ڈیوجینز، سکندر اور سورج (دوسرا اور آخری حصہ)

اس کرہ ارض کاخلیفۃ الارض یامالک یاوارث بنی نوع انسان ہیں

یہی بہت ہے کہ تم دیکھتے ہوساحل سے

 سفینہ ڈوب گیا ہے تو کوئی بات نہیں

یہی تمہارا سب سے بڑا احسان ہے کہ مجھ پر کوئی احسان نہ کرو، صرف سورج کے احسانوں کومت روکو۔ آج اگر دنیا کے حکمران اپنا منحوس سایہ دنیا سے ہٹا لیں تو سورج کی روشنی اس زمین کو انسان کے لیے پرامن و خوبصورت بنادے ۔ لیکن بتانے والی اصل بات یہ بھی نہیں بلکہ وہ ہے جو میں آگے بتانے والا ہوں ۔

بظاہراس بات کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں بنتا جو ہم نے ڈیوجینز اورسکندر کے سلسلے میں شروع کی تھی لیکن اس دنیا میں ایسی کوئی بات ہے ہی نہیں جس کاکسی اوربات سے تعلق نہ ہو۔

جو بھی کائنات کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے یا اس میں موجود ہے یا دوبارہ اس میں جائے گا ، اس کا دوسرے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرورہوتا ہے، چاہے وہ نظر آئے یا نہ آئے مثلاً بظاہرہمارے صوبے کے ایک معاون کا جناب امیر مقام سے کوئی تعلق نظر نہیںآتا ہے یا مشال یوسفزئی کا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے یا زرتاج گل سے یا عائشہ گلالئی سے یا بی بی بشریٰ بیگم سے کوئی ناطہ یا تعلق نہیں لگتا لیکن کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تعلق یا رابطہ ضرورنکل آئے گا، اگر کوشش کی جائے تو۔

 میرا تجھ سے ہے پہلے کاناطہ کوئی

 یونہی ایسے نہیں دل لبھاتا کوئی

 اب ڈیوجینز نے سکندر سے جو یہ کہا کہ دھوپ کے سامنے سے ہٹ جاؤ تو وہ دانا بینا آدمی تھا، اسے اندازہ تھا کہ یہ شخص جو مجھے دھوپ سے محروم کررہا ہے، آیندہ کس کس کو کس کس چیز سے محروم کرنے والا ہے ۔خیر تو جوبات ہم اب کرنے والے ہیں، اس کاتعلق بھی سورج سے ہے اورجب سورج سے ہے تو پھر سکندروں سے بھی ہے اورڈیو جانزوں کودھوپ سے محروم کرنے والوں سے بھی ہے۔

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

 یہ تو ہم کہہ چکے ہیں کہ اس کرہ ارض کا سب کچھ سورج ہے،آگے سورج کا سب کچھ کس سے ہے ؟ یہ الگ بات ہے اوراس سب کچھ میں وہ سب کچھ ہے جو انسانوں، حیوانوں اورمخلوقات کے لیے ضروری ہے اور ان کاحق ہے ، حصہ ہے، ملکیت ہے اور ان کو ملنا چاہیے۔

اس کرہ ارض کاخلیفۃ الارض یامالک یاوارث بنی نوع انسان ہیں جو اس پر پیدا ہوئے ہیں، لیکن ان میں ’’کچھ ‘‘ نے زورزبردستی چالاکی وعیاری یا کسی بھی ہتھکنڈے سے کام لے کر ’’ملکیت ‘‘ کا ایک ظالمانہ نظام مروج کیا ہوا ہے یاخود کو ابلیسی برتری کامدعی بنا لیا ہے چنانچہ انھوں نے خود ساختہ نظریات، قوانین اوردساتیر کے ذریعے بہت کچھ کو اپنی ملکیت بنایا ہوا ہے اورمختلف حربے استعمال کرکے اپنے حصے سے زیادہ ہڑپ رہے ہیں۔

لیکن باوجود انسانوں کے ایک طبقے کے استحصال ، قبضہ گیری اورچھین جھپٹ کے، ابھی بہت کچھ ایسا باقی ہے جو مشترک یا مشترکہ ہے کیوں کہ ان پر قبضہ ممکن ہی نہیں ہے۔ انھی میں ایک سورج بھی ہے، پھر پانی ہے، ہوا ہے، موسم ہیں، پہاڑ ہیں، دریا اورسمندر ، راستے ہیں، منڈیاں ہیں، بازارہیں۔

مطلب یہ کہ وہ تمام مقامات اورچیزیں جن سے کچھ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اورکچھ نہیں ۔ ایک بے گھر ، بے در آدمی جس کی زندگی کاانحصار صرف ہاتھوں، پیروں کی محنت پر ہو، نہ جائیداد نہ کاروبار نہ گھوڑا نہ گاڑی۔

وہ ان مشترکہ چیزوں سے کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھا سکتا لیکن اس کاحق تو ان چیزوں میں ہے جس سے سرمایہ دار ،زمیندار، کارخانہ دار اورمالدار لوگ بے پناہ فوائد حاصل کرتے ہیں ۔

جیسے ایک شخص کاکسی جائیداد میں حصہ تو ہو لیکن وہ نہ اسے الگ کرسکتا ہے نہ اس میں کاشت وبرداشت کی استطاعت رکھتا ہے ، تو جو کوئی اس کھیت کو بوئے گا، کھیت کے مالک یاحصہ دار کو اس کاحصہ ضرور دیتا ہے اوردینا چاہیے ۔

دنیا میں بہت سارے قوانین اوردساتیر بنے ، بہت سارے فلسفے اورنظریے وضع ہوئے لیکن اس مسئلے کاحل کسی نے پیش نہیں کیا کہ آخر اس غیر تقسیم شدہ چیزوں میں عام غریبوں کاحصہ ان کو دیا جانا چاہیے یا نہیں ، صرف اسلام نے اس مسئلے کاحل پیش کیاہے اوراسے اپنے پانچ بنیادی اصولوں میں شامل کیا ہے۔

ان پانچ اصولوں کو فرائض کہا جاتا ہے اوران پر عمل پیرا نہ ہونے والا مسلمان ہی نہیں ہوسکتا اوراس اصول اورفرض کا نام زکواۃ ہے ، بہت سے لوگ زکواۃ کو بھی خیر خیرات یاصدقات جیسا ایک کارثواب سمجھتے ہیں بلکہ اسے ایک احسان سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، باقی خیر خیرات اختیاری ہوتے ہیں، جو چاہے دے جو چاہے نہ دے ۔

دینے والے کے لیے ثواب ہے لیکن نہ دینے والے پر کوئی گرفت نہیں اور نہ ہی اس کاکوئی پیمانہ ہے ، جتنا جس کا جی چاہے دے یا نہ دے لیکن زکوۃ نہ کوئی خیرات ہے نہ احسان بلکہ ’’حق‘‘ ہے، اسی لیے تو پانچ فرائض میں شامل ہے اوراس کی باقاعدہ شرح ہے ، حساب ہے اوریہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ کس کاحصہ ہے اورکس کو دینا ہے ۔

لیکن یہاں پھر سکندر آکرسورج اورڈیوجینز کے درمیان کھڑا ہوجاتا ہے اورانتہائی بے حسی اور بے رحمانہ طریقے سے زکواۃ بھی سکندروں کی تحویل میں دے دی جاتی ہے ۔ کیاکمال کاکمال ہے کہ کھیت تو ایک غریب مسکین کا ہے اورحصہ طاقتور کو دیا جائے اورپھر اس کی تقسیم بھی وہی کرے؟

 سکندر کاکام ہی یہی ہے کہ ڈیوجینز اور سورج کے درمیان حائل رہے گا ۔ورنہ اسلام میں یہ ’’زکوٰۃ ‘‘ کانظام اتنا زبردست معاشی اوراقتصادی معجزہ ہے کہ اگر اس پر صحیح صحیح عمل کیا جائے تو ایک بہترین اورہموار معاشرہ قائم ہوسکتا ہے جس میں نہ تو کوئی قارون ہوگا اورنہ ہی دووقت کے نان ونفقہ کامحتاج۔

لیکن سکندروں کو دھوپ کے سامنے سے کون ہٹائے، اب جو یہ سولر انرجی کاسلسلہ ہے تو سکندر سورج پرقبضہ تو نہیں کرسکتے لیکن ڈیوجینز اوراس کے درمیان کھڑے ہوسکتے ہیں اورکھڑ ہورہے ہیں بلکہ ہوچکے ہیں ۔

Load Next Story