پاکستانی بچے کا سوال اور اس کو جواب
کیا میں ان محفوظ لڑکوں سے زیادہ لائق نہیں ہوں۔...
Abdulqhasan@hotmail.com
پاکستان بڑی حد تک خیر و عافیت میں تھا جب وہ پیدا ہوا۔ آج اس کی عمر گیارہ سال ہے اور وہ وطن عزیز کی بہترین تاریخی درسگاہ کا طالب علم ہے۔ وہ جب میرے ہاں سیاستدانوں کی آمد کو دیکھتا ہے یا ان کی باتیں سنتا ہے تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ بابا ان سے کہیں کہ یہ میرے ملک کے امن و سکون کے ساتھ رہنے کا بندوبست کریں اور ہمیں اطمینان سے پڑھنے اور کھیلنے دیں۔ میرے گھوڑے کی ٹانگ زخمی ہو گئی تو اسکول والوں نے اسے گولی مار دی۔
میرا یہ پرانا دوست اور ساتھی آن واحد میں ختم کر دیا کیونکہ اب وہ بے کار ہو گیا تھا اور میرے ساتھ اس کی دوستی بے سود تھی لیکن میں اخباروں میں پڑھتا ہوں اور آپ سے سنتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کی ٹانگ کیا ان کا وجود ہی بے کار ہو گیا ہے لیکن پھر بھی وہ ہمارے حکمران ہیں اور ہمارے اسکول میں جب ان کے بچے آتے ہیں تو ان کے ہمراہ مسلح گارڈ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی جسمانی معذور کی اولاد ہیں مگر حکمران کی اولاد ہیں۔ ان کی حفاظت ضروری ہے۔ مجھے کسی تحفظ کی ضرورت نہیں۔ میں دوسروں کو تحفظ دینے والوں میں سے ہوں لیکن کیا میں ایک پاکستانی نہیں ہوں۔
کیا میں ان محفوظ لڑکوں سے زیادہ لائق نہیں ہوں۔ میں اپنے ملک کا کیوں ایک خاص بچہ نہیں ہوں جس کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ تفریق کیوں ہے اور ہماری زندگی اس اونچ نیچ کے عذاب سے کیوں گزر رہی ہے ہم ہر روز اپنے اسکول میں اس چھوٹے بڑے اور عام و خاص کا فرق کیوں دیکھتے ہیں۔ کیا ہم سب ایک ملک پاکستان کے بچے نہیں ہیں۔ میں نے پڑھا کہ امریکا میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو عین ممکن ہے وہ اس ملک کا صدر بن جائے۔
اوباما کسی بڑے خاندان کا بیٹا نہیں ہے مگر وہ امریکا کا صدر ہے لیکن میرے پاکستان میں یہ ممکن نہیں ہے۔ کسی بچے کو اونچے مرتبے پر پہنچنے کے لیے بہت کچھ چاہیے صرف اس کی قابلیت کافی نہیں ہے۔ اس کا دولت مند ہونا ضروری ہے اور اس کا کسی بااثر خاندان سے ہونا ضروری ہے۔ بابا آپ کے پاس سب کچھ تھا مگر آپ نے سیاست کی جگہ صحافت اختیار کر لی۔ آپ کو لوگ جانتے ہیں مگر میں آپ کے خالی خولی نام کا کیا کروں۔
مجھے تو آپ کا بھائی اپنا وہ بابا یاد آتا ہے جو ایک بار الیکشن لڑا تو اس نے اپنے حلقے میں یعنی وادی سون میں اپنے حریف امیدوار کا داخلہ ہی بند کر دیا۔ انتخابی تاریخ کی یہ مثال کتابی دانشوروں کے لیے کتنی ہی غلط سہی مگر ایک کامیاب مثال ہے۔ میں اپنے اس پوتے نوشیروان کو شیری کہتا ہوں جو میرے پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی اپنی اور سنی سنائی بات کرتا رہتا ہے اور صرف گیارہ برس کی عمر میں اپنے معصوم دل و دماغ میں یہ سب کچھ جمع کرتا رہتا ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو یہ باتیں زہر بن جائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ میں اسے ان باتوں کا کیا جواب دوں۔ باتیں اور خیالات اس کے ہیں الفاظ میرے ہیں جن سے وہ نالاں ہے کہ میرے اس بابا نے یہ بے کار پیشہ کیوں اختیار کیا۔ اپنے دوسرے کئی عزیزوں کی طرح ایک کامیاب زندگی گزارنے کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا۔ اس پاکستانی بچے کے سوال کا جواب ہمارے ان لیڈروں پر واجب ہے جو اس وقت اس اجڑے ہوئے ملک کا ملبہ اٹھانے کے لیے اس کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمع ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے اعلان کے مطابق وہ 14 اگست کو جو ہماری آزادی کا یاد گار دن ہو گا اپنے لاتعداد ساتھیوں کے ہمراہ اس دارالحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔
حکومت حاصل کرنے کے لیے جو طریقے ان دنوں جاری ہیں یعنی جمہوری طریقے ان میں سے کوئی بھی ان لیڈروں کی اس یلغار کو آئینی نہیں سمجھتا۔ 1947ء کے بعد جب آزادی ملی یعنی برطانوی سامراج نے اپنے اثرات کو یہیں چھوڑ کر ہمیں آزاد کر دیا تو ہم نے حکومت بذریعہ الیکشن کا طریق کار اختیار کیا جس میں ہم پاکستانی بری طرح ناکام رہے جب کہ ہمارے حریف ہندوستانی جمہوریت کو ہضم کر لینے میں کامیاب رہے۔ ہم نے جب الیکشن لڑا تو دھاندلی کی اور جب حکومت بنائی تو عوام دشمنی کی جس کی وجہ سے کوئی مضبوط حکومت قائم نہ ہو سکی تھی حکومتیں گئیں مگر نہ ہمالہ رویا نہ سندھ نے اس غم میں اپنا بہاؤ بدلا اگر کچھ باقی رہا تو اس ملک کے کھیت اور ان میں پسینہ بہانے والے کاشتکار جو کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اس پرانی موروثی حالت میں۔
میں نے شیری کو ایک بار بتایا کہ فصل تیار ہونے اور گھر لانے کا وقت آیا تو میرے گھر والوں نے میری تربیت کے لیے مجھے بھیجا کہ مزارعوں سے اپنے حصے کی فصل بانٹ کر لے آئوں۔ میں جب کھلیان پر پہنچا جہاں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور اس گندم کو اگانے اور یہاں تک اس کا ذخیرہ کرنے والے بھی میرے یا کسی میرے بزرگ کے انتظار میں تھے تو ان کے ایک سینئر نے مجھ لڑکے کو دیکھ کر ہمت کی اور دل کی بات زبان پر لانے پر مجبور ہو گیا کہ سال بھر محنت ہم کریں اور ہماری محنت میں سے حصہ لینے کے لیے وہ آ جائیں جن کا اس محنت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سچ بات میرے نوجوان دل میں بیٹھ گئی اور اس کے بعد میں پھر کبھی فصل بٹوانے نہیں گیا بلکہ اب تو میں کہتا ہوں کہ میرا حصہ خود ہی بانٹ کر میرے گھر بھجوا دیں۔
اب شیری کے والد نے بارانی زمین کے ٹکڑوں پر ٹیوب ویل لگا دیے ہیں اور زمین اب ٹھیکے پر جاتی ہے۔ فصل بانٹنے کا موقع ہی نہیں آتا مگر یہ سب تو وقت وقت کی بات ہے۔ ہمارا وطن عزیز تو مالکوں اور مزارعوں میں تقسیم ہے۔ ایک زمانے میں جب لاہور کے کسی جلسے میں باہر سے لوگ لائے جاتے تھے تو بڑے لیڈر کے جلسے کی رونق کے لیے زمیندار اپنے مزارعوں کو بسوں میں بھر کر بھجواتے تھے میں نے کئی بار دور دراز کے لوگوں کو لاہور کے جلسوں میں حیرت زدہ ہو کر لاہور دیکھتے ہوئے دیکھا۔ جنھیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ جلسہ کیا ہوتا ہے اور اس کی رونق کس طرح بڑھائی جاتی ہے لیکن وہ اس آزاد ملک کے مزارعے تھے ایک بے جان جنھیں کسی بس پر سوار کر دیا گیا تھا اور بس اس سے زیادہ وہ کچھ نہ تھے۔
اس مالک مزارع کی تفریق کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارا ملک خاکم بدہن ہمارے دشمن کی مرضی پر چل رہا ہے اور ع
میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا۔
والا مضمون ہے۔ تفصیلات تو بہت ہیں لیکن جو لیڈر اپنے زبردست الیکشن کے بعد پوری قوم کو یہ کہہ کر حیرت زدہ بلکہ پاگل کر دے کہ مجھے قوم نے یہ بھاری مینڈیٹ بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے دیا ہے پورا ملک حیران ہو گیا کہ الیکشن میں تو اس کا ذکر کجا اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں میرے پاس تفصیلات بہت ہیں اور پاکستانی قوم کو اب امریکا کی آمد کا، بھارت سے آنے والی دوستی بس کا انتظار کرنا چاہیے۔ ہمارے ایک ساتھی نے دعوے کے ساتھ کہا ہے کہ تمامتر احتجاج اور تحریک کے باوجود ہمارا حکمران نہ استعفیٰ دے گا نہ کوئی اور ایسی بات مانے گا جو اقتدار کے منافی ہو۔ فی الحال اسے ہی درست سمجھئے اور میں اپنے بچے کو یہی جواب دوں گا کہ خوب پڑھو اور بڑے ہو کر اپنے اور دوسروں کے مزارعے ختم کر دو اور اس ملک کو بچا لو تا کہ ہماری قبروں پر سبزہ اگتا رہے۔
میرا یہ پرانا دوست اور ساتھی آن واحد میں ختم کر دیا کیونکہ اب وہ بے کار ہو گیا تھا اور میرے ساتھ اس کی دوستی بے سود تھی لیکن میں اخباروں میں پڑھتا ہوں اور آپ سے سنتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کی ٹانگ کیا ان کا وجود ہی بے کار ہو گیا ہے لیکن پھر بھی وہ ہمارے حکمران ہیں اور ہمارے اسکول میں جب ان کے بچے آتے ہیں تو ان کے ہمراہ مسلح گارڈ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی جسمانی معذور کی اولاد ہیں مگر حکمران کی اولاد ہیں۔ ان کی حفاظت ضروری ہے۔ مجھے کسی تحفظ کی ضرورت نہیں۔ میں دوسروں کو تحفظ دینے والوں میں سے ہوں لیکن کیا میں ایک پاکستانی نہیں ہوں۔
کیا میں ان محفوظ لڑکوں سے زیادہ لائق نہیں ہوں۔ میں اپنے ملک کا کیوں ایک خاص بچہ نہیں ہوں جس کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ تفریق کیوں ہے اور ہماری زندگی اس اونچ نیچ کے عذاب سے کیوں گزر رہی ہے ہم ہر روز اپنے اسکول میں اس چھوٹے بڑے اور عام و خاص کا فرق کیوں دیکھتے ہیں۔ کیا ہم سب ایک ملک پاکستان کے بچے نہیں ہیں۔ میں نے پڑھا کہ امریکا میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو عین ممکن ہے وہ اس ملک کا صدر بن جائے۔
اوباما کسی بڑے خاندان کا بیٹا نہیں ہے مگر وہ امریکا کا صدر ہے لیکن میرے پاکستان میں یہ ممکن نہیں ہے۔ کسی بچے کو اونچے مرتبے پر پہنچنے کے لیے بہت کچھ چاہیے صرف اس کی قابلیت کافی نہیں ہے۔ اس کا دولت مند ہونا ضروری ہے اور اس کا کسی بااثر خاندان سے ہونا ضروری ہے۔ بابا آپ کے پاس سب کچھ تھا مگر آپ نے سیاست کی جگہ صحافت اختیار کر لی۔ آپ کو لوگ جانتے ہیں مگر میں آپ کے خالی خولی نام کا کیا کروں۔
مجھے تو آپ کا بھائی اپنا وہ بابا یاد آتا ہے جو ایک بار الیکشن لڑا تو اس نے اپنے حلقے میں یعنی وادی سون میں اپنے حریف امیدوار کا داخلہ ہی بند کر دیا۔ انتخابی تاریخ کی یہ مثال کتابی دانشوروں کے لیے کتنی ہی غلط سہی مگر ایک کامیاب مثال ہے۔ میں اپنے اس پوتے نوشیروان کو شیری کہتا ہوں جو میرے پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی اپنی اور سنی سنائی بات کرتا رہتا ہے اور صرف گیارہ برس کی عمر میں اپنے معصوم دل و دماغ میں یہ سب کچھ جمع کرتا رہتا ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو یہ باتیں زہر بن جائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ میں اسے ان باتوں کا کیا جواب دوں۔ باتیں اور خیالات اس کے ہیں الفاظ میرے ہیں جن سے وہ نالاں ہے کہ میرے اس بابا نے یہ بے کار پیشہ کیوں اختیار کیا۔ اپنے دوسرے کئی عزیزوں کی طرح ایک کامیاب زندگی گزارنے کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا۔ اس پاکستانی بچے کے سوال کا جواب ہمارے ان لیڈروں پر واجب ہے جو اس وقت اس اجڑے ہوئے ملک کا ملبہ اٹھانے کے لیے اس کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمع ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے اعلان کے مطابق وہ 14 اگست کو جو ہماری آزادی کا یاد گار دن ہو گا اپنے لاتعداد ساتھیوں کے ہمراہ اس دارالحکومت پر قبضہ کرلیں گے۔
حکومت حاصل کرنے کے لیے جو طریقے ان دنوں جاری ہیں یعنی جمہوری طریقے ان میں سے کوئی بھی ان لیڈروں کی اس یلغار کو آئینی نہیں سمجھتا۔ 1947ء کے بعد جب آزادی ملی یعنی برطانوی سامراج نے اپنے اثرات کو یہیں چھوڑ کر ہمیں آزاد کر دیا تو ہم نے حکومت بذریعہ الیکشن کا طریق کار اختیار کیا جس میں ہم پاکستانی بری طرح ناکام رہے جب کہ ہمارے حریف ہندوستانی جمہوریت کو ہضم کر لینے میں کامیاب رہے۔ ہم نے جب الیکشن لڑا تو دھاندلی کی اور جب حکومت بنائی تو عوام دشمنی کی جس کی وجہ سے کوئی مضبوط حکومت قائم نہ ہو سکی تھی حکومتیں گئیں مگر نہ ہمالہ رویا نہ سندھ نے اس غم میں اپنا بہاؤ بدلا اگر کچھ باقی رہا تو اس ملک کے کھیت اور ان میں پسینہ بہانے والے کاشتکار جو کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اس پرانی موروثی حالت میں۔
میں نے شیری کو ایک بار بتایا کہ فصل تیار ہونے اور گھر لانے کا وقت آیا تو میرے گھر والوں نے میری تربیت کے لیے مجھے بھیجا کہ مزارعوں سے اپنے حصے کی فصل بانٹ کر لے آئوں۔ میں جب کھلیان پر پہنچا جہاں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور اس گندم کو اگانے اور یہاں تک اس کا ذخیرہ کرنے والے بھی میرے یا کسی میرے بزرگ کے انتظار میں تھے تو ان کے ایک سینئر نے مجھ لڑکے کو دیکھ کر ہمت کی اور دل کی بات زبان پر لانے پر مجبور ہو گیا کہ سال بھر محنت ہم کریں اور ہماری محنت میں سے حصہ لینے کے لیے وہ آ جائیں جن کا اس محنت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سچ بات میرے نوجوان دل میں بیٹھ گئی اور اس کے بعد میں پھر کبھی فصل بٹوانے نہیں گیا بلکہ اب تو میں کہتا ہوں کہ میرا حصہ خود ہی بانٹ کر میرے گھر بھجوا دیں۔
اب شیری کے والد نے بارانی زمین کے ٹکڑوں پر ٹیوب ویل لگا دیے ہیں اور زمین اب ٹھیکے پر جاتی ہے۔ فصل بانٹنے کا موقع ہی نہیں آتا مگر یہ سب تو وقت وقت کی بات ہے۔ ہمارا وطن عزیز تو مالکوں اور مزارعوں میں تقسیم ہے۔ ایک زمانے میں جب لاہور کے کسی جلسے میں باہر سے لوگ لائے جاتے تھے تو بڑے لیڈر کے جلسے کی رونق کے لیے زمیندار اپنے مزارعوں کو بسوں میں بھر کر بھجواتے تھے میں نے کئی بار دور دراز کے لوگوں کو لاہور کے جلسوں میں حیرت زدہ ہو کر لاہور دیکھتے ہوئے دیکھا۔ جنھیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ جلسہ کیا ہوتا ہے اور اس کی رونق کس طرح بڑھائی جاتی ہے لیکن وہ اس آزاد ملک کے مزارعے تھے ایک بے جان جنھیں کسی بس پر سوار کر دیا گیا تھا اور بس اس سے زیادہ وہ کچھ نہ تھے۔
اس مالک مزارع کی تفریق کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارا ملک خاکم بدہن ہمارے دشمن کی مرضی پر چل رہا ہے اور ع
میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا۔
والا مضمون ہے۔ تفصیلات تو بہت ہیں لیکن جو لیڈر اپنے زبردست الیکشن کے بعد پوری قوم کو یہ کہہ کر حیرت زدہ بلکہ پاگل کر دے کہ مجھے قوم نے یہ بھاری مینڈیٹ بھارت کے ساتھ دوستی کرنے کے لیے دیا ہے پورا ملک حیران ہو گیا کہ الیکشن میں تو اس کا ذکر کجا اس کی طرف اشارہ تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں میرے پاس تفصیلات بہت ہیں اور پاکستانی قوم کو اب امریکا کی آمد کا، بھارت سے آنے والی دوستی بس کا انتظار کرنا چاہیے۔ ہمارے ایک ساتھی نے دعوے کے ساتھ کہا ہے کہ تمامتر احتجاج اور تحریک کے باوجود ہمارا حکمران نہ استعفیٰ دے گا نہ کوئی اور ایسی بات مانے گا جو اقتدار کے منافی ہو۔ فی الحال اسے ہی درست سمجھئے اور میں اپنے بچے کو یہی جواب دوں گا کہ خوب پڑھو اور بڑے ہو کر اپنے اور دوسروں کے مزارعے ختم کر دو اور اس ملک کو بچا لو تا کہ ہماری قبروں پر سبزہ اگتا رہے۔