غزہ ، صدر ٹرمپ پلان
29ستمبر2025 کی شام امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے درمیان ایک ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
اس پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انھوں نے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ روکنے کے لیے ایک پلان تجویز کیا ہے جس پر اسرائیل کے وزیرِ اعظم نے بھی ہاں کر دی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ ایک بیس نکاتی فارمولا ہے جسے اسلامی اور عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر حماس اس پلان پر راضی ہو جاتا ہے تو یہ جنگ بہت جلد بند ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ اس جنگ میں دو فریق آپس میں متحارب تھے یعنی اسرائیل اور حماس۔صدر ٹرمپ نے اس مجوزہ پلان کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے کے بجائے مسلمان اور عرب ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے اور ان کو اپنے پلان پر رضا مند کرنے کے بعد وزیرِ اعظم اسرائیل سے ملاقات کی۔چونکہ اسرائیل کی اکثر شرائط اس پلان کا حصہ ہیں اس لیے اسرائیل نے بخوشی اس پر رضامندی ظاہر کر دی۔
اسرائیل بنیادی طور پر یہ چاہتا ہے کہ حماس تنظیم کا مکمل خاتمہ ہو۔ اس پلان کے ذریعے یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔جنگ کے دوسرے فریق حماس کو صدر ٹرمپ نے ان مذاکرات سے دور رکھا اور حماس کی رضامندی کی ذمے داری مسلمان اور عرب ملکوں کے سپرد کر دی گئی۔مسلمان اورعرب ممالک نے عندیہ دیا ہے کہ یہ ان کا منظور کردہ پلان نہیں۔بظاہر اس پلان سے فلسطین میں دو ریاستی حل ایک خواب بن جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے پلان پر بات کے لیے آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ فلسطینیوں اور عربوں نے اس معاملے میں اپنے ساتھ جو کیا اس کا ایک مختصر جائزہ لیا جائے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔
ایک وقت تھا کہ سارا جزیرۃالعرب اور فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔سلطنتِ عثمانیہ گو ایک عرب سلطنت نہیں تھی لیکن وہ ایک ایسی مسلمان سلطنت تھی جس کی رہبر قوم یعنی ترک بہت اچھی مسلمان قوم تھی۔عثمانی سلطان حجازِ مقدس اور القدس الشریف یروشلم سے محبت کی حد تک عقیدت رکھتے تھے۔
سلطنتِ عثمانیہ میں عربوں کو بہت عزت حاصل تھی لیکن عربوں اور فلسطینیوں کی بغاوت کے نتیجے میں ترکوں کی عرب اور فلسطین سے عملداری تو ختم ہو گئی لیکن فلسطین پر مغربی استعمار کا قبضہ ہو گیا ۔پہلی جنگِِ عظیم کے دوران برطانیہ اور فرانس نے طے کیا کہ جنگ کے خاتمے پر سلطنتِ عثمانیہ کے جو علاقے ان کے قبضے میں آئیں گے وہ آپس میں تقسیم کر لیں گے۔
1916میں ایک معاہدے کے مطابق فلسطین کو برطانیہ ، لبنان اور شام کو فرانس جب کہ یروشلم کو اتحادی انتظامیہ کے ماتحت کر دیا گیا۔1916میں ہی شریف حسین آف مکہ نے برطانیہ کی مدد سے ترک حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔
1917میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودی قومی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا۔اس اعلامئے کے لیے ڈاکٹر وائزمین نے کام کیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر ایک بظاہر امن کانفرنس پیرس فرانس میں منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس میں سلطنتِ عثمانیہ کے بیشتر حصے فاتح اقوام نے آپس میں بانٹ لیے۔اس میں برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ اسے فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا مینڈیٹ دیا جائے۔1920میں برطانیہ کو یہ مینڈیٹ مل گیا اور ایک جیوش ایجنسی فار فلسطین قائم ہو گئی۔
آگے چل کر یہی جیوش ایجنسی یہودیوں کی ڈی فیکٹو حکومت کے طور پر کام کرنے لگی۔اس مینڈیٹ میں یہودیوں کو صیہونی تحریک کی اپنی ڈیمانڈ سے بڑھ کر علاقے دے دئے گئے۔
1922میں برطانیہ نے سعودی عرب کی شدید ناراضگی کو دیکھتے ہوئے اعلان کیا کہ فلسطین کی سرحد دریائے اردن کے مغربی کنارے تک ہو گی۔ 1930کے عشرے میں پورے یورپ سے یہودیوں نے فلسطین کی طرف نقل مکانی کی۔
فلسطینیوں نے باہر سے آنے والے یہودیوں کی بہت خدمت کی اور اپنی زمینیں ان کے ہاتھ بیچیں۔ایسے میں یہودیوں نے اپنی زیرِ زمین فوجی تنظیم قائم کی اور اسے خوب مضبوط کیا، یہودی خفیہ ایجنٹوں کو فلسطینیوں نے پناہ دی۔
اس خفیہ عسکری تنظیم کے سربراہ منہم بیگن تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنے۔1930میں ایک کمیشن قائم ہوا جسے Peel Commissionکا نام دیا گیا۔اس کمیشن نے آبادی کے تناسب سے ایک چھوٹی یہودی ریاست اور ایک نسبتاً بڑی فلسطینی ریاست کی سفارش کی۔
سعودی عرب نے اس تقسیم اور سفارش کو رد کر دیا جس کی وجہ سے یہ کمیشن ناکام ہو گیا۔اس کے بعد اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے فلسطین نے سفارش کی کہ فلسطین کو دو ریاستوں یعنی فلسطینی اور یہودی ریاست میں تقسیم کر دیا جائے۔
یہ سفارش بھی کی گئی کہ یروشلم کو بین الاقوامی اتھارٹی کے ماتحت کر دیا جائے۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ پلان 29 نومبر1947کو منظور کیا جسے یہودیوں نے منظور اور عربوں نے نا منظور کر دیا۔اس بیک گراؤنڈ جائزے کو پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دو ریاستی حل ملتا رہا مگر عرب اسے نامنظور کرتے رہے اور آج وہی حل ایک خواب بن چکا ہے۔
امریکی صدر جناب ٹرمپ کا مجوزہ پلان ایک حکمنامے کی حیثیت رکھتا ہے،اس کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نے ترتیب دیا اور صدر ٹرمپ نے اسے نافذ ہونے کے لیے جاری کر دیا ۔عرب ممالک جو اس سے پہلے ہر دو ریاستی حل کو مسترد کرتے آئے ہیں،اب اس کے حامی ہیں۔
عربوں کے پاس کوئی آپشن نہیں۔دراصل پچھلی چھ سات دہائیوں میں امریکا اتنی غالب قوت بن چکا ہے کہ اس کے پلان کے خلاف جانے کا عرب سوچ بھی نہیں سکتے۔
اسرائیل امریکا پر چھایا ہوا ہے اور کوئی بھی امریکی حکومت اسرائیلی مفادات کے خلاف نہیں جا سکتی۔ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں اگر اس مجوزہ پلان کا جائزہ لیا جائے تو یہ فقط اسرائیلی بالا دستی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
یہ اسرائیل کے عسکری و سیاسی اثر و رسوخ کی تنظیم ِ نو کا فارمولا ہے۔اس کے صرف آخری دو پیراگراف فلسطینی ریاست کی طرف ایک موہوم سا اشارہ کرتے ہیں۔یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے فلسطینیوں کو نہتا کر کے مارا جائے گا۔ اسرائیلی افواج کسی نہ کسی بہانے غزہ پر قابض رہیں گی۔