ایک اور دکھ کی کہانی

شہلا رضا آج کل ہاکی کے میدان میں اپنی ذمے داریوں میں مصروف عمل ہیں

کراچی کو آیندہ آنے والے برسوں میں ایک بڑا اعزاز ملنے والا ہے۔ یہ ایک رپورٹ کا بیان ہے جسے جاری کرنے والا اقوام متحدہ جیسا بڑا ادارہ ہے جس کے مطابق 2050 تک کراچی دنیا کا پانچواں بڑا شہر بن جائے گا۔ اس بڑی آبادی والے شہرکا پھیلاؤ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ملک بھر سے یہاں مستقل آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک بھر سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے وہ لوگ جو اپنا مستقبل سنوارنے یا ایک کا دو بنانے یہاں آتے ہیں، بس آئے ہی جا رہے ہیں، گو گئے بھی ہیں پر خواہشات کا سمندر ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آبادی کا پھیلاؤ ہی کراچی کو بڑا شہر بنانے جا رہا ہے۔

کراچی کی آبادی 2050 تک تین کروڑ تیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کے بڑے شہروں کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہاں فی مربع کلو میٹر میں پچیس ہزار افراد کی آبادی ہے جب کہ دنیا کے گنجان آباد شہر کی آبادی جو بڑے شہروں کے زمرے میں آتے ہیں وہاں فی مربع کلو میٹر آبادی بیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ 1950 میں عالمی آبادی کا بیس فی صد شہروں میں رہتا تھا جب کہ آج پینتالیس فی صد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہے۔

یہ شہر بھر رہے ہیں، گاؤں، دیہات سکڑ رہے ہیں۔ شہر آبادی کے بوجھ سے بوجھل ہو رہے ہیں۔ ترقی کی کارکردگی کچھ بھی ہو تنزلی کی کارکردگی تیزی سے اوپر کی جانب جا رہی ہے۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ڈھیروں ارب روپے اور ایک بے چارہ کراچی گئے تو گئے کہاں؟

سڑکیں عذاب اونچی نیچی راہیں جب دل کیا کسی ادارے نے سڑک کھود کر اپنا کام کیا اور چلے گئے اب کون دیکھے اس روڈ کو اور خطرناک کھلے گڑھوں کو جب کہ مین ہولز کا تو کہنا ہی کیا۔

ابھی حال ہی میں ایک تین سالہ بچے ابراہیم کا اپنے والدین کے سامنے مین ہول میں گرنا اور چودہ گھنٹوں بعد بڑی مشکلوں سے بچے کی لاش کو برآمد کرنا شہر کی انتظامی سہولیات کی جانب ڈھیروں سوالات اٹھاتا ہے؟

کیا واقعی یہ وہی شہر ہے جس کا ایک ہزار اٹھارہ ارب روپے کا بجٹ منظورکیا گیا۔ کیا واقعی اتنے بڑے بجٹ میں سے 85.5 ارب پانی، نکاسی آب، دریاؤں، کینالز وغیرہ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔

کیا نکاسی آب اور بارش کے طوفانی پانی کے لیے بنائے گئے حفاظتی آب کے منصوبے اس قدر کامیاب ٹھیرے کہ ایک بچے کو نگل گئے۔ ایک ماں جو آنکھوں میں نجانے کتنے خواب سجائے ہوئے تھی پر اسی کے سامنے اس کا بچہ اس مین ہول کی نذر ہو گیا جسے بارش کے پانی کو نگلنا تھا، اس نے ننھے ابراہیم کو کھا لیا اور بے بس لوگ بس دیکھتے ہی رہ گئے۔

یہاں تک کہ ناکافی گٹر اس قدر تنگ تھے کہ ان میں اترنا اور تلاش کرنا دقت طلب تھا۔ ایسے میں ایک انسانی وجود کو تلاش کرنا کیا ممکن تھا اور پھر عوامی خدمت گار جو ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ اس شہر کی سرشت میں شامل ہے سو اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔

ننھے ابراہیم کی تلاش کے لیے چندے بازی سے بات شروع ہوئی اور ختم ایک خاکروب نے کی جب اس نے ننھے سے وجود کو تلاش کرکے اس کے اپنوں کے حوالے کیا۔

ایسے میں شہلا رضا جن کے نام اور مرتبے سے کون واقف نہیں سامنے آ جاتا ہے، 2005 میں ان کی گاڑی اس کھلے نالے میں جا گری تھی جب بارش کی طغیانی نے اس غیر محفوظ نالے کو موت کی وادی بنا دیا تھا۔

سڑک سے بارش کے پانی سے پھسلتی گاڑی اس نالے میں چلتی چلی گئی۔ کیونکہ اس کے گرد حفاظتی باڑ نہ تھی اور پھر دو معصوم بچے اس نالے میں اپنی جان سے چلے گئے۔ شہلا رضا ابھی تک اس ٹراما سے نکل نہیں پائی ہیں کہ ایک ماں کا دل ایسا ہی ہوتا ہے تو ابراہیم کی ماں کے دل کو کیسے قرار آئے گا؟

شہلا رضا آج کل ہاکی کے میدان میں اپنی ذمے داریوں میں مصروف عمل ہیں لیکن کل بھی وہ اپنی پارٹی کی وفادار تھیں جب سارے اپنے انجانے بنے تھے اور آج بھی وہ اسی پارٹی کے ساتھ جمی کھڑی ہیں لیکن 2005 کے غم کیا آج کم ہو سکے ہیں؟

دو سال پہلے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ابھری تھی جب ایک ماں نے اپنے لخت جگر کو بیچ آبادی والے علاقے کے کھلے نالے میں کھویا تھا۔ یہاں تک کہ ابھی چند مہینوں پہلے ہی ایک نالے میں بھی ایک انسانی جان کے دم دینے کی باتیں سنی تھیں۔

بہرحال ایک رپورٹ کے مطابق 2024 میں کھلے گٹروں اور نالوں کی وجہ سے انیس افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ایک فلاحی تنظیم کے ریکارڈ کے مطابق 2024 میں ایک سو پچاس افراد اپنی جان سے گئے ہیں۔

 مین ہولز کے ڈھکنوں کی ذمے داری اگر سرکار کی ہے تو کم ذمے دار وہ لوگ بھی نہیں جن کے سامنے ایسے موت کو دعوت دیتے مین ہولز موجود ہیں۔ کیا کبھی اسے ڈھکن نصیب بھی ہوا تھا یا نہیں؟ کیا محض گنے کے ٹکڑوں سے ڈھک کر اپنی دکان چمکانا اور کمانا ہی انسانیت کا حق ہے؟

پورے شہر میں کتنے گٹروں کے ڈھکن لگتے ہیں اور کتنے بڑے دیوہیکل ٹرکوں، ٹرالرز کے پہیے کی نذر ہوتے ہیں باقی تو خاص لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں، یہ لوگ کون ہیں؟ جو بیچ سڑک سے اس شہر کے گٹروں کے ڈھکن اٹھاتے ہیں اور موت کے سگنلز فٹ کر دیتے ہیں۔

کیا کبھی کوئی ایسا چور بھی پکڑا گیا، کیا کوئی ایسا کباڑی، دکان دار، چور بازار بھی نظروں میں آیا جہاں ایسی سرکاری اشیا جو خالصتاً عوام کی سیکیورٹی کے لیے نصب کی جاتی ہیں چپکے سے فروخت ہو رہی ہیں، پلوں سے لوہا نکالا جا رہا ہے۔

اونچے وزنی سامان والے ٹرک پلوں سے ٹکراتے ان کی ساخت کو کمزور کر رہے ہیں، کوئی ہے جو ان بگاڑنے والوں کا ہاتھ روکے، پکڑے، سرزنش کرے؟ معصوم مظلوم عوام ان چوروں کی وڈیو بنا بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔

ان کے چہرے دکھاتے ہیں پر کوئی بھی نہیں آتا کہ ایک یتیم شہر کے سر پر کون ہاتھ رکھے گا؟ کوئی تو اس شہر کے لیے مختص کیے گئے بجٹ کا حصہ اس شہر کو بنانے، سنوارنے پر صرف کرے۔

کراچی کو خوب صورت نہ بنائیں، نہ سجائیں۔ بس اس کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھیں، اس کو وہ دیں جو اس کا حق ہے بلکہ ہم کراچی کی ہی بات کیوں کریں؟ ہمارے ملک کے بہت سے شہرکراچی کی طرح ہی سسک رہے ہیں کہ ان کے وجود سے بھی آکاس بیل چمٹی ہے، لیکن اقوام متحدہ نے تو ایک اسٹیمپ لگا دی کہ ابھی اس شہر کا پیٹ آبادی سے اور بڑھے گا۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی ادوار میں ہمارے خلفائے راشدین نے کس طرح نئے شہر آباد کیے کہ ہمارا دین ہمیں معاشی اور معاشرتی اصولوں کی بہترین تربیت بھی دیتا ہے، پر ہم توکراچی کو بڑھا کر حیدرآباد سے لگا رہے ہیں۔ بہرحال دیکھیے ہم ناامید تو نہیں ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔

Load Next Story