ہجرت کے فیصلے سے پہلے خود احتسابی کیا یہ سب اپنے وطن میں ممکن نہیں؟
ہجرت انسان کی زندگی کا وہ فیصلہ ہے جو اس کے ماضی اور مستقبل کے بیچ ایک مضبوط لکیر کھینچ دیتا ہے۔ یہ فیصلہ اکثر دل پر بوجھ ڈال کر کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں اپنا گھر، گلی محلہ، اور بچپن کی یادیں پیچھے چھوڑنی پڑتی ہیں۔
مگر انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہتر زندگی، امن و سکون، انصاف اور مواقع کی تلاش میں سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مشرقِ وسطیٰ سے ہر سال لاکھوں لوگ یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کا رخ کرتے ہیں۔ کوئی مزدوری کے لیے جاتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے، کوئی کاروبار کے لیے، اور کوئی صرف اس لیے کہ اپنے بچوں کو ایک بہتر مستقبل دے سکے۔
لیکن ایک دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگ جو اپنے ملک میں ٹریفک سگنل توڑتے ہیں، سڑک پر کچرا پھینکتے ہیں، قطار توڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، اور کرپٹ لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں، وہ یورپ پہنچتے ہی قانون کے سب سے بڑے محافظ بن جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے ملک میں ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اگر ہم وہی رویے یہاں اپنائیں تو کیا ہمیں اسپین، اٹلی، فرانس، ڈنمارک، انگلینڈ یا امریکہ جانے کی ضرورت پڑے گی؟ یورپ میں قانون صرف کاغذ پر نہیں ہوتا، وہ روزمرہ زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ وہاں چھوٹی سے چھوٹی خلاف ورزی پر بھی کارروائی ہوتی ہے۔
سب سے اہم بات قانون کی حکمرانی ہے۔ وہاں یہ تاثر یقین کا درجہ رکھتا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے کے بعد بچ نکلنا ناممکن ہے۔ یہ صرف حکومت کی سختی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سختی وقت گذرنے کے ساتھ معاشرتی شعور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یورپ میں اگر آپ سگریٹ کا ٹکڑا زمین پر پھینک دیں تو جرمانہ فوراً عائد ہو جاتا ہے۔ وہاں لوگ کچرا جیب یا بیگ میں رکھتے ہیں جب تک کہ کچرا دان نہ مل جائے۔ یہ صرف قانون کا خوف نہیں بلکہ معاشرتی دباؤ بھی ہے کیونکہ وہاں لوگ اسے بد تہذیبی سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ عام ہے کہ گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے بوتل یا لفافہ باہر پھینک دیا جائے۔ کوئی برا بھی نہیں مانتا، بلکہ اسے ایک معمول کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ یورپ میں تمباکو نوشی صرف مخصوص مقامات پر کی جاتی ہے۔ خلاف ورزی پر نہ صرف جرمانہ بلکہ معاشرتی نفرت بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ کوئی اجنبی بھی آپ کو ٹوک سکتا ہے اور آپ کو معافی مانگنی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں اگر آپ کسی کو عوامی مقام پر سگریٹ پینے سے منع کریں تو وہ الٹا آپ کو جاہل یا سخت مزاج کہہ دے گا۔ یورپ میں پیدل چلنے والے بھی سگنل اور زِبرا کراسنگ کی پابندی کرتے ہیں۔
گاڑیاں پیدل چلنے والوں کو راستہ دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں اگر آپ زِبرا کراسنگ پر کھڑے ہیں تو گاڑیاں رفتار بڑھا دیتی ہیں، آپ کو فوراً اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ گاڑی کی حرکت اور ڈرائیور کے چہرے کا تاثر اس بات کا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ ’’ آگے مت آنا ، میں نہیں رکوں گا‘۔ یورپ میں اگر کسی کا سائیکل، بلی یا کتا بھی گم ہو جائے تو پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے، اور وہ کارروائی بھی کرتی ہے۔ یہ صرف جانور سے محبت نہیں بلکہ قانون اور نظام پر اعتماد کی علامت ہے۔ ہمارے ہاں اگر آپ کے گھر میں چوری ہو جائے تو لوگ مشورہ دیتے ہیں:’’پولیس کے چکر میں نہ پڑو، کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ یہ جملہ ہمارے معاشرتی زوال کا آئینہ ہے۔ جب عوام کو اپنے اداروں پر اعتماد نہ ہو تو جرائم بڑھ جاتے ہیں۔
یورپ میں سیٹ بیلٹ باندھنا لازمی ہے، چاہے آپ کسی گلی ہی سے کیوں نہ گذر رہے ہوں۔ بچوں کو پچھلی سیٹ پر مخصوص کرسی میں بٹھانا قانون ہے۔ ہمارے ہاں سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر پولیس روک لے تو سفارش ڈھونڈی جاتی ہے یا چند روپے دے کر جان چھڑائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حادثوں میں اموات کی شرح کئی گنا زیادہ ہے۔ یورپ میں قطار سب کے لیے برابر ہے۔ چاہے وزیر ہو یا مزدور، اپنی باری کا انتظار کرے گا۔
قطار توڑنے پر لوگ احتجاج کرتے ہیں اور یہ احتجاج ذاتی دشمنی نہیں سمجھا جاتا۔ درحقیقت یہی قانون کی حکمرانی کا بنیادی تصور ہے۔ ہمارے ہاں قطار توڑنے والا فخر سے کہتا ہے: ‘‘دو منٹ میں کام نکلوا لیا’’۔ یہ رویہ معاشرے میں نا انصافی اور بد اعتمادی کو بڑھاتا ہے۔ یورپ میں لوگ نمائندہ چنتے وقت اس کے کردار، تعلیم، تجربے اور پالیسیوں کو دیکھتے ہیں۔ ووٹ ذات برادری یا ذاتی تعلق کی بنیاد پر نہیں دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ووٹ اکثر ‘‘چچا کا بیٹا’’ یا ‘‘قبیلے کا بندہ’’ ہونے پر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ کرپٹ لوگ بار بار منتخب ہوتے ہیں، اور پھر عوام انہی پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ سوال اُتھتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں قانون نہیں ہے،کیا ہمارے ہاں نظام نہیں ہے،کیا ہمارے ہاں تعلیم نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہے لیکن اصل میں ان کو معاشرے کو درست راستے پر ڈالنے کی نیت سے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا۔
دراصل اس ملک کے بالادست طبقات کے مفاد میں نہیں کہ اُن سے سوال کیا جائے لہذا عوام میں اعلٰی اقدار پیدا کرنا اُن کے مفاد میں نہیں۔ ہمارا پورا معاشرہ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ بے وسیلہ لوگ ہیں جو نظام اور بالادست طبقات کے رحم وکرم پر زندہ ہیں۔ اگر کوئی مدد میسر آگئی یا پھر کچھ دے دلا کر کام نب گیا تو ٹھیک ورنہ صبر شکر کر کے بیٹھے رہے۔ دوسرے وہ جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں کیونکہ وہ جب چاہیں قانون کو اپنہ مرضی منشا کے مطابق موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یورپ میں ڈر صرف قانون سے نہیں بلکہ معاشرتی ردعمل سے بھی ہوتا ہے۔ وہاں بے اصولی کرنے والے کو معاشرہ مسترد کر دیتا ہے۔اسلام نے ہمیں چودہ سو سال پہلے جو قوانین اور اصول و ضوابط دیے جو آج یورپ نے اپنائے ہیں:
صفائی نصف ایمان ہے۔
راستے کا حق ادا کرو۔
دھوکہ نہ دو، وعدہ پورا کرو۔
عدل و انصاف قائم کرو، چاہے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
بدقسمتی سے ہم نے ان تعلیمات کو صرف کتابوں تک محدود کر دیا، اور عملی زندگی میں فراموش کر دیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر شہروں، گلیوں ، سڑکوں اور دیگر مقامات کے نام تبدیل کرنے کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ اپنی دانست میں لوگ نام بدل کر اسے بڑی کامیابی تصور کر رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت نام بدلنے کی نفسیات قوت تعمیر اور قوت عمل کے فقدان کی علامت ہے۔ مقامات کے نام تاریخ ہوتی ہے، ہم کچھ نیا بنانے کے بجائے نام بدل دینے کے خبط میں مبتلا ہیں۔
اسی طرح ہم اپنے ملک کو دنیا کے بہترین ملکوں کی صف میں شامل کرنے کی جد و جہد کرنے کے بجائے یہاں سے بھاگ کر ترقی یافتہ ملکوں میں جگہ بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی سب سے بڑی وجہ معشیت ہے لیکن ہمارے ملک کی معیشت بھی تو ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس حالت کو پہنچی ہے۔ اگر ہم اپنے حکمران نیک نیتی اوت دیانتدار سے چنتے تو آج اس حال کو نہ پہنچتے۔
یورپ میں سگنل پر رْک کر موبائل چیک کرتے ہیں، ہمارے ہاں سگنل توڑ کر موبائل پر ویڈیو بناتے ہیں۔ یورپ میں کچرا الگ الگ ڈبوں میں ڈال کر ری سائیکل کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں سب کچرا ایک ہی نالے میں۔ یورپ میں پالتو جانور بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، ہمارے ہاں بیمار جانور کو گلی میں چھوڑ دیتے ہیں۔
یورپ میں رش کے وقت بھی گاڑی کا ہارن کم سے کم بجاتے ہیں، ہمارے ہاں ہارن مسلسل بجتا رہتا ہے جیسے اس سے ٹریفک غائب ہو جائے گی۔ اگر ہم اپنے ملک میں وہی قانون پسندی، صفائی کا شعور، نظم و ضبط، سیکیورٹی کا احساس اور جمہوری شعور اپنائیں، تو ہمیں ہجرت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ترقی صرف جغرافیہ بدلنے سے نہیں آتی، بلکہ سوچ اور کردار بدلنے سے آتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے تیار ہیں؟