یوم انسدادِ بدعنوانی اور ہماری اشرافیہ
کرپشن کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان دو درجے اوپر101 نمبر پر آگیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
نو دسمبر کو دنیا میں یوم انسدادِ بدعنوانی کا دن منایا جاتا ہے کہ جس کو حقیقت میں تو ہماری اشرافیہ اپنے خلاف دن سمجھتی ہے لیکن دنیا کو دکھانے کےلیے کرپشن کے خلاف بیانات ضرور دیتی ہیں۔
آج کے دن کے حوالے سے ہمارے ملک کے لوگوں نے بھی کرپشن کی مذمت میں فلک شگاف بیانات دیے ہیں اور میں تو اب تک ان کے سحر میں مبتلا ہوں۔ گویا جیسے ہمارا پیارا ملک پاکستان اپنے نام کی مناسبت سے کرپشن سے ’پاک‘ ہونے جارہا ہے۔ ویسے اگر ہمارا ملک کرپشن سے پاک ہوگیا تو ہمارے ملک میں ایک دوسری قسم کا سیاسی و معاشی بحران آجائے گا کہ جس کی جزئیات میں جانا اس تحریر کے دائرہ اختیار سے باہر بھی ہے اور خطرناک بھی ہے۔
ہمارے تمام لوگ جو کسی بھی کلیدی عہدے پر فائز رہے ہوں، ادارہ چاہے سرکاری ہو یا غیر سرکاری، وہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ ’’میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی ہے اور اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے تو مجھے چوک پر پھانسی دے دی جائے‘‘۔ اگر وہ لوگ سیاسی ہوں تو دعوٰی کرتے ہیں کہ کرپشن ثابت ہونے پر میں سیاست ترک کردوں گا وغیرہ وغیرہ۔
اس ملک میں کرپشن ثابت کرنا گویا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا ہے، جو نہ کبھی ماضی میں ہو پائی ہے، حال میں تو بالکل بھی نظر نہیں آرہی کیونکہ بلی بہت طاقتور ہوگئی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے کوئی امکانات نہیں۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی ایسے تمام عہدیداروں کے حق میں بیان دے دوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی ہے۔ آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یکایک میں کیوں ایسی گواہی دے رہا ہوں، تو جناب ایسا کرتے ہیں کہ پہلے ایک دھیلے کی حیثیت کا تعین کرلیتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے بعد آپ بھی میری گواہی میں شامل ہوجائیں گے۔ اس وقت پاکستان میں سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے جو آہستہ آہستہ ناپید ہورہا ہے تاہم کبھی اس ملک میں اٹھنی، چونی، دس پیسے، ایک آنہ، پانچ پیسے اور اس سے بھی چھوٹی مالیت کے سکے ہوتے تھے۔ مجھے خود بچپن ایک آنہ روزانہ جیب خرچ ملا کرتا تھا جو ایک پانچ پیسے اور ایک پیسے کے سکے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اب ہم ایک پیسے سے بھی نیچے اترتے ہیں، تو جناب ایک پیسے میں دو دھیلے اور ایک دھیلے میں دو ادھیلچے ہوتے تھے جو دمڑی و چھدام بھی کہلاتے تھے اور ایک ادھیلچے میں دو ادھّیاں آتی تھیں اور ایک ادھّی اپنی قیمت میں ڈھائی کوڑی کے برابر ہوتی تھی۔ اب آپ ہوسکتا ہے کہ ’’چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘‘ اور ’’کوڑی کوڑی کو محتاج ہونے‘‘ والے محاوروں کو ان کی جزئیات کے ساتھ سمجھ سکیں۔ تو جناب یہ ہے دھیلے کی حیثیت اور اوقات۔ اب آپ ہی بتائے کوئی بھلا اس بے حیثیت اور بے مالیت کے سکے کےلیے کرپشن کیوں کرے گا؟ تو لامحالہ اس لحاظ سے تو سب لوگ صحیح کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی ہے اور جو کی ہے اگر وہ دھیلے سے زائد ہے تو وہ اس جملے کے دائرہ کار سے باہر ہوجاتی ہے۔
کرپشن کی انتہا اور اس کے حجم کو سمجھنے کےلیے اب ہم گنتی کی دوسری طرف جاتے ہیں اور شاید اس کو پڑھ کر آپ کے ہوش و حواس دونوں گم ہوجائیں۔ دمڑی یا کوڑی تو گنتی کی ایک انتہا ہے اور اب ہم اس کی دوسری انتہا کی طرف چلتے ہیں۔ یہ خیال رہے کہ گنتی ایک عمل مسلسل ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ کرپشن عام طور پر زر، زن اور زمین کےلیے ہوتی ہے اور تینوں کے بارے میں ہمارا ماضی اور حال تو بھیانک ہے ہی لیکن اب شاید مستقبل بھی دردناک بلکہ عبرتناک ہوجائے۔ موجودہ حالات میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو صرف اور صرف نقد پر یقین رکھتے ہیں بلکہ غیر ملکی کرنسی پر یقین رکھتے ہیں۔ مزے کی بات یا شاید المیہ یہ ہے کہ انھیں خود نہیں پتہ کہ ان کے پاس کتنا پیسہ ہے اور پیسے کی گنتی کی حد کیا ہے؟ لوگ عام طور پر ارب یا کھرب کو ان کے حرص کی انتہا سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، جس طرح حرص و لالچ کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اسی طرح ان کی گنتی بھی آگے جاتی ہے اور ارب دس ارب، کھرب دس کھرب، نیل دس نیل، پدم دس پدم، سنکھ دس سنکھ، مہا سنکھ اور دس مہا سنکھ۔ آپ شاید یہ کہیں گے کہ کیا ہمارے لوگوں کو اتنی گنتی آتی ہے تو جناب اس بات کا جواب یا تو وہ خود دے سکتے ہیں یا آپ قیاس کرسکتے ہیں لیکن ایک بات پر کسی کو شک نہیں ہوگا کہ ان کی حرص اس سے کسی طور کم نہیں ہوگی۔
یہ جو گنتی آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہے اتنی دولت برصغیر میں ہوتی تھی۔ دولت تھی تو گنتی بھی تھی۔ اسی لیے برصغیر کو سونے کی چڑیا کہتے تھے اور اسی لیے اس کو لوٹنے والے باہر سے آتے تھے۔ انگریز اس فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے بیرونی طالع آزماؤں پر انحصار کرنا چھوڑ دیا اور اس شعبے میں بھی خود کفالت اختیار کرلی۔ آج ہمارے یہاں Anti Corruption کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کرپشن کو کچھ نہ کہو اور کہنے والے کے اینٹی ہوجاؤ۔ جس ملک میں سرکاری طور پر اس بات کا اقرار کیا جائے کہ اگر کرپشن پکڑنے لگ گئے تو ترقی کیسے ہوگی؟ وہاں کرپشن کے خاتمے کے عالمی دن کے بجائے کرپشن کے فروغ کا قومی دن منانا چاہیے۔ اس سے آگے لکھنے کی مجھ میں تاب نہیں اس لیے اجازت دیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔