فلسطینیوں کے لیے امن صرف ایک فریب

کہا گیا تھا کہ جنگ بند ہو چکی، بم گرنا رک گئے، اب امن بحال ہوگا، مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ جنگ رکی ہے نہ ظلم

فوٹو: العربیہ

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے ڈھٹائی اختیارکرتے ہوئے الٹا حماس پر ہی امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کردیا اور اپنی افواج کو غزہ پر بڑے حملے کا حکم دیا۔ حکم ملنے کے بعد اسرائیلی طیاروں نے غزہ سٹی میں الشفا اسپتال کے قریب فضائی حملہ کردیا۔ مشرقی دیرالبلح پر توپ خانے سے بمباری کی گئی، حملوں میں سات فلسطینی شہید ہوگئے، جب کہ حماس کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ بندی کی اسرائیلی خلاف ورزیوں پر یرغمالی کی لاش کی حوالگی منسوخ کردیں گے۔

کیا یہ وہی جنگ بندی تھی جس کا اعلان دنیا بھر میں امن کی علامت کے طور پرکیا گیا۔ فلسطین میں ایک بار پھر انسانی المیہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری نے ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکارکردیا ہے کہ فلسطین کے لیے امن محض ایک سیاسی نعرہ ہے، حقیقت نہیں۔ اسرائیل نے امن معاہدے کو سبوتاژکرتے ہوئے نہ صرف شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا بلکہ اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا۔ اس سب کے باوجود، امریکا اور یورپی طاقتیں اسرائیل کے ’’دفاعی حق‘‘ کی گردان دہراتی رہیں۔ کیا امن کا مطلب صرف طاقتورکے لیے محفوظ سرحدیں ہیں،کمزور کے لیے قبرستان نہیں؟

 کہا گیا تھا کہ جنگ بند ہو چکی، بم گرنا رک گئے، اب امن بحال ہوگا، مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ جنگ رکی ہے نہ ظلم۔ دنیا کے سامنے ایک بار پھر وہی منظر نامہ ہے۔ ایک طرف اسرائیل کا دعویٰ کہ جنگ بندی نافذ ہے، دوسری طرف غزہ کے ملبے تلے دبی انسانیت کی لاشیں۔ یہ جنگ بندی دراصل الفاظ کا دھوکا نکلی۔ عالمی میڈیا کے مطابق معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد بھی اسرائیلی افواج نے درجنوں فضائی اور توپ خانے کے حملے کیے۔ شمالی اور وسطی غزہ میں گنجان آبادی والے علاقوں پر بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

درجنوں رہائشی عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں، بازار ویران ہیں، اور تعلیمی ادارے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مانیٹرنگ گروپ کے مطابق اسرائیل نے صرف تین دنوں میں چھیالیس سے زائد حملے کیے جن میں درجنوں معصوم شہری جاں بحق ہوئے اور سیکڑوں شدید زخمی ہیں۔ اسپتالوں میں زخمیوں کی چیخیں اور ڈاکٹرز کی بے بسی ایک ایسا منظر پیش کر رہی ہیں جسے دیکھ کر انسانیت شرما جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے واضح کیا کہ اسرائیلی بمباری کے باعث امدادی ٹیمیں زخمیوں تک نہیں پہنچ پا رہیں۔ پانی اور خوراک کی فراہمی مکمل طور پر معطل ہے۔ غزہ کے لوگوں کے لیے اب زندہ رہنا ہی سب سے بڑی جنگ بن چکی ہے۔

 اس وقت خطے میں سب سے بڑی ضرورت اعتماد سازی اور انسانی امداد کی بحالی ہے۔ اسرائیل اگر واقعی امن چاہتا ہے تو اسے اپنی جارحانہ حکمتِ عملی ترک کرنی ہوگی۔ امن کی بنیاد صرف اس وقت رکھی جا سکتی ہے جب انصاف کو مرکزیت دی جائے، جب قاتل اور مظلوم کو ایک ہی ترازو میں نہ تولا جائے۔

یہ سوال اب محض فلسطینی عوام کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔ جب عالمی طاقتیں انصاف کی بات کرتی ہیں مگر ظلم پر خاموش رہتی ہیں، تو ان کے الفاظ اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں۔ امریکا، جو خود کو عالمی امن کا ضامن سمجھتا ہے، دراصل اسرائیل کی پالیسیوں کا سب سے بڑا محافظ بن چکا ہے۔ اس کے ہر ظلم کے پیچھے امریکی اسلحہ، امریکی حمایت اور امریکی ویٹو پاورکھڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں درجنوں قراردادیں منظور ہوئیں، مگر ہر بار امریکا نے ویٹو کے ہتھیار سے انصاف کا گلا گھونٹ دیا۔

یہی وہ لمحہ ہے جہاں دنیا کو احساس ہونا چاہیے کہ یہ ادارے، جنھیں امن کے لیے بنایا گیا تھا، دراصل طاقتوروں کے مفادات کے نگہبان بن چکے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک، جو خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردارکہتے ہیں، اسرائیل کی ہر جارحیت پر آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ ان کے لیے اسرائیل ایک اسٹرٹیجک اتحادی ہے، ایک فوجی قلعہ، ایک مفادات کا محافظ۔ اور فلسطین؟ وہ صرف ایک کمزور قوم ہے، جس کے پاس نہ تیل ہے، نہ فوجی طاقت، نہ عالمی اثر و رسوخ۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم کے باوجود ان کی آہ زمین پرگونج کر رہ جاتی ہے۔

مسلم دنیا کی خاموشی بھی اس المیے کو بڑھا رہی ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ہر سانحے کے بعد صرف ایک بیان جاری کرتی ہے، ایک اجلاس بلاتی ہے اور پھر سب کچھ معمول پر آجاتا ہے۔ کیا امتِ مسلمہ کا یہی کردار رہ گیا ہے؟ کیا ہم صرف جذباتی تقریروں تک محدود رہ جائیں گے؟

میڈیا کا کردار اس ساری کہانی میں نہایت اہم ہے۔ مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی بیانیے کو طاقت دیتا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے ’’ انتہا پسند‘‘ اور اسرائیل کے لیے ’’مدافع‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ تصویریں اس طرح پیش کی جاتی ہیں کہ مظلوم کو ظالم دکھایا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر اگرچہ فلسطینی نوجوانوں نے سچ کی جنگ شروع کی ہے، مگر بڑے میڈیا ادارے اب بھی طاقتورکے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ فلسطین کا اصل چہرہ دنیا تک پوری شدت سے نہیں پہنچ پاتا۔ تاہم، ایک امید کی کرن اب بھی باقی ہے۔ فلسطینی عوام نے ثابت کردیا ہے کہ ظلم کتنا ہی بڑھ جائے، مزاحمت ختم نہیں ہوتی۔ ان کے بچے پتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، ان کی عورتیں شہیدوں کے کفن سیتی ہیں اور ان کے بوڑھے اب بھی اذان دیتے ہیں، چاہے مسجدیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہوں۔ یہ قوم دنیا کو بتا رہی ہے کہ آزادی ایک جذبہ ہے، جو طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا۔

دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے، اگر آج فلسطین کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، توکل کوئی اورکمزور قوم اسی انجام کا شکار ہوگی۔ یہ صرف ایک مذہبی یا علاقائی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی بقا کا مسئلہ ہے۔ انسانیت کی بنیاد ہی انصاف پر قائم ہے اور جب انصاف ختم ہو جائے، تو امن صرف ایک فریب بن کر رہ جاتا ہے۔امریکا سمیت تمام بڑی طاقتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اسرائیل کے ہر ظلم کی سیاسی اور اخلاقی ذمے داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے، اگر وہ واقعی امن کے خواہاں ہیں، تو انھیں اسرائیل کو لگام ڈالنی ہوگی، نہ کہ اسے مزید اسلحہ فراہم کرنا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کو اپنی بقاء کے لیے خود کو مؤثر بنانا ہوگا، ورنہ تاریخ میں اس کا انجام بھی لیگ آف نیشنز جیسا ہوگا، ایک ادارہ جو طاقت کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔

مسلم ممالک کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ایک مؤثر لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ چاہے وہ سفارتی دباؤ ہو، اقتصادی بائیکاٹ یا عالمی فورمز پر مشترکہ آواز۔ کچھ نہ کچھ عملی اقدام اٹھانا ضروری ہے۔ محض احتجاجی بیانات اور تصویری جلسے فلسطین کی تقدیر نہیں بدل سکتے۔

دنیا کے عام لوگ بھی اس جدوجہد کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سچائی کو پھیلانا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو متحرک کرنا اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنا، یہ سب وہ اقدامات ہیں جو عالمی ضمیرکو بیدار کر سکتے ہیں۔ ہر شخص اگر یہ طے کر لے کہ وہ ظلم کے خلاف خاموش نہیں رہے گا، تو یہ خاموشی ٹوٹ سکتی ہے۔فلسطین کا مسئلہ وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے، مگر اس کا حل اب بھی ممکن ہے، بشرطیکہ نیت صاف ہو۔ دو ریاستی حل کی بات ہو یا ایک منصفانہ سیاسی نظام کی، اصل ضرورت انصاف کی ہے۔ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حقِ خود ارادیت نہیں ملتا، تب تک کوئی معاہدہ پائیدار نہیں ہو سکتا۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ کبھی ظلم کو معاف نہیں کرتی۔ جو قومیں ظلم پر خاموش رہتی ہیں، وہ خود کسی نہ کسی دن اسی انجام کا شکار ہوتی ہیں، آج اگر دنیا نے فلسطین کے حق میں آواز نہ اٹھائی، توکل وہ اپنے ضمیر کی قبروں پر ماتم کرے گی۔ فلسطین کی سرزمین آج بھی امید سے خالی نہیں۔ وہاں کے بچے اب بھی خواب دیکھتے ہیں، ماں باپ اب بھی دعا کرتے ہیں، اور نوجوان اب بھی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ قوم مٹی سے جنم لیتی ہے اور مٹی ہی سے جڑی رہتی ہے۔

دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف اس وقت ممکن ہے جب انصاف ہو۔ ظلم اور طاقت کے بل پر قائم خاموشی کبھی پائیدار نہیں ہوتی، اگر عالمی ضمیر نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو فلسطین کی آگ ایک دن پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ انسانیت کی بقاء اسی میں ہے کہ ہم طاقت کے نہیں، سچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، بلکہ انسانیت کی عزت کا پیمانہ ہے اور آج یہ پیمانہ ٹوٹنے کے قریب ہے۔

یہ وقت ہے کہ دنیا فیصلہ کرے،کیا ہم ظالم کے ساتھ ہیں یا مظلوم کے ساتھ؟ کیا ہم امن کے خواہاں ہیں یا مفادات کے غلام؟ کیونکہ تاریخ خاموش نہیں رہتی، وہ سب کچھ لکھتی ہے اور آنے والی نسلیں ہم سے پوچھیں گی کہ جب فلسطین جل رہا تھا، ہم کہاں تھے؟

اگر عالمی طاقتیں فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کر لیں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف اجتماعی موقف اختیارکریں اور اقوامِ متحدہ کے فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے دورکا آغاز ممکن ہے۔

Load Next Story