بہترین تخلیق
’’ اسے دیکھو، وہ جو لال لباس میں ہے-‘‘ ہلکی سی آواز میں کہا گیا کہ کوئی سن نہ لے مگر ارد گرد بھی کانوں والے بیٹھے تھے جن کی سماعتیں اچھی تھیں۔ ’’ قد دیکھو، کیسا بوٹا سا ہے اور جوتوں کی ایڑی دیکھو، ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی وہ پانچ فٹ کی نہیں لگتی‘‘۔
’’ ہاں ، ٹھیک ہی کہتی ہیں ‘‘۔ ساتھ والی کی آواز آئی، ’’ میںنے تو اسے بیٹھے ہوئے ہی دیکھا تھا، اس لیے قد پر غور نہیں کیا‘‘۔
’’ اور کون سی ہے؟‘‘ پہلی والی نے سوال کیا۔
’’ ویسے تو ساری ہی ہیں جو بھی آپ کو پسند آ جائے، میںاس کا شجرہ نکال لوں گی‘‘ ۔ دوسری آواز میں اعتماد تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنے پرس سے کچھ نکالا اور اسے عینک لگا کر غور سے دیکھا، ’’ اب آ رہی ہے اگلی‘‘ جو نام پکارا گیا تھا، اس نام کی لڑکی نے اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر سونے کا تمغہ حاصل کیا تھا، نام پکارا گیا تھا اور یقینا وہ نام اس کی فہرست میں تھا۔
’’ نہیں بھئی، اس کا رنگ دیکھو، چہرہ تو گلابی کر رکھا ہے مگر ہاتھ اور پیر اس کے اصل رنگ کی چغلی کھا رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے نخوت سے کہا، ’’ یہ تو بالکل بھی نہیں‘‘۔ انھوں نے اس ذہین اور فطین لڑکی کو یکسر مسترد کر دیاتھا۔
تھوڑی دیر گزری، چند اور نام پکارے گئے اور وہ لڑکیاں ایک ایک کر کے آتیں اور اسٹیج پر ایک طرف سے چلتی ہوئی، درمیان میں رکتیں اور پھر دوسری طرف سے نیچے اتر جاتیں۔
’’اب آرہی ہے!‘‘ ایک نام پکارا گیا تو دونوں خواتین تیار ہو کر بیٹھ گئیں، عینکیں ماتھوں سے اتر کر آنکھوں پر ٹک گئیں۔
’’یہ پیاری ہے، قد بھی اچھا ہے‘‘ ان خاتون نے تعریف کی تو دوسری خاتون تھوڑی مطمئن ہو گئی ’’ لیکن… ‘‘ ان خاتون کے لیکن کہنے پر وہ چونک گئیں اور سوالیہ نظر سے اسے دیکھا ’’ ذرا سی فربہ لگ رہی ہے مگر باقی سب ٹھیک ہو تو بچیاں وزن کم کر ہی لیتی ہیں‘‘ انھوں نے کہا تومیں نے بھی محسوس کیا کہ اس خاتون نے اس وقت سے لے کر اب تک صرف یہی ایک مثبت بات کی تھی ’’کس کی بیٹی ہے؟‘‘ اگلا سوال۔
ساتھ والی خاتون نے جواب دیا تو وہ مایوس ہو گئیں ’’ نہیں بچی کا کسی اچھے گھر سے ہونا ، میرا مطلب ہے کہ کسی اچھے خاندان سے ہونا اور باپ کا بھی کسی اہم عہدے پر ہونا زیادہ بہتر ہو گا‘‘
’’چلیں ابھی ایک بہت بڑے پولیس کے افسر کی بیٹی آگے آئے گی، وہ بھی بہت اچھی ہے، اسے دیکھ لیں ‘‘ دوسری خاتون نے ان کے سوال کا جواب دیا ’’ آرہی ہے! ‘‘ اپنے ہاتھ میں پکڑی لسٹ میں سے پکارے جانے والے ایک نام پر ان خاتون نے انھیں تیار رہنے کا حکم دیا اور وہ تیار ہوگئیں ، آنے والی لڑکی کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے، لڑکی ایک طرف سے اسٹیج پر آئی اور درمیان میں رکی، وہاں سے اس نے مہمان خصوصی سے اپنی سند وصول کی اور دوسری طرف سے نیچے اتر گئی۔
اب تک آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ کوئی منظم رشتہ پریڈ تھی جس میں لڑکیاں بھیڑ بکریوں کی طرح اسٹیج پر آ کر اپنی نمائش کرتی اور کیٹ واک کر کے نیچے اتر جاتی ہیں مگر اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ یہ ایک میڈیکل کالج کی کانووکیشن کی تقریب تھی اور اس میں وہ لڑکیاں تھیں جو اس وقت اپنی ڈاکٹری کا سرٹیفیکٹ وصول کر رہی تھیں۔
چار سال انھوں نے انتھک محنت کی تھی اور اس وقت وہ فخر سے اپنی اسناد اور حسن کارکردگی کے سرٹیفیکٹ بھی وصول کر رہی تھیں لیکن اس ہال میں نہ صر ف ہمارے سامنے کی نشست پر بلکہ کئی اور نشستوں پر بھی جنھیں ہم نہیں جانتے۔
اسی نوعیت کی خواتین بیٹھ کر اپنے بیٹوں کے لیے لڑکیوں کو جانچ اور تول رہی تھیں اور ان کی قابلیت سے بڑھ کر کیا اہم تھا، ان کے قد، ان کے جسموں کی ساخت، ان کی جلد کا رنگ، ان کی چال، ان کے بال، ان کی آنکھیں، ان کے باپوں کے عہدے اور ان کے خاندانوں کا قد۔
یہ ایک کہانی یا قصہ نہیں ہے، یقین کریں کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اب رشتے کروانے والی عورتیں، وہ عام ’’وچولنیں‘‘ نہیں ہیں اور نہ ہی لڑکوں کی مائیں وہ ہیں کہ جو لڑکی کے گھر پر جائیں اور چائے کی ٹرالی لاتی ہوئی لڑکی کو چند قدموں میں جانچ لیں اور رشتہ طے ہو جائے۔
اب لڑکیاں بھی رشتے کے لیے آنے والی خواتین کے سامنے ٹرالی گھسیٹ کر لانے کی پریڈ نہیں کرنا چاہتیں۔ اب آپ کی بیٹی کسی کالج میں پڑھتی ہے تو آپ کے علم میں آئے بغیر، ہر روز کالج کے گیٹ پر کوئی نہ کوئی ماں انھیں دیکھ کر رد کر رہی ہو گی، جسے خود پر یہ مان ہو گا کہ وہ ایک بیٹے کی ماں ہے۔
نہ اس کی تعلیم ہو گی نہ تربیت اور نہ کوئی گن مگر وہ بیٹا تو ہے نا اور اس کی ماں کو یہی اعزاز یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ جہاں چاہے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں سے چن چن کر بھیڑوں اور بکریوں کو دیکھے اور ان میں نقائص بتا بتا کر انھیں رد کرتی رہے۔
قرآن کریم ، سورہء التین کی آیت نمبر چار میں اللہ تعالی خود فرماتے ہیں ۔
’’لقد خلقنا الا نسان فی احسن تقویم، بے شک ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت پر بنایا ہے ‘‘
ہم اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز بناتے ہیں، کوئی کپڑا سی لیں، کوئی سویٹر بن لیں، کہانی لکھ لیں، اپنے لان میں اچھی طرح پھول لگا لیں، کوئی اچھا کھانا پکا لیں یا ہمارا بچہ اچھا کام کر کے تو ہم کتنے خوش ہوتے ہیں۔
خود اپنی کی تخلیق پر کتنے خوش ہوتے ہیں اور دل ہی دل میں اسے سراہتے ہیں، دوسروں کو دکھاتے ہیں تا کہ وہ بھی تعریف کریں، توہم کون ہیں اور ہماری کیا جرات کہ ہم اللہ تعالی کی بنائی ہوئی تخلیقات پر یوں اعتراضات لگائیں اور ان کی شکل اور صورت پر نکتہ چینی کریں ۔
ان ماؤں سے کوئی پوچھے کہ کیا وہ گھر سے نکلتے وقت اپنے گھر کو، اپنے شوہر کو، اپنے بیٹے کو، اپنی بیٹیوں کو اور سب سے پہلے خود کو اچھی طرح دیکھ کر نکلتی ہیں؟ کیا ان کے بیٹے میں یا بیٹیوں میں کوئی کمی کجی نہیں ہے؟
کیا وہ دوسروں کی بیٹیوں میں سے کیڑے نکالتے وقت اپنی بیٹیوں کو دھیان میں رکھتی ہیں؟ کیا ان کا بیٹااس قابل ہے کہ اچھے خاندانوں کی خوش شکل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹیوں کا شوہر بننے اور انھیں عزت دینے کا اہل ہو؟ کیا وہ خود ایسی بے عیب ہیں یا ہمیشہ سے تھیں کہ انھیں کسی نے مسترد نہیں کیا ہو گا۔
سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ان کی بیٹیاں یا خود وہ اس جگہ پر ہوں جس جگہ پر دوسروں کی بیٹیاں اور وہ بیٹھ کر ان پر ریمارکس پاس کر رہی ہیں اور انھیں عیب نکال نکال کر رد کر رہی ہیں تو انھیں کیسا لگے گا، اچھا لگے گا؟ کیا وہ کسی ایسی عورت کا سر نہیں پھاڑ دیں گی جو یوں پبلک مقام پر کھڑی ہو کر ان کی بیٹیوں کے تعلیمی اداروں کے گیٹ پر باہر چھٹی کے وقت کھڑی ہوکر لوگوں کی بیٹیوں کو رشتہ کرنے کی نیت سے دیکھ رہی ہوں گی؟
کسی جگہ اس نکتے پر بات ہوئی تو یقین کریں، ایک خاتون کہنے لگیں کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ آپ لوگوں کے گھروں میں جائیں،ان کے ہاں چائے پئیں، خاطر مدارات کروائیں اور پھر خاموشی اختیار کرلیں یا دیر کے بعد جواب دے دیں کہ ہمیں ان کی بیٹی پسند نہیں آئی۔
ہر کسی کی اپنی رائے ہے مگر میری ذاتی رائے میں یہ ایک انتہائی نامعقول طریقہ ہے۔ اس میں اکثر خواتین پہلے خود لڑکیوں کو پسند کر لیتی ہیں اور پھر اپنے ’’ ہیرے جیسے بیٹے‘‘ کے ساتھ دوبارہ انھی تعلیمی اداروں کے گیٹ پر کھڑے ہو کر لڑکیاں پسند کرواتیں ہیں۔
یہ کسی خیالی دنیا کی بات نہیں ہے، آپ رشتے کروانے والے دفاترمیں جا کر بھی پوچھ گچھ کر لیں کہ اب یہی طریقہ مروج ہے۔ چلیں اگرسب لوگ اس پر متفق ہیں تو ان کی مرضی مگرمجھے اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ جس طرح بھی بچیاں دیکھیں مگر خدارا یوں ان کے جسمانی اور ظاہری عیوب کو لے کر رشتے مسترد نہ کریں۔
آپ کو کیا علم کہ آپ جس عیب کو بنیاد بنا کر رشتہ مسترد کر رہی ہیں جو کہ عیب کہلا بھی نہ سکے، (اللہ تعالی نے اسے بنایا ہی ایسا ہے) کل کلاں کو اس سے بڑا عیب آپ کی کسی بیٹی میں نکل آئے، جس حسن کی تلاش میں آپ ساری دنیا کی خاک چھانتی ہیں ، وہ حسن ایسا پائیدار نہیں ہوتا اور نہ ہی لڑکے صرف حسن پر مطمئن ہوتے ہیں۔
انھیں تو جب بھی اور جہاں مزید حسن نظر آئے گا، وہیں جا گریں گے۔ اپنے بیٹوں کی تربیت اچھی کریں اور ان میں باطن کی وہ آنکھ بیدار کریں جو کہ ظاہری حسن سے ہٹ کر دیکھتی ہے، انھیں ظاہری شکل و صورت سے محبت کرنے والا نہیں بلکہ اچھی سیرت اور عادات کا متلاشی بنائیں اور انھیں یہ سکھائیں کہ اس کا جوڑا اللہ نے بنا رکھا ہے، اس کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سے اور وہ اسے مل کر رہے گا۔ اپنے ساتھی کی عزت کریں اور قدر کریں، اس کی کمیوں کجیوں کو نظر انداز کریں اور دیکھیں کہ وہ جواب میں آپ کی کیسے عزت کرے گی۔
لڑکوں کی بات ہو تو کہتے ہیں ، مرد کی شکل کا کیا ہوتا ہے، اس کا عہدہ اور مرتبہ اہم ہوتا ہے ۔ لڑکوں کی ماؤں یا لڑکوں کی طرح، لڑکیاں لڑکوں کو ان کی شکل، تعلیم، تربیت اور عادات کے باعث مسترد کرنا شروع کردیں تو مجھے غالب گما ن ہے کہ لڑکے بھی شاید کنوارے ہی رہ جائیں یا لڑکیوں کی طرح شادی کے انتظار میں بوڑھے ہوجائیں۔