نواب میرعثمان علی خان کی علمی خدمات…

ایک بار جب میں نے نظام سے یہ کہا کہ جب میں لوگوں سے یہ کہتاہوں کہ یورا کزالیٹڈ ہائی نس ہندوستان میں سب سے زیادہ..

KARACHI:
26 جون 2014 روزنامہ ایکسپریس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کا انٹرویو شایع ہوا، جس میں انھوں نے نظام حیدر آباد دکن کو کم فہم لالچی اور کنجوس کہا ہے۔ اس طرح کے خیالات رکھنے والوں میں طلعت مسعود اکیلے نہیں ہیں۔ گزشتہ چالیس پچاس سال میں، جناب سبط حسن، دائود رہبر وغیرہ کو بھی نظام دکن نواب میر عثمان علی خاں کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کرتے دیکھا گیا ہے۔

نظام حیدر آباد کو انتقال کیے 47 سال ہوگئے ہیں، ان کی ریاست کو 1948 میں بھارتی حکومت نے بذریعہ فوجی طاقت ختم کیا تھا۔ نظام دکن میر عثمان علی خاں کو برصغیر کے لوگ بھولے نہیں ہیں۔ اچھے برے الفاظ میں اب بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ میں نے بہت سارے معتبر اور متوازن حضرات کے مضامین اور مقالے پڑھے ہیں۔ ان سب کی تحریروں کو بیان کرنے لگوںگا تو اخبار کا پورا صفحہ ناکافی ثابت ہوگا۔

نواب میر عثمان علی خاں کا ایک خطاب سلطان العلوم بھی تھا۔ مشہور دانشور جمیل جالبی نے سلطان العلوم کی یاد میں ہونیوالے جلسے میں فرمایا ''سلطان العلوم دنیا کے ایک امیر ترین انسان تھے لیکن انھوں نے اس دولت کے ایک حصے کو کارہائے خیر اور تعلیم و علم کے فروغ پر صرف کیا۔ برصغیر کے متعدد تعلیمی ادارے سلطان العلوم کی مالی اعانت کے رہین منت رہے۔''

مولانا ماہر القادری لکھتے ہیں ''میر عثمان علی خاں کی حیثیت نوابوں کی نہیں، بادشاہوں جیسی تھی۔ والیان ریاست ان کو ''سرکار'' اور حضورکہہ کر خطاب کرتے تھے۔ انھوں نے بہت قریب سے ہزمیجسٹی غازی (شاہ عراق) شریف علی والئی حجاز، شہنشاہ ایران اور شاہ افغانستان کو دیکھا تھا مگر جو شاہانہ رعب میر عثمان علی خاں کے چہرے سے نمایاں تھا وہ کہیں اور دیکھنے میں نہیں آیا۔ مرحوم کو اگر اچھا ماحول اور سازگار فضا ملتی تو وہ مسلمانوں کے جہاد کے کارناموں کو دہرا دیتے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ تقریر فرما رہے تھے نظام اس جلسے میں تشریف فرما تھے۔ مولانا نے کہا ''یہ میر عثمان علی خاں بادشاہ وقت ہیں مگر حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کے جوتے کا تسمہ کہیں مل جائے تو یہ اسے اپنے سر کا تاج بنا لیںگے۔'' اس پر میر عثمان علی خاں نے والہانہ انداز میں کہا ''بیشک مولانا بیشک۔''

ان کے دور میں عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی، عثمانیہ دواخانہ، ہائی کورٹ اور آصفیہ لائبریری کی خوبصورت عمارتیں بنیں۔ طب یونانی کو فروغ میسر آیا۔ عہد عثمانی نے حقیقت میں علم پروری، معارف نوازی میں غرناطہ اور بغداد کی یاد کو تازہ کردیا تھا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں:

کہیں سے پانچ ہزار روپے مل جاتے تو کالج کا پورا کنبہ اس طرح خوش ہوجاتا جتنا آج پانچ لاکھ ملنے پر بھی نہیں ہوتا۔ یاد آتا ہے حیدر آباد دکن سے کچی بارک (جامعہ علی گڑھ) کو پختہ (عثمانیہ ہوسٹل) بنانے کے لیے پچاس ساٹھ ہزار کا عطیہ موصول ہوا تھا۔ اس کی خوشی اس طرح منائی گئی کہ ایک دوسرے کو مبارک باد دی گئی تھی۔''

حیدرآباد کا اردو کی ترقی میں جو حصہ ہے خصوصاً اس دور میں اس کی وجہ سے اردو کو جو استحکام اور منزلت حاصل ہے اس میں اس کے عدیم المثال شہر یار کو بہت بڑا دخل ہے۔ خسرو دکن کے دوسرے اوصاف سے قطع نظر ہمارے نزدیک اعلیٰ حضرت کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ موصوف ''سلطان العلوم'' بھی ہیں۔ ''حضرات خود علی گڑھ کو علی گڑھ بنانے میں جو حصہ حیدرآباد کا رہا ہے وہ قوم اور ملک میں ہمیشہ فخر و مسرت کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔ علی گڑھ کی آبیاری جس عثمان ساگر سے ہوتی رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

یہ تمام تحریریں، خطبات رشید احمد صدیقی سے لی گئی ہیں۔ سر مرزا اسماعیل جو حیدرآباد دکن میں صدر اعظم رہے ہیں اپنی آپ بیتی میں فرماتے:


''ریاست میں نظام، نظم و نسق اور سیاسی امور میں مقتدر اعلیٰ تھے لیکن صرف نظری حیثیت سے۔ کیوں کہ نظم و نسق کی ذمے داری ان کی ایگزیکٹو کونسل پر تھی۔ اس کونسل میں وزیراعظم ہوتا تھا جس کا تقرر وہ وائسرائے کے مشورے اور منظوری سے کرتے تھے۔

ایک بار جب میں نے نظام سے یہ کہا کہ جب میں لوگوں سے یہ کہتاہوں کہ یورا کزالیٹڈ ہائی نس ہندوستان میں سب سے زیادہ دستوری حکمران ہیں تو لوگ میری بات پر یقین نہیں کرتے'' یہ سن کر وہ خوب ہنسے۔ نظام میں بہت سی خوبیاں ہیں اس کے ساتھ عجیب عادتیں بھی وہ بڑی سیدھی سادھی زندگی بسر کرتے ہیں۔ نمود و نمائش سے نفرت ہے۔ وہ نہایت سادھا انتہائی سستے کپڑے پہنتے ہیں۔ سادھا ترین غذا کھاتے ہیں اور وہ بھی بہت تھوڑی وہ ایک بہت پرانی موٹر استعمال کرتے تھے۔ جب یہ موٹر بالکل ٹوٹ پھوٹ گئی اور اس کی مرمت نا ممکن ہوگئی تو ان کو بہ مشکل دوسری نئی موٹر استعمال کرنے پر آمادہ کیا جاسکا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کو تین کروڑ روپے دیے۔ ان کے کردار کی خوبی ان کا تحمل ہے۔

آخر میں سر مرزا اسماعیل لکھتے ہیں''مشیت نے ان سے سخت اور بہت سخت سلوک کیا۔ انھوں نے کیا کچھ نہیں کھویا ہے۔'' خواجہ حسن نظامی کی سوانح میں ملا واحدی فرماتے ہیں حضور نظام خواجہ صاحب کو دو سو روپے ماہوار وظیفہ دیتے تھے۔ حضور نظام ایک مرتبہ خواجہ صاحب کے گھر بھی تشریف لائے، خواجہ صاحب کے کہنے پر متعدد صاحبزادگان درگاہ حضرت سلطان المشائخ کا وظیفہ مقرر کردیا تھا جس کی میزان غالباً تین سو روپے ماہوار تھی۔ ایک تیموری شہزادہ خواجہ صاحب کے پاس ملازم تھے۔ خواجہ صاحب خود معقول تنخواہ دیا کرتے تھے اور ریاست حیدرآباد سے 15روپے ماہوار الگ دلواتے تھے۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے میرے لیے درخواست بھیج دی۔ مجھے اس کا جب علم ہوا جب مہاراجہ کشن پرشاد کا تار آیا کہ واحدی صاحب کا وظیفہ منظور ہوگیا ہے۔ یہ وظیفہ پاکستان پہنچنے کے بعد بھی پہنچتا رہا۔ یہاں وظیفے کے روپے اشرفیاں بن کر کام آئے۔

صاحب طرز نثر نگار سید یوسف بخاری دہلوی کے والد سید حامد کو 15،16 سال سے تاحیات وظیفہ نظام سرکار کی جانب سے مل رہا تھا۔ سید حامد کے انتقال سے یہ وظیفہ بند ہوگیا۔ سید یوسف بخاری کی ملازمت بھی جاتی رہی تھی۔ وہ مالی طور پر پریشان تھے۔ اپنے والد مرحوم کا وظیفہ اپنے نام کروانے کے لیے حیدرآباد گئے، وہاں ان کو بصد مشکل مختلف مراحل طے کرنے کے بعد بالآخر تمام و کمال ان کے نام منظور ہوا۔ جسے وہ پاکستان بننے کے بعد 1949 تک پاکستان میں حیدر آباد دکن کے ایجنٹ جنرل کے دفتر سے وصول کرتے رہے۔

شاید اسی دن کے لیے میں نظام حیدر آباد دکن کے کارناموں کو جمع کرتا رہا کہ ان کے خلاف کوئی بات لکھے تو میں ان کو آئینہ دکھاسکوں۔

مجھے ماہ نامہ ''عصمت'' دہلی کے ایڈیٹر علامہ راشد الخیری کی تحریر یاد آتی ہے جب وہ حیدرآباد میں نواب میر عثمان علی خاں سے ملے تھے۔

27کی صبح سوا آٹھ بجے کنگ کوٹھی پہنچ گیا۔ صدر امین میرے غائبانہ کرم فرما تھے۔ فوراً ہی میرا کارڈ اعلیٰ حضرت دوام اقبالہ کی خدمت میں بھیج دیا اور باوجود یکہ بندگان عالی بے انتہا مصروف تھے اسی وقت مجھے باریاب ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ میں نے خسرو دکن کی سادھا زندگی کی بہت سی روایتیں سنی تھیں مگر یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ معمولی شیروانی اور کف پائی پہنے ہوئے جو مبارک صورت میرے سامنے ہے یہی کروڑہا انسانوں کا ملجا اور ماویٰ ہے۔ آدھے گھنٹے مجھے شرف باریابی بخشا اور جب چلنے لگا تو انتہائے کرم و لطف سے میری حاضری پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ یہ واقعہ مولانا راشد الخیری نے ''عصمت'' کے سالگرہ نمبر جولائی 1931 میں شایع فرمایا۔ (جاری ہے)
Load Next Story