جامعات،ریاست اور گورننس کا نظام
salmanabidpk@gmail.com
عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ آج کی جدید دنیا میں جامعات حکمرانی کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے اور اصلاحات کو عملی طور پر یقینی بنانے کے لیے ایک متبادل بیانیہ پیش کرتی ہیں یعنی حکمرانی کے نظام کو چلانے میں جو مشکلات ہمیں پیش آتی ہیں ان کا حل جدیدیت ، علمی،فکری اور تحقیق کی بنیاد پر جامعات اور ان میں موجود ماہرین پیش کرتے ہیں ۔لیکن اس نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں حکومت اور جامعات کے درمیان مسائل کے حل کے تناظر میں کوئی فریم ورک یا میکنزم موجود نہیں ہے جو باہمی رابطہ کاری اور ایک دوسرے سے استفادہ کر سکے ۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی نظام مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی ادارے مسلسل اپنی مختلف نوعیت کی جاری کردہ رپورٹس میں ان نکات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کا انتظامی اور معیشت کا نظام مختلف طرز کے تضادات کا شکار ہے ۔
ان کے بقول پاکستان کا نظام دنیا کے نظاموں میں ہونے والی بہتر تبدیلیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔پچھلے دنوں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان نے معاشی نظام میں ترقی کرنی ہے تو اسے اپنے پورے نظام بالخصوص بیوروکریسی کے نظام میں جدید تبدیلیوں اور سخت گیر اقدامات کرنا ہوں گے ۔
ان کے بقول ان تبدیلیوں کے بغیر پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوسکے گا۔ عالمی بینک کی کنٹری ڈائریکٹرڈاکٹر بولر ماامگابازا نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں نوکریوں اور سکلز یعنی صلاحیتوں سے محروم نوجوان آبادی پاکستان پر بوجھ بن گئی ہے۔پاکستان نے سیلاب اور فضائی آلودگی ،بڑھتی آبادی سمیت دیگر اہم معاملات میں سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو 2050تک جی ڈی پی میں 30فیصد تک کمی ہوگی جو سنگین نتائج پیدا کرے گا۔ان کے بقول صاف پانی ، خوراک کی کمی ،بے روزگاری ،تعلیم اور صحت کے ناقص نظام اور رویوں میں برداشت نہ کرنے جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان کی حکمرانی کے بحران کا بڑا المیہ یہ ہے ایک طرف مرکزیت پر مبنی نظام ہے جو 18ویں ترمیم کے باوجود سیاسی ،انتظامی یا مالی اختیارات نچلی سطح پر مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوںکے نظام کو منتقل کرنے کی نفی کرتا ہے۔ اسی طرح ہم اپنے قومی مسائل ماہرین کے ذریعے حل کرنے کے بجائے بیوروکریسی پر حد سے زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔یعنی قومی مسائل کا حل ہم بیوروکریسی کی عینک یا ان کے فریم ورک کی بنیاد پر دیکھتے ہیں یا جو وہ ہمیں دکھاتے ہیں ۔
بیوروکریسی نے پورے نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اس ملک کے ماہرین جو مختلف جامعات اور تحقیقی اداروں سے وابستہ ہیں، اس مضبوط بیوروکریسی کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں ۔ بیوروکریسی کا نظام ان ماہرین کو نہ تو اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی ان کی سوچ اور فکر کو ریاستی نظام میں ہونے والی مختلف تبدیلیوں میں شامل کرتا ہے۔ہمارا اعلی تعلیم کا نظام اور جامعات بھی عدم خود مختاری کا شکار ہیں اور اس نظام پر بھی بیوروکریسی کا سخت کنٹرول ہے اور وائس چانسلرز بھی اس مضبوط بیوروکریسی کے سامنے خود کوبے بس محسوس کرتے ہیں۔
دنیا کی جدید ریاستیں مختلف ماہرین،جامعات اور تحقیقی اداروں کی مدد سے اپنے مسائل کے حل کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حکومت کا نظام جامعات اور تحقیق کے اداروں یا افراد پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے اور ان کو جو مسائل درپیش ہیں اس کا علاج تلاش کرتی ہیں۔لیکن یہاں حکومت اور جامعات سمیت تحقیقی اداروں میں ایک واضح خلیج یا بداعتمادی ہے اور اسی بنیاد پر ان اداروں میں حکومت کی سرمایہ کاری بتدریج کم ہورہی ہے اور آج جامعات کا میدان شدید مالیاتی بحران کا شکار ہے۔
مسئلہ یہاں سرکاری جامعات کا ہی نہیں بلکہ نجی شعبوں میں چلنے والی جامعات کا بھی ہے کہ حکومت کا ان کے ساتھ باہمی تعلق کتنا ہے یا وہاں ہونے والی تحقیق سے کس حد تک فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔جو بھی ریاستیں اپنی ناکامیوں یا خرابیوں سے سیکھ کر بہتری کی طرف آگے بڑھتی ہیں تو ان کی بڑی ترجیحات تحقیق کا میدان ہوتا ہے ۔وہ یا تو خود تحقیق کرتے ہیں یا دنیا میں ہونے والی مختلف نوعیت کی تحقیق سے استفادہ کرتی ہیں۔ یہاں بیانیہ کی جنگ میں بھی علمی اور فکری اداروں بالخصوص جامعات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے ۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ خود جامعات ،وائس چانسلرز اور دیگر ماہرین تعلیم کو سرجوڑ کر جامعات کی اپنی گورننس،جدید تعلیمی تقاضوں اور ڈیجیٹل ترقی کی بنیاد پر ہونے والی نئی تبدیلیوں اور تعلیم کے طور طریقوں پر نظرثانی کرنی ہوگی ۔جو مسائل اس وقت حکومت کو درپیش ہیں اس پر تحقیق کی بنیاد پر نئے نئے حل سامنے آنے چاہیے اور ان ماڈلز کو بنیاد بنا کر اسے قومی بحث کا حصہ بنانا بھی جامعات اور ان کے سربراہان کی بڑی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے ۔
یہ جامعات کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ جامعات کی سطح پر مختلف ماہرین جو مختلف سوچ اور فکر رکھتے ہیں کو مدعو کرے اور بچوںاور اساتذہ کے درمیان مکالمہ کو فروغ دیں۔اسی طرح جامعات کو قومی مسائل کے تناظر میں اپنی اپنی جامعات کی سطح پر مختلف شعبہ جات کے تھنک ٹینک تشکیل دے اور ان کی تجاویز کو قومی سطح پر تشہیر کیا جائے تاکہ وہ ایک بڑے مکالمہ کا حصہ بن سکے ۔کیونکہ کچھ ذمے داری جہاں ریاست اور حکومت کی ہے وہیں جامعات کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ان تمام فریقوں میں مستقل مکالمہ کا نظام موجود ہو ۔اس وقت ماحولیاتی آلودگی ،گورننس، سیکیورٹی اور دہشت گردی ،بیانیہ کی تشکیل ،معاشی ترجیحات ،نوجوانوں میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کے رجحانات، ادارہ جاتی اصلاحات، آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاو، آئینی اور قانونی یا حکمرانی کے مسائل،عدالتی نظام اور انصاف پر مبنی معاشرہ،دیہی شہری تقسیم،محروم طبقات کی کمزور سیاست ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے دیگر امور پر ہمیں کیسے باہر نکلنا ہے اس پر علمی اور فکری بیانیہ درکار ہے اور اس میں تعلیمی اداروں کا اہم کردار بنتا ہے۔