غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات

اب حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں اس کی بھاری قیمت عوام اور حکمرانی کے نظام کو دینی پڑرہی ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان اس وقت قدرتی آفات،سیلاب کی تباہ کاریوں،شدید بارشوں کے ایک بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ، خیبر پختونخوا ، اسلام آباد یا پنڈی اور پنجاب میں شدید بارشوں سمیت سیلاب کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں شدید بارش نے بھی شہر کی عملی تباہی کا منظر پیش کیا ۔

سیلاب پنجاب کے بعد سندھ میں داخل ہوگا ہے۔ بارش، سیلاب ، قدرتی آفات کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔لیکن ریاست، حکومت اور ادارہ جاتی نظام کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مختلف سطح کی حکمت عملیوں کی مدد سے ان سے نمٹنے کی نہ صرف صلاحیت پیدا کرتی ہے بلکہ عملی طور پر اپنے نظام کو اس انداز سے ترتیب دیتی ہے کہ وہ اس طرز کے چیلنج سے بہتر طور پر نمٹ سکے۔

لیکن کیونکہ ہم مجموعی طور پر حکمرانی کی شفافیت کے بحران کا شکار ہیں تو یہاں حکمرانی سے جڑے کئی طرح کے مسائل اور چیلنجز کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری حکمت عملی ایک ردعمل سے جڑی ہوتی ہے اور ہم مجموعی طور پر دور اندیشی اور لانگ ٹرم ،مڈٹرم یا شارٹ ٹرم حکمت عملی کا موثر نظام نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہمیں ریاستی و حکومتی سطح پر ان مسائل سے نمٹنے کے نظام میں شفافیت کا فقدان نظر آتا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ چوہدری محمد اورنگزیب نے اعتراف کیا ہے کہ2022کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ہم نے عالمی دنیا سے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جو کمٹمنٹ کی تھی یا مالی وسائل کا دنیا نے ہم کو دینے کا وعدہ کیا تھا اس میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہماری اپنی ناکامی بھی تھی کہ ہم نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا یا مالیاتی اداروں کو جو منصوبے بنا کر دینے تھے وہ بھی ہم نہیں کرسکے۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ سیلاب،بارش ہو یا قدرتی آفات یا ماحولیاتی آلودگی سے جڑے مسائل ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔ہم نے وفاقی ،صوبائی یا اضلاع کی سطح پر جن اقدامات کو یقینی بنانا تھا اس میں ہم نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔

یہ ناکامی کسی ایک حکومت کی نہیں بلکہ ہر حکومت نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے اور یہ مجموعی طور پر حکومتوں سمیت ریاست کی ناکامی کے زمرے میں آتا ہے۔

18ویں ترمیم کے بعد جہاں ان مسائل سے نمٹنے کی بڑی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، وہیں ہمارے ضلعی مینجمنٹ نظام میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ بارشوں،سیلاب یا قدرتی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔کیونکہ ہماری صوبائی حکومتوں نے نہ تو اضلاع کی سطح پر عوامی نمایندگی کی بنیاد پر ایک مضبوط اور مربوط مقامی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو اہمیت دی اور نہ ہی مقامی سطح پر مضبوط انتظامی ڈھانچہ ان کی ترجیحات کا حصہ رہا۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہم نے وفاقی سطح پر این ڈی ایم اے،صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے اور ضلعی سطح پر ڈی ڈی ایم اے جیسے ادارے تشکیل دیے،لیکن یہ ادارے بھی اپنی فعالیت کی ساکھ قائم نہیں رکھ سکے ہیں ۔پی ڈی ایم اے کی ناکامی یہ ہے کہ اس نے اضلاع کی سطح پر ڈی ڈی ایم اے کو فعال اور مضبوط ہی نہیں بنایا۔ بارشوں،سیلاب اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے آپ کا اضلاع پر مینجمنٹ سسٹم ہی مسائل کے حل کے لیے بنیادی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے، مگر ہماری ترجیحات آج کی جدید دنیا اور نظام سے مختلف ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ ہم نے جیسے دریا کے راستوں پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جو کھیل کھیلا ہے اس کے نتیجے میں دریا اپنی زمین ان سیلاب کے نتیجے میں خود حاصل کررہا ہے۔اس کھیل کی تباہ کاری میں مجموعی طور پر پورا ریاست کا نظام ملوث ہے اور ان کی ملی بھگت سے ان نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بنایا گیا ۔

اب حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں اس کی بھاری قیمت عوام اور حکمرانی کے نظام کو دینی پڑرہی ہے۔اس کھیل میں جو بھی حکمران یا ادارے ملوث ہیں اور جن کی منظوری سے یہ سب کچھ ہوا کیا ہم ان کو احتساب کے دائرے کار میں لاسکیں گے۔یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ ہم بارشوں، سیلاب اور قدرتی آفات سمیت اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں یا انسانی زندگیوں کے ضیاع میں کیوں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور کیونکر ہم اس ریاستی نظام میں اس ناکامی اور نااہلی پر جوابدہ نہیں ہوتے۔ایسا نہیں کہ ہمیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا نے مالی وسائل نہیں دیے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہم نے ان مالیاتی وسائل کی ذاتی طور پر بندربانٹ کی بلکہ ان تمام اہم کاموں کو نظرانداز کیا جو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ بنتا تھا۔

ہمارا انتظامی یا بیوروکریسی کا ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے اور اس فرسودہ نظام یا ڈھانچے کی بنیاد پر ان اہم مسائل سے نمٹنے میں ہمیں ناکامی کا سامنا ہے۔یہ الزام تو ہم بھارت پر لگادیتے ہیں کہ اس نے پانی چھوڑا جس کی وجہ سے ہمیں سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔اس حقیقت کو تسلیم بھی کرلیں تو پھر بھی ہماری ریاست اور حکومت سمیت حکمرانی کا نظام وہ خود کچھ کیوں نہیں کرسکا جو اسے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کرنا چاہیے تھا۔خیبر پختونخوا کے دریاؤں کے قریب بڑی عمارتوں ،ہوٹلوں سمیت ریسٹورنٹ کی تعمیر کیسے ہوئی اور کیوں ان کو اجازت دی گئی اور کیوں ان کو احتساب کے دائرہ کار میں نہیں لایا گیااور کیوں ان طاقت ور افراد کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کیے گئے، متعلقہ سرکاری اداروں کی افسرشاہی کو کیوں جوابدہ نہیں بنایا گیا، سرکاری فنڈز کدھر خرچ ہوئے، اس کا حساب کیوں نہیں لیا گیا، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ، وزراء اور صوبائی کے ارکان کو اس کا جواب ضرور دینا چاہیے۔

کالا باغ ڈیم سے ہٹ کر ہم نے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر میں کیونکر کوتاہی کا مظاہرہ کیا؟ اب وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک بار پھر نظام دنیا کے امیر ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف امداد کے حصول کے لیے دیکھ رہا ہے۔مگر اس سے قبل جو ہماری حکومتوں کو مالیاتی امداد ملی، اس سے ہم نے کیا کیا اور اس کا کون حساب دے گا۔بنیادی طور پر عدم شفافیت ہمارا اہم مسئلہ ہے اور ہم نے شفافیت کو کبھی اپنی ترجیحات کا حصہ نہیں بنایا۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں غیر اہم ترقیاتی منصوبے یا رعب اور موج مستی پر مبنی حکمرانی کا نظام ہے اور اسی بنیاد پر ہم ترقیاتی اخراجات کے بجائے غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں جو حکمرانی کے نظام کو مزید خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔

یہ سوال بنتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر وسائل کے باوجود این ڈی ایم اے،پی ڈی ایم اے اور ڈی ڈی ایم اے کی کارکردگی کہاں ہے ۔ وفاقی،صوبائی اور اضلاع کی حکومتوں اور اداروں کے درمیان جو باہمی رابطوں اور عملدرآمد کے نظام کی کمی ہے، اسے کیسے دور کیا جائے۔ایک طرف جہاں ہمیں بری حکمرانی کا سامنا ہے تو اسی طرح سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کی سطح پر بھی ماحولیاتی آلودگی سے جڑے مسائل بھی ان کی ترجیحات کا اہم حصہ نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہم ان موجود برے حالات کو تسلیم کریں اور خود بھی جاگیں اور دوسروں کو بھی جگائیں کہ ہمیں جہاں اپنی ترجیحات کو قومی ضرورتوں یا عوامی مفاد کے ساتھ جوڑنا ہے وہیں ان قدرتی آفات یا سیلاب سے نمٹنے کے لیے وہ کچھ کرنا چاہیے جو کچھ دنیا کے دیگر ممالک میں ہورہا ہے۔

کیونکہ جدید دنیا سے سیکھنے میں کوئی برائی نہیں۔لیکن شاید ہم سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور فرسودہ یا پرانے خیالات یا طور طریقوںسے ہی حکمرانی کے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔یقیناً اس فرسودہ نظام سے ہی حکمرانی کے نظام سے جڑے افراد کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں ،جو ہمیں شفافیت سے آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔اس لیے ان غیرمعمولی حالات میں ہم غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

Load Next Story