وہ تیسرا جوڑا خریدتا ہے اور اپنے اس عمل سے سمجھتا ہے کہ اس کائنات کو اس کے ایک جوتے جوڑے سے کیا نقصان پہنچے گا؟
لیکن یہی سوچ کر اگر اس دنیا کے محض ایک ارب انسان جوتے کا جوڑا خریدیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ کارخانوں میں ایک ارب جوتے تیار ہوئے، ظاہر ہے کہ جب ایک ارب جوتے تیار ہونگے تو کس قدر وقت مشینیں چلی ہوں گی اورکس قدر توانائی خرچ ہوئی ہوگی اور اس کے نتیجے میں کس قدر کاربن خارج ہوکر فضا میں شامل ہوئی ہوگی؟
آج ہم ہر موقعے پر کپڑے کا نیا جوڑا اور نئے جوتے پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں،گھر میں اور باہر استعمال کی ہر اشیاء بالکل نئے ماڈل کی چاہتے ہیں اور پرانی کو پھینکے کا سوچتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے استعمال کی ہر شئے ہی کسی مشین پر،کسی کارخانے میں بنتی ہے اور اس عمل سے ماحول میں کاربن شامل ہوتی ہے اور ہماری کائنات کو نقصان پہنچتا ہے، وہ بھی ایسا نقصان کہ جس سے طوفان آتے ہیں، درجہ حرارت بڑھتا ہے اور زندگی جہنم بننے لگتی ہے۔
کتنی عجیب سی بات ہے کہ آج ہم وہ اشیاء بھی استعمال کرنے کے لیے تڑپتے ہیں کہ جو ہماری بنیادی ضرورت نہیں اور ہم اس کے بغیر بھی گزارا کرسکتے ہیں۔ ایک پرانا موبائل ہمیں رابطہ رکھنے کو سہولت دیتا ہے مگر ہم موبائل کے ہر نئے آنیوالے ورجن یا ماڈل کو حاصل کرنا چاہتے ہیں،گھر میں ٹی وی ہے مگر ایل ای ڈی لانا چاہتے ہیں،گاڑی ہے مگر نئے ماڈل کی مہنگی گاڑی چاہتے ہیں۔
ہم تو گھر سے باسکٹ یا تھیلا لے جا کر سودا خریدنے کی بھی زحمت نہیںکرتے، ہرکوئی بازارکے شاپر میں اشیاء خرید کر لاتا ہے اور پھر یہی شاپرگلی، محلے اور سڑکوں کے ساتھ قائم برساتی نالوں کو بھی بند کردیتے ہیں جس سے تھوڑی سی بارش ہونے پر بھی شہروں میں ’’ اربن فلڈ ‘‘ کا سما ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ شہری بھی اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں، ماحولیات کے مسائل کو سمجھیں اور حکومت وقت بھی ماحولیات مسائل کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائے اور خاص کر ایمرجنسی میں عالمی معیار کی سہولیات کا انتظام کرے۔