اقلیتی حقوق سے متعلق قومی کمیشن کیا ہے اور یہ کیسے کام کرے گا؟ تفصیلات سامنے آگئیں
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کثرت رائے سے منظور ہونے والے قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 2025 سے متعلق تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔
قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 16 ممبران پر مشتمل ہوگا اور چاروں صوبوں سے دو، دو اقلیتی ممبران کمیشن کا حصہ ہوں گے۔
بل کے مطابق چاروں صوبوں سے اقلیتی ممبران کی نامزدگی صوبائی حکومت کرے گی جبکہ کمیشن کا ایک ممبر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہوگا۔ اسلام آباد سے اقلیتی ممبر کی نامزدگی چیف کمشنر اسلام آباد کی صوابدید پر ہوگا۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس، نیشنل کمیشن فار اسٹیٹس آف وومن اور حقوق اطفال کمیشن ایک ایک رکن اقلیتی کمیشن کے ممبر ہوں گے۔ تینوں ممبران کی نامزدگی متعلقہ کمیشن کے چیئرمین کریں گے۔
وزارت قانون، وزارت مذہبی امور، وزارت داخلہ اور وزارت انسانی حقوق کے گریڈ 21 کے افسران بھی کمیشن کے ممبران ہوں گے۔
کمیشن کے ممبران اور چیئرمین کے لیے کم سے کم 35 سال عمر کی حد مقرر کی گئی ہے، کمیشن کا چیئرمین انسانی حقوق کے تجربے کا حامل فرد ہوگا۔
چیئرپرسن کی تقرری کا عمل ایکٹ کے آغاز سے 60 دن کے اندر مکمل کیا جائے گا۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ چیئرپرسن کمیشن کی تقرری کا پورا طریقہ کار شروع کرنے کا پابند ہوگا۔ اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ سے مشاورت کے بعد پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں گے۔
بل کے متن کے مطابق پارلیمانی کمیٹی چار اراکین پر مشتمل ہوگی، کمیٹی میں سینیٹ سے ترجیحاً دو غیر مسلم اراکین شامل ہوں گے اور قومی اسمبلی سے بھی ترجیحاً دو غیر مسلم اراکین شامل کیے جائیں گے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں کمیٹی صرف سینیٹ کے اراکین پر مشتمل ہوگی۔
اسی طرح، چار رکنی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی ہوگی۔ حکومت اور اپوزیشن کا ایک ایک رکن سینیٹ اور قومی اسمبلی سے ہوگا۔ چیئرپرسن کمیشن کی تقرری کے لیے حکومتی و اپوزیشن اراکین کی مساوی نمائندگی لازمی قرار دی گئی ہے۔
چیئرمین کی تقرری
پارلیمانی کمیٹی 30 روز کے اندر چیئرمین کا تقرر کرنے کی مجاز ہوگی جبکہ عدم تقرری اور چیئرمین کے لیے اتفاق رائے نہ ہونے پر معاملہ وزیر اعظم کو بھجوایا جائے گا۔
وزیر اعظم چاروں ممبران میں سے کسی ایک کا بطور چیئرمین پارلیمانی کمیٹی تقرر کریں گے۔ وزیراعظم چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن اور ممبران کا تقرر کرنے کے مجاز ہوں گے۔
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرپرسن کو کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر ہٹایا جا سکے گا۔
کمیشن کو اختیارات
اقلیتی کمیشن کو آئینی گارنٹی پر عمل درآمد کا جائزہ لینے اور نگرانی کا اختیار ہوگا۔ اقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ سے متعلق آئینی حفاظتی اقدامات کی مسلسل مانیٹرنگ کی جائے گی۔
آئینی حقوق کے نفاذ میں کمی، خامیوں یا خلاف ورزیوں کی نشاندہی کمیشن کرے گا جبکہ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق حکومتی اداروں کی کارکردگی کی نگرانی بھی کمیشن کی ذمہ داری ہوگی۔
آئینی سیکیورٹی میکانزم کو مؤثر بنانے کے لیے سفارشات حکومت کو بھیجی جائیں گی۔
کمیشن کو عدالتی کارروائیوں
کمیشن کو اختیارات
اقلیتی کمیشن کو آئینی گارنٹی پر عمل درآمد کا جائزہ لینے اور نگرانی کا اختیار ہوگا۔ اقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ سے متعلق آئینی حفاظتی اقدامات کی مسلسل مانیٹرنگ کی جائے گی۔
آئینی حقوق کے نفاذ میں کمی، خامیوں یا خلاف ورزیوں کی نشاندہی کمیشن کرے گا جبکہ اقلیتوں کے حقوق سے متعلق حکومتی اداروں کی کارکردگی کی نگرانی بھی کمیشن کی ذمہ داری ہوگی۔
آئینی سیکیورٹی میکانزم کو مؤثر بنانے کے لیے سفارشات حکومت کو بھیجی جائیں گی۔
کمیشن کو عدالتی کارروائیوں میں فریق بننے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ کمیشن یا اس کا مجاز نمائندہ پولیس اسٹیشن، جیل یا کسی بھی سرکاری حراستی مقام کا دورہ کر سکے گا۔
اقلیتی قیدیوں، زیرِ سماعت ملزمان یا حراست میں موجود افراد کی حراست کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیا جائے گا جبکہ غیر قانونی حراست کی صورت میں متعلقہ اداروں کو قانونی اقدامات کی سفارش کی جائے گی۔
کمیشن اقلیتوں درپیش مسائل پر تحقیق، مطالعات اور مختلف مداخلتوں کی سرپرستی کر سکے گا۔ اقلیتوں کی ترقی، بااختیار بنانے اور مسائل کے حل کے لیے حکومت کو سفارشات فراہم کی جائیں گی۔ کمیشن قانون کے مطابق متعلقہ محکموں سے اقلیتوں سے متعلق معلومات، ڈیٹا اور ریکارڈ حاصل کر سکے گا۔
اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کی نگرانی کمیشن کرے گا جبکہ رکاوٹوں کے ازالے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی رہنمائی اور معاونت بھی حاصل کی جا سکے گی۔
اقلیتوں کے مسائل پر آگاہی کے لیے مشاورت، مکالمے اور سیمینار منعقد کیے جائیں گے۔ سول سوسائٹی اور دیگر اداروں کے ساتھ روابط بڑھا کر اقلیتوں کے تحفظ کا مؤثر لائحہ عمل تجویز کیا جائے گا۔
قانون کے تحت کمیشن اشتعال انگیز، نفرت انگیز یا امتیازی سوشل میڈیا مواد کی نشاندہی کر کے کارروائی کی سفارش کرے گا۔ اقلیتوں کے خلاف پھیلائے گئے نفرت انگیز مواد کے ناشرین کے خلاف قانونی کارروائی کی تجویز دی جائے گی۔
کمیشن اقلیتوں کے مسائل پر خصوصی رپورٹس حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ میں جمع کروائے گا۔
بین الاقوامی فورمز میں شرکت اور عالمی انسانی حقوق کے ماہرین سے رابطہ کمیشن کے اختیارات میں شامل ہوگا۔ اقلیتوں کے اندر مختلف گروہوں، بشمول دلت اور شیڈولڈ کاسٹ، کے انضمام کے لیے خصوصی اقدامات تجویز کرنے کا اختیار ہوگا۔
اقلیتوں کے معاشرتی استحکام، یکجہتی اور نسل پرستی کے خاتمے کے لیے پالیسی سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق کسی بھی واقعے کی تحقیقات اور انکوائری کمیشن کرے گا، انسانی حقوق کے معاملات پر کمیشن آزادانہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس تیار کرے گا۔
کمیشن کی رپورٹس حکومت کو کارروائی کے لیے بھجوائی جائیں گی۔ کمیشن اقلیتوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ضروری اضافی اختیارات اور متعلقہ امور بھی انجام دے سکے گا۔
وفاقی و صوبائی حکومتیں اقلیتوں سے متعلق معاملات پر کمیشن سے رائے طلب کر سکیں گی۔
شکایت کی نوعیت دیکھتے ہوئے کمیشن بغیر معلومات طلب کیے بھی انکوائری شروع کرنے کا مجاز ہوگا۔ انکوائری کے دوران کسی شخص کے کردار کی جانچ ضروری ہو تو کمیشن اسے صفائی کا موقع دے گا اور جس شخص کی شہرت متاثر ہونے کا امکان ہو، اسے بھی اپنا مؤقف اور ثبوت پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔ گواہ کی شہادت پر اعتراض کی صورت میں صفائی کا موقع فراہم کرنے کی شرط لاگو نہیں ہوگی۔
کمیشن کو انکوائری کے دوران سول کورٹ کے اختیارات حاصل ہوں گے، کمیشن گواہوں کو طلب کر سکتا ہے اور اُن کی حاضری یقینی بنا سکتا ہے۔ گواہوں سے حلف پر بیان لینے کا اختیار بھی کمیشن کے پاس ہوگا۔
کمیشن کو مطلوبہ دستاویزات پیش کرنے کا حکم دینے کا اختیار حاصل ہوگا، حلف ناموں کے ذریعے ثبوت وصول کرنے کی اجازت بھی کمیشن کو حاصل ہوگا، عدالتوں یا دفاتر سے سرکاری ریکارڈ یا اس کی نقل منگوانے کا اختیار ہوگا، گواہوں یا دستاویزات کے معائنے کے لیے کمیشن جاری کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔
کمیشن کسی بھی شخص کی شناخت کو خفیہ رکھنے کے لیے ہدایات جاری کر سکتا ہے، چاہے وہ معلومات فراہم کرے، دستاویز پیش کرے یا شواہد دے۔ اگر کمیشن کو یقین ہو کہ شخص، اس کے اہل خانہ، دوست یا ساتھی کسی خطرے میں ہیں تو اضافی حفاظتی ہدایات بھی جاری کی جا سکتی ہیں۔ حفاظتی اقدامات میں جسمانی تحفظ، ملازمت کی حفاظت، پرائیویسی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ہدایات شامل ہو سکتی ہیں۔
کمیشن کے تحت ایک کونسل قائم کی جائے گی، جو تمام اختیارات اور کام انجام دے گی جو کمیشن کی جانب سے تفویض کیے جائیں۔
ارکان کی تعیناتی وزیرِ اعظم کریں گے، کمیشن کی سفارش پر، مقررہ شرائط و ضوابط کے تحت غیر افسر شاہی ارکان کی مدتِ ملازمت تین سال ہوگی۔ کونسل کمیشن کے تفویض کردہ اختیارات اور کام انجام دے گی۔
مالی و قانونی معاونت
اقلیتوں کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت کو خصوصی فنڈ مختص کرنے کی پابندی عائد ہوگی۔ کمیشن متاثرہ اقلیتی افراد کو مالی اور قانونی معاونت فراہم کرے گا، کمیشن کو مکمل انتظامی اور مالی خودمختاری حاصل ہوگی۔
نئے عہدے قائم کرنے، پرانے ختم کرنے اور پوسٹوں کی اَپ گریڈیشن یا ڈاؤن گریڈیشن کا اختیار کمیشن کو حاصل ہوگا۔
کمیشن اپنے مختص بجٹ کے اندر رہتے ہوئے فنڈز کو ایک مد سے دوسری مد میں منتقل کر سکے گا، کسی بھی مد پر اخراجات کی منظوری دینے کا اختیار کمیشن کے پاس ہوگا۔
چیئرپرسن کمیشن کا چیف ایگزیکٹو اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوگا۔ کمیشن اپنے اجلاس کا طریقہ کار خود طے کرے گا، قواعد کے تحت کمیشن کا اجلاس کم از کم ہر تین ماہ بعد لازم ہوگا تاہم ضرورت پڑنے پر کمیشن مزید اجلاس بھی بلا سکے گا۔
کمیشن کو اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق شکایات پر انکوائری کا اختیار حاصل ہوگا۔ کمیشن حکومت یا اس کے ماتحت اداروں سے معلومات یا رپورٹس طلب کر سکتا ہے، مقررہ وقت میں رپورٹ نہ ملنے پر کمیشن ازخود انکوائری آگے بڑھا سکتا ہے۔
اقلیتی کونسل
قومی اقلیتی کمیشن بل کے تحت اقلیتی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا، اقلیتی کونسل 18 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ اقلیتی کونسل میں 3ہندو جن میں سے 2شیڈولڈ کاسٹ سے ہوں گے۔
کونسل کے تین رکن عیسائی، ایک ایک سکھ، بہائی اور پارسی ہوگا۔ اقلیتی کونسل میں 2 مسلم اراکین بھی شامل ہوں گے۔ اقلیتی کونسل میں ہر صوبے کے انسانی حقوق یا اقلیتوں کے محکمے سے 1 نمائندہ لیا جائے گا، اسلام آباد کی اقلیت سے ایک رکن بھی کونسل کا ممبر ہوگا۔ اقلیتی کونسل کے ممبران کا تقرر بھی وزیر اعظم کریں گے۔
مزید وضاحت
قومی اقلیتی کمیشن میں اقلیت کی مزید وضاحت شامل کی گئی ہیں۔ لفظ ’’اقلیتیں‘‘ سے مراد وہ افراد ہیں جو غیر مسلم ہوں۔ ’’اقلیتوں کے حقوق” سے مراد پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 اور متعلقہ قوانین میں درج اقلیتوں کے حقوق ہیں۔
آرٹیکل 20 کے تحت مذہبی آزادی اور عبادت کے حقوق سمیت دیگر قانونی تحفظات شامل ہیں۔