فیصل آباد کی گلیوں میں گھومنے والے موٹر میکینک نے ملک کا نام روشن کردیا
سلور میڈل حاصل کرنے والے قومی ہیرو قمر عباس کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
سلور میڈل حاصل کرنے والے قومی ہیرو قمر عباس کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: اسد اللہ
LIBYA:
دولت مشترکہ کے کھیلوں میں فیصل آباد کے علاقہ منصورآباد کی گلیوں میں گھومنے والے 20 سالہ نوجوان قمر عباس نے سکاٹ لینڈ(برطانیہ) کے شہر گلاسگو میں ہونے والی دولت مشترکہ کی کھیلوں میں ریسلنگ کیٹیگری 75 کلوگرام کے مقابلوں میں پاکستان کیلئے سلورمیڈل جیتا جو ملک کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے۔
قمرعباس
میر ی تعلیم انڈرمیٹرک ہے۔ اور میں اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہوں،میرے خاندان کا فن پہلوانی سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم میرے والد مرحوم محمد یوسف نے ہم بھائیوں کو پہلوان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں بہت چھوٹا تھا جب میرے والد اللہ کو پیارے ہوگئے تھے لیکن میری والدہ نے میرے مرحوم والد کے شوق کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے بچوں میں فن پہلوانی کا جذبہ پروان چڑھایا۔ وسائل کی کمی کے سبب ہم سب بھائی اپنی تعلیم تو جاری نہ رکھ سکے لیکن ہم پانچوں بھائی ریسلربن گئے۔ میرے بڑے بھائی محسن عباس بھی انٹرنیشنل ریسلر ہیں۔وہ انڈوپاک مقابلوںمیں 60 کلو گرام کیٹیگری کے ریسلنگ مقابلوں میں دوسری پوزیشن پر رہے تھے۔باقی بھائی بھی ڈسٹرکٹ اور ڈویژن مقابلوں میں چیمپیئن اورپنجاب میں رنراپ رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں پہلوانوں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ہمارے پہلوانوں نے آج تک جتنے بھی میڈل جیتے ہیں وہ انہوں نے اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پرجیتے ہیں، حکومت نے آج تک کوئی امداد نہیں کی ۔دولت مشترکہ کی کھیلوں سے واپسی کے بعد ابھی تک حکومت نے کوئی اعزاز یا ایوارڈ دینا تو کجا مبارکباد تک دینا گوارا نہیں کیا۔ ڈی سی او نورالامین مینگل کھیلوں کے فروغ کیلئے کافی کوششیں کررہے ہیں لیکن انہوں نے بھی مبارکباد تک نہیں دی۔
مجھے حکومت کی سردمہری پر سخت افسوس ہے۔ جب بھی میاں برادران حکومت میں آتے ہیں تو پہلوانی کے حوالے سے ان کے خاندانی شوق کو دیکھتے ہوئے امید ہوتی ہے کہ وہ پہلوانوں کی فلاح وبہبود اور فن پہلوانی کی حوصلہ افزائی کرینگے۔ لیکن اب تک تو ہربار مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ میں گاڑیوں کی ورکشاپ پر ایک میکینک کے طور پر کام کرتا تھا۔ دوسرے بھائی بھی اسی طرح محنت مزدوری کرکے روزگار کما رہے ہیں۔محنت مزدوری سے فراغت کے بعد جو وقت بچتا ہے وہ فن پہلوانی کا شوق پورا کرکے گزارتے ہیں۔
اگر حکومت سہولیات فراہم کرے تو پاکستانی پہلوانوں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔عالمی سطح پر فن پہلوانی میں جدید تکنیک استعمال کی جارہی ہے جبکہ ہمارے ہاں حکومتی دلچسپی اورجدید تکنیک سے واقف کوچ نہ ہونے کے باعث فن پہلوانی زوال کا شکارہے۔حکومت کو چاہیے کہ پہلوانی کے فروغ کیلئے جدید تکنیک سے واقف تنخواہ دار کوچز مقررکرے۔ ہر شہر میں ریسلنگ ہال بنائے جائیں جن میں عالمی معیار کے میٹ بچھائے جائیں جن پر پہلوان اپنی ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ہمارے ہاں لوگ ابھی تک اپنی مدد آپ کے تحت روایتی اکھاڑے بناتے ہیں اور ان پر کسرت کرتے ہیں۔عالمی مقابلوں میں ماحول اس سے مختلف ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے ہمارے پہلوانوں کو ریسلنگ میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
جدید تکنیک سے عدم واقفیت کی بناپر پہلوان مقابلوں کے دوران پوائنٹس کھو دیتے ہیں۔ جس سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ فیصل آباد میں بہت سے اکھاڑے گرین بیلٹس میں آنے کی وجہ سے ختم ہوگئے ہیں انہیں بحال کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی جدید اکھاڑے بھی بنائے جائیں جہاں نوجوان لڑکے عالمی معیارکے مطابق ٹریننگ حاصل کرسکیں ۔کا من ویلتھ گیمز میں جانے سے قبل مجھے آخری لمحات تک ان کھیلوں میں حصہ لینے کا علم تک نہیں تھا۔اسلام آباد میں ڈیڑھ ماہ کا کیمپ لگایا گیا۔ جس میں ایک ماہ رمضان المبارک کا تھا، ہم دن کو روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے ،دعائیں کرتے اور رات کو پریکٹس کرتے تھے۔
23 لڑکوں پر مشتمل اس کیمپ میں سے سات کو منتخب کیا جانا تھا جن میں میری بھی سلیکشن ہوگئی۔میں کامن ویلتھ گیمز میں بھارتی ریسلر سوشیل کمار سے پوائنٹس کی بنیاد پر ہارا ہوں۔ سوشیل کمار اب تک کئی عالمی مقابلوں میں ناقابل شکست چلا آرہا ہے۔مجھے مقابلے کے دوران امید تھی کہ میں اسے شکست دے کر پاکستان کیلئے گولڈمیڈل جیت لوں گا لیکن میری جدید تکنیک سے عدم واقفیت نے مجھے اس اعزاز سے محروم کردیا جس کا مجھے ساری عمر دکھ رہے گا۔ اگر میری تربیت عالمی معیار کے مطابق کی جاتی تو یہ مقابلہ جیتنا میرے لیے مشکل نہ ہوتا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں پہلے تیاری نہیں کروائی جاتی اور جب مقابلے سر پر آن کھڑے ہوتے ہیں توہمیں کیمپوں میں بلالیا جاتا ہے جس کیلئے بہت کم وقت ہوتا ہے اور ٹھیک طریقے سے ٹریننگ نہیں ہوتی۔
حکومت کو چاہیے کہ فن پہلوانی کو فروغ دینے کیلئے ملک کے اندر مقابلوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی دورے بھی کروائے جائیں تاکہ عالمی معیار کے ریسلر تیار ہوسکیں۔ ملک میں دیسی کشتی کے بڑے بڑے دنگل بھی کروائے جائیں تاکہ تمام شہروں میں نرسری تیار ہوسکے۔جہاں تک میری خوراک کا تعلق ہے تو مہنگائی کے اس دور میں کوئی بھی پاکستانی ریسلر اپنی مناسب خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتا۔ فن پہلوانی سے وابستہ پہلوانوں کی اکثریت مڈل یا غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان اس کھیل میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔بھارت نے کامن ویلتھ گیمز میں ریسلنگ کے میدان میں تین گولڈ ،دو سلور دوبرانز میڈل جیتے ہیں ۔
بھارتی حکومت نے گولڈمیڈلسٹ کیلئے ایک کروڑ روپے بمع ماروتی کار، سلورمیڈلسٹ کیلئے 75 لاکھ روپے بمع ماروتی کار، برانز میڈلسٹ اورچوتھی پوزیشن ہولڈرکیلئے بھی 50/50 لاکھ روپے بمع ماروتی کارز دینے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک کسی ملکی، صوبائی یا مقامی شخصیت تودورکی بات ہے، کھیلوں سے وابستہ افیسرز کی طرف سے بھی مبارکباد تک کا پیغام موصول نہیں ہوااورنہ ہی کسی نے ہمارے استقبال کیلئے آنا گوارا کیا ہے۔ میرے اپنے عزیزواقارب اورایسوسی ایشن کے عہدیداران نے اپنی مدد آپ کے تحت میرا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ مجھے اس حکومتی رویئے سے دلی دکھ ہوا ہے۔
جہاں تک مستقبل کے پروگرامز کا تعلق ہے تو میری خواہش ہے کہ ستمبر میں کوریا میں ہونے والی ایشین گیمز میں حصہ لوں اور ملک کیلئے گولڈمیڈل حاصل کروں ۔اس کیلئے ابھی سے محنت کررہا ہوں۔ گلاسکو میں میرے علاوہ دیگر پہلوانوں نے بھی بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا خصوصاً گوجرانوالا کے رہائشی محمد انعام بٹ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، انہوں نے 84 کلوگرام کیٹیگری میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن بدقسمتی سے وہ پانچویں پوزیشن ہی حاصل کرسکے۔ بھارتی حکومت کی مہربانی سے اب ہمارے ملک بھی کبڈی کا کھیل فروغ پا رہا ہے۔ لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے، اسی طرح فن پہلوانی کے مقابلے کروا کربھی اسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔
کوچ محمد انور اولمپین
میں خود ایک پہلوان ہوں اور چالیس سال سے فن پہلوانی کی خدمت کررہا ہوں۔اب تک میرے شاگرد ملک کیلئے 30 سے 35 میڈل جیت کرلاچکے ہیں جبکہ میں نے خود سیف گیمز میں گولڈ میڈل، سلورمیڈل، برانزمیڈل، ایشین گیمز میں دوبرانزمیڈل اور ایران میں ہونے والے مقابلوںمیں سلورمیڈل حاصل کیے تھے۔ میں نیشنل گیمز کا 10 بار چیمپیئن رہ چکا ہوں۔اب نوجوانوں کو فن پہلوانی کی تربیت دے رہا ہوں۔
عالمی معیار کے مطابق پہلوانوں کی تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارے پہلوان عالمی مقابلوں میں پوائنٹس کی بنیاد پر شکست کھا جاتے ہیں جس کیلئے حکومت سے کئی بار درخواست کرچکے ہیں کہ فن پہلوانی کو عالمی معیارکے مطابق فروغ دینے کیلئے وسائل بڑھائے جائیں۔ لیکن ابھی تک دیگرکھیلوں کے مقابلے میں ریسلنگ کا بجٹ اتنا کم ہے کہ یہ مختلف قسم کی فیسوں میں ہی ختم ہوجاتا ہے، پہلوانوں کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے ہمیں آپس میں اختلافات کو ختم کردینا چاہے۔ آپس میں اختلافات کی وجہ سے ہمارے ملک میں کھیلوں کا بیڑا غرق ہوکر رہ گیا ہے۔میری یہ اپیل ہے کہ کہ ہم باہمی لڑائی ختم کرکے ملک میں کھیلوں کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
دولت مشترکہ کے کھیلوں میں فیصل آباد کے علاقہ منصورآباد کی گلیوں میں گھومنے والے 20 سالہ نوجوان قمر عباس نے سکاٹ لینڈ(برطانیہ) کے شہر گلاسگو میں ہونے والی دولت مشترکہ کی کھیلوں میں ریسلنگ کیٹیگری 75 کلوگرام کے مقابلوں میں پاکستان کیلئے سلورمیڈل جیتا جو ملک کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے۔
قمرعباس
میر ی تعلیم انڈرمیٹرک ہے۔ اور میں اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہوں،میرے خاندان کا فن پہلوانی سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم میرے والد مرحوم محمد یوسف نے ہم بھائیوں کو پہلوان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
میں بہت چھوٹا تھا جب میرے والد اللہ کو پیارے ہوگئے تھے لیکن میری والدہ نے میرے مرحوم والد کے شوق کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے بچوں میں فن پہلوانی کا جذبہ پروان چڑھایا۔ وسائل کی کمی کے سبب ہم سب بھائی اپنی تعلیم تو جاری نہ رکھ سکے لیکن ہم پانچوں بھائی ریسلربن گئے۔ میرے بڑے بھائی محسن عباس بھی انٹرنیشنل ریسلر ہیں۔وہ انڈوپاک مقابلوںمیں 60 کلو گرام کیٹیگری کے ریسلنگ مقابلوں میں دوسری پوزیشن پر رہے تھے۔باقی بھائی بھی ڈسٹرکٹ اور ڈویژن مقابلوں میں چیمپیئن اورپنجاب میں رنراپ رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں پہلوانوں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ہمارے پہلوانوں نے آج تک جتنے بھی میڈل جیتے ہیں وہ انہوں نے اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پرجیتے ہیں، حکومت نے آج تک کوئی امداد نہیں کی ۔دولت مشترکہ کی کھیلوں سے واپسی کے بعد ابھی تک حکومت نے کوئی اعزاز یا ایوارڈ دینا تو کجا مبارکباد تک دینا گوارا نہیں کیا۔ ڈی سی او نورالامین مینگل کھیلوں کے فروغ کیلئے کافی کوششیں کررہے ہیں لیکن انہوں نے بھی مبارکباد تک نہیں دی۔
مجھے حکومت کی سردمہری پر سخت افسوس ہے۔ جب بھی میاں برادران حکومت میں آتے ہیں تو پہلوانی کے حوالے سے ان کے خاندانی شوق کو دیکھتے ہوئے امید ہوتی ہے کہ وہ پہلوانوں کی فلاح وبہبود اور فن پہلوانی کی حوصلہ افزائی کرینگے۔ لیکن اب تک تو ہربار مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ میں گاڑیوں کی ورکشاپ پر ایک میکینک کے طور پر کام کرتا تھا۔ دوسرے بھائی بھی اسی طرح محنت مزدوری کرکے روزگار کما رہے ہیں۔محنت مزدوری سے فراغت کے بعد جو وقت بچتا ہے وہ فن پہلوانی کا شوق پورا کرکے گزارتے ہیں۔
اگر حکومت سہولیات فراہم کرے تو پاکستانی پہلوانوں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔عالمی سطح پر فن پہلوانی میں جدید تکنیک استعمال کی جارہی ہے جبکہ ہمارے ہاں حکومتی دلچسپی اورجدید تکنیک سے واقف کوچ نہ ہونے کے باعث فن پہلوانی زوال کا شکارہے۔حکومت کو چاہیے کہ پہلوانی کے فروغ کیلئے جدید تکنیک سے واقف تنخواہ دار کوچز مقررکرے۔ ہر شہر میں ریسلنگ ہال بنائے جائیں جن میں عالمی معیار کے میٹ بچھائے جائیں جن پر پہلوان اپنی ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ہمارے ہاں لوگ ابھی تک اپنی مدد آپ کے تحت روایتی اکھاڑے بناتے ہیں اور ان پر کسرت کرتے ہیں۔عالمی مقابلوں میں ماحول اس سے مختلف ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے ہمارے پہلوانوں کو ریسلنگ میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
جدید تکنیک سے عدم واقفیت کی بناپر پہلوان مقابلوں کے دوران پوائنٹس کھو دیتے ہیں۔ جس سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ فیصل آباد میں بہت سے اکھاڑے گرین بیلٹس میں آنے کی وجہ سے ختم ہوگئے ہیں انہیں بحال کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی جدید اکھاڑے بھی بنائے جائیں جہاں نوجوان لڑکے عالمی معیارکے مطابق ٹریننگ حاصل کرسکیں ۔کا من ویلتھ گیمز میں جانے سے قبل مجھے آخری لمحات تک ان کھیلوں میں حصہ لینے کا علم تک نہیں تھا۔اسلام آباد میں ڈیڑھ ماہ کا کیمپ لگایا گیا۔ جس میں ایک ماہ رمضان المبارک کا تھا، ہم دن کو روزے رکھتے، نمازیں پڑھتے ،دعائیں کرتے اور رات کو پریکٹس کرتے تھے۔
23 لڑکوں پر مشتمل اس کیمپ میں سے سات کو منتخب کیا جانا تھا جن میں میری بھی سلیکشن ہوگئی۔میں کامن ویلتھ گیمز میں بھارتی ریسلر سوشیل کمار سے پوائنٹس کی بنیاد پر ہارا ہوں۔ سوشیل کمار اب تک کئی عالمی مقابلوں میں ناقابل شکست چلا آرہا ہے۔مجھے مقابلے کے دوران امید تھی کہ میں اسے شکست دے کر پاکستان کیلئے گولڈمیڈل جیت لوں گا لیکن میری جدید تکنیک سے عدم واقفیت نے مجھے اس اعزاز سے محروم کردیا جس کا مجھے ساری عمر دکھ رہے گا۔ اگر میری تربیت عالمی معیار کے مطابق کی جاتی تو یہ مقابلہ جیتنا میرے لیے مشکل نہ ہوتا۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں پہلے تیاری نہیں کروائی جاتی اور جب مقابلے سر پر آن کھڑے ہوتے ہیں توہمیں کیمپوں میں بلالیا جاتا ہے جس کیلئے بہت کم وقت ہوتا ہے اور ٹھیک طریقے سے ٹریننگ نہیں ہوتی۔
حکومت کو چاہیے کہ فن پہلوانی کو فروغ دینے کیلئے ملک کے اندر مقابلوں کے ساتھ ساتھ غیرملکی دورے بھی کروائے جائیں تاکہ عالمی معیار کے ریسلر تیار ہوسکیں۔ ملک میں دیسی کشتی کے بڑے بڑے دنگل بھی کروائے جائیں تاکہ تمام شہروں میں نرسری تیار ہوسکے۔جہاں تک میری خوراک کا تعلق ہے تو مہنگائی کے اس دور میں کوئی بھی پاکستانی ریسلر اپنی مناسب خوراک کا بندوبست نہیں کرسکتا۔ فن پہلوانی سے وابستہ پہلوانوں کی اکثریت مڈل یا غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان اس کھیل میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔بھارت نے کامن ویلتھ گیمز میں ریسلنگ کے میدان میں تین گولڈ ،دو سلور دوبرانز میڈل جیتے ہیں ۔
بھارتی حکومت نے گولڈمیڈلسٹ کیلئے ایک کروڑ روپے بمع ماروتی کار، سلورمیڈلسٹ کیلئے 75 لاکھ روپے بمع ماروتی کار، برانز میڈلسٹ اورچوتھی پوزیشن ہولڈرکیلئے بھی 50/50 لاکھ روپے بمع ماروتی کارز دینے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک کسی ملکی، صوبائی یا مقامی شخصیت تودورکی بات ہے، کھیلوں سے وابستہ افیسرز کی طرف سے بھی مبارکباد تک کا پیغام موصول نہیں ہوااورنہ ہی کسی نے ہمارے استقبال کیلئے آنا گوارا کیا ہے۔ میرے اپنے عزیزواقارب اورایسوسی ایشن کے عہدیداران نے اپنی مدد آپ کے تحت میرا پرتپاک استقبال کیا ہے۔ مجھے اس حکومتی رویئے سے دلی دکھ ہوا ہے۔
جہاں تک مستقبل کے پروگرامز کا تعلق ہے تو میری خواہش ہے کہ ستمبر میں کوریا میں ہونے والی ایشین گیمز میں حصہ لوں اور ملک کیلئے گولڈمیڈل حاصل کروں ۔اس کیلئے ابھی سے محنت کررہا ہوں۔ گلاسکو میں میرے علاوہ دیگر پہلوانوں نے بھی بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا خصوصاً گوجرانوالا کے رہائشی محمد انعام بٹ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، انہوں نے 84 کلوگرام کیٹیگری میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی لیکن بدقسمتی سے وہ پانچویں پوزیشن ہی حاصل کرسکے۔ بھارتی حکومت کی مہربانی سے اب ہمارے ملک بھی کبڈی کا کھیل فروغ پا رہا ہے۔ لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے، اسی طرح فن پہلوانی کے مقابلے کروا کربھی اسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔
کوچ محمد انور اولمپین
میں خود ایک پہلوان ہوں اور چالیس سال سے فن پہلوانی کی خدمت کررہا ہوں۔اب تک میرے شاگرد ملک کیلئے 30 سے 35 میڈل جیت کرلاچکے ہیں جبکہ میں نے خود سیف گیمز میں گولڈ میڈل، سلورمیڈل، برانزمیڈل، ایشین گیمز میں دوبرانزمیڈل اور ایران میں ہونے والے مقابلوںمیں سلورمیڈل حاصل کیے تھے۔ میں نیشنل گیمز کا 10 بار چیمپیئن رہ چکا ہوں۔اب نوجوانوں کو فن پہلوانی کی تربیت دے رہا ہوں۔
عالمی معیار کے مطابق پہلوانوں کی تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارے پہلوان عالمی مقابلوں میں پوائنٹس کی بنیاد پر شکست کھا جاتے ہیں جس کیلئے حکومت سے کئی بار درخواست کرچکے ہیں کہ فن پہلوانی کو عالمی معیارکے مطابق فروغ دینے کیلئے وسائل بڑھائے جائیں۔ لیکن ابھی تک دیگرکھیلوں کے مقابلے میں ریسلنگ کا بجٹ اتنا کم ہے کہ یہ مختلف قسم کی فیسوں میں ہی ختم ہوجاتا ہے، پہلوانوں کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے ہمیں آپس میں اختلافات کو ختم کردینا چاہے۔ آپس میں اختلافات کی وجہ سے ہمارے ملک میں کھیلوں کا بیڑا غرق ہوکر رہ گیا ہے۔میری یہ اپیل ہے کہ کہ ہم باہمی لڑائی ختم کرکے ملک میں کھیلوں کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔