لاجبرسلیم کا بھی سفرتمام ہوا
barq@email.com
جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ زندگی ایک سفر ہے سہانا،جھوٹ کہا ہے ۔ زندگی اگر ایک سفر ہے تو سفر کبھی سہانا نہیں ہوتا بلکہ کچھ تو اسے ’’سقر‘‘ کہتے ہیں کہ اس سفر میں قدم قدم پر گھاٹیوں ،کھائیوں اورکٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے،سرابوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے ، گزرنا پڑتا ہے ، رہزنوں کے ہاتھوں لٹنا پڑتا ہے ، رحمان بابا نے کہا ہے کہ
میں نہ کہیں آتا ہوں نہ جاتا ہوں
اوربیٹھے بیٹھے زندگی کاسفر کٹ رہا ہے
یعنی کوئی چاہے نہ چاہے اسے یہ سفر مثل سقر طے کر کے ’’سفر‘‘کرنا پڑتا ہے اور دریاؤں کو پار کرنا پڑتا ہے، وہ بھی آگ کے دریاؤں کو اور ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے ۔
ایک اوردریا کاسامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
لاجبر سلیم بھی ایک ایسا ہی مسافر تھا جس کے سفر کااختتام دوربہت ہی دورآسٹریلیا میں ہوا ۔
چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کانصیب
سوچتے رہتے ہیں کس راہگزر کے ہم ہیں
وقت کے ساتھ ہے مٹی کاسفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
نوشہرہ کے ایک گاؤں سے چلنے والے مسافر کی مٹی کن کن راستوں پر چلتی ہوئی آسٹریلیا کی مٹی میں جاملی ۔ داغ نے بھی کہا ہے
کعبے کی ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں میری مٹی کہاں کی ہے
وہ میرا کلاس فیلوتھا اورچھٹی جماعت میں تھا جب کراچی چلا گیا جہاں اس کابڑا بھائی کسی اسپتال میں ٹیکنیشن وغیرہ تھا ۔پھر اس کے بارے میں صرف سنتے رہے۔ وہ ڈاکٹر ہوکر سرکاری اسپتال میں ملازم ہوگیا ۔پھر اورآگے بڑھ کر اونچی کلاس کا فزیوتھراپسٹ بن گیا تو شاعری شروع کی، وہ پشتو گانے لکھتا رہا اوردوسری زبانوں کی مشہور گلوکاراؤں کی آوازورں میں ریکارڈکراتا رہا، نسیمہ شاہین ، رونالیلیٰ، روبینہ قریشی سے اس نے اپنے پشتو گانے گوائے اوربڑی محنت کے ساتھ پیسہ بھی خرچ کیا کہ دوسری زبانوں کے فنکاراؤں سے پشتو گانے گواناآسان کام نہ تھا، یہ سب گانے ہٹ ہوئے ، ریڈیو اورکیسٹوں پرچھا گئے خاص طور پر نسیمہ شاہین کی آواز میں ’’پنگھٹ‘‘ کاگانا تو بیسٹ سیلراوربلاک بسٹر ثابت ہوا۔ اس کانام چمک گیا جو اب اس نے ’’لاجبر‘‘سے لاجبر خان سلیم کردیا تھا۔
ان ہی دنوں میں اس کے بڑے بھائی کاانتقال ہوگیا تو وہ اس کی میت کے ساتھ گاؤں آیا، نہ جانے کتنی مدت کے بعد، میں نے بھی اسے نام سے پہچانا کہ اب وہ اسکول کا میلاکچیلا لڑکا نہیں تھا ، نہایت ہی خوبصورت کلین شیو اورماڈرن نوجوان تھا، گاؤں کے لوگوں نے تدفین میں اورپھر فاتحہ میں جس محبت اوراپنائیت کااظہار کیا، اس سے وہ بے حد متاثر ہوا چنانچہ پھراس نے مجھے کراچی سے ایک خط میں لکھا کہ اب وہ اپنے گاؤں سے رابطے میں ہے ، کبھی آیا کرے گا اور گاؤں کی شادی غمی میں شرکت کرے گا ۔لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرپایا کیوں کہ ہوا اسے ایک اور طرف اڑا کرلے گئی۔
اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کاجدھر کا ہو ادھر کے ہم ہیں
اس نے کراچی ہی کی کسی خاتون سے شادی کی ہوئی تھی اورجب امید سے تھی اورڈلیوری کاوقت قریب آیا ، اتفاقاً یا ارادتاً وہ اسے آسٹریلیا لے گیا، ڈلیوری آسٹریلیا میں ہوئی تو بچہ قانونی طورپر آسٹریلین شہری ہوگیا ۔پھر ہم سنتے رہتے تھے کہ وہ آہستہ آہستہ سب کچھ آسٹریلیا منتقل کررہا ہے۔ بھانجے وانجے بھی لے جاکر آسٹریلیا میں سیٹ کردیے ، گاؤں اس کاکوئی قریبی عزیز نہیں تھا ، ماںفوت ہوگئی تھی ، باپ پہلے سے زندہ نہیں تھا ۔چندمرلے کے گھر اورچھوٹی سی جائیداد پر عزیزوں نے قبضہ کرلیا اورگاؤں سے مکمل طورپر اس کارشتہ کٹ گیا ۔
دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ ایک اورلحاظ سے بھی بدنصیب تھا ، کئی بیماریوں کاشکارتھا ، معدہ بھی مصنوعی یعنی پلاسٹک کا لگوایا تھا جب بھی فون پر بات ہوتی اپنی بیماریوں ہی کارونا روتا تھا اورمیں پھر کافی دیر تک اس کی حالت کاسوچ کر پریشان رہتا تھا کہ ایسی دولت کا کیا فائدہ جو انسان کو ایک پل کی خوشی بھی نہ دے سکے ۔
اپنی موت سے چند مہینے پہلے فون پر اپنی بیماریوں کا ذکر کرنے کے بعد اس نے ایک بات چھیڑ دی۔ بولا ، یہاں میں جس گھر میں رہتا ہوں، میں نے اس میں ناریل اورپپیتے کے درخت لگوائے ہیں اورایک انگورکی بیل بھی ہے ، ان درختوں کے سائے میں بیٹھا رہتا ہوں، یہ دراصل درخت نہیں تھے ،اس کے سفر کے نشان تھے ، ناریل اورپپیتے کراچی کی یاد دلاتے تھے اورانگوراپنے گاؤں کی یاد پر مبنی تھا ۔
مجھے اس کی موت کی اطلاع بھی دو مہینے بعد ملی ، تدفین آسٹریلیا میں ہوئی اوریقیناً اسی طریقے پر ہوئی ہوگی جو ان ترقی یافتہ ممالک میں مروج ہے ، تجہیز وتکفین کے کسی ادارے کو فون۔ اور بس۔۔۔۔۔
کتناہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں