ہزاروں نمونوں پر مشتمل سندھ کا پہلا ڈی این اے پروفائل ڈیٹا بیس قائم 

ہزاروں پروفائل پر مشتمل ڈیٹا بیس کو جامعہ کراچی میں ایک سوفٹ ویئر کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے

جامعہ کراچی میں سندھ کا پہلا ڈی این اے پروفائل ڈیٹا بیس قائم کردی گیا ہے، یہ ڈیٹا ڈی این اے کے ہزاروں نمونوں  کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اور ہزاروں پروفائل پر مشتمل ڈیٹا بیس کو ایک سوفٹ ویئر کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے۔

یہ ڈیٹا بیس جامعہ کراچی کے ادارے " سندھ فارنسک ڈی این اے سیرولوجی لیبارٹری" انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز میں قائم کیا گیا ہے۔

یہ بات سندھ فارنسک ڈی این اے اینڈ سیورولوجی لیبارٹری کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے میڈیا رپورٹرز کی ایک تربیتی ورکشاپ اور ازاں بعد "ایکسپریس" سے بات چیت میں بتائی۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ ڈی این اے کے اس ڈیٹا بیس کو این ای ڈی یونیورسٹی سے بنوائے گئے ایک سوفٹ ویئر میں محفوظ کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر نمونے اور ان کی پروفائلز کا تعلق صوبہ سندھ سے یے کیونکہ لیبارٹری کے پاس زیادہ تر کیسز کراچی سمیت سندھ کے اضلاع کے ہی آتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ لیبارٹری میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے جو نمونے آتے ہیں، ان کی پروفائل محفوظ کی جارہی ہے جس کی وجہ سے ڈیٹا میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، یہ ڈیٹا کسی بھی حادثے کے متاثرہ شخص، اس کے کسی رشتے دار اور کسی مشتبہ ملزم کا ہوسکتا ہے اور پروفائلنگ میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہوتی ہے جس کے سبب ان کی ہسٹری ہمارے سامنے آجاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے قبل ایک کرمنل کیس کو اسی ڈیٹا بیس کے ذریعے حل کیا گیا ہے، اس بچے کا قتل کیا گیا تھا جس کے خون کے سیمپل کی پروفائلنگ جائے واردات سے حاصل کیے گئے شواہد سے کی گئی تھی اور اس کا ڈیٹا پہلے سے ڈیٹا بیس میں موجود تھا۔

کچھ عرصے بعد جب اس کی ہڈیاں ایک دوسرے علاقے سے ملیں تو ان ہڈیوں کا ڈی این اے ڈیٹا بیس میں موجود متاثرہ بچے کی پروفائل سے میچ کرگیا۔

مثال دیتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ معروف پنجاب موٹر وے ریپ کیس کا مجرم بھی پنجاب میں کی گئی ڈی این اے پروفائلنگ سے پکڑا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں میڈیا رپورٹرز کی اس تربیتی ورکشاپ کا انعقاد سندھ فارنسک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیبارٹری نے ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن کے تعاون سے کیا تھا۔

اس موقع پر منعقدہ تکنیکی سیشن میں ڈاکٹر اشتیاق احمد کا کہنا تھا کہ  تکنیکی ثبوتوں یا technical clarity کے بغیر سچ بولنا ممکن نہیں اس لئے What is biological evidence کا سہارا لیا جاتا ہے۔

انسانی جسم میں موجود ڈی این اے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ATGC is a physical object جو ملکر ڈی این اے بناتا ہے یہ ہمارے خون کے سیل  میں شامل ہوتے ہیں اور خون کے ہر خلیے میں اس کی تعداد کئی ارب تک ہوتی ہے۔

چیف پولیس سرجن محکمہ صحت سندھ ڈاکٹر سمیہ نے اس موقع پر رپورٹنگ کے اخلاقی پہلو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی حادثے کے متاثرہ شخص یا اس کے رشتے داروں کی خود مختاری autonomy انتہائی ضروری ہے۔

اگر ذرائع ابلاغ کی جانب سے متاثرہ شخص کی خودمختاری چیلنج کی جائے اس سے زبردستی بات کرنے کی کوشش کی جائے یا رپورٹنگ سے تحقیقات اور متاثرین کا نقصان ہورہا یے تو یہ ethical reporting کے برعکس ہے۔

انھوں نے کہا کہ حمیرا اصغر کیس کے بارے  سب نے پوچھا لیکن اسی دوران 8 خواتین کی لاش ملی ان کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا۔

Load Next Story