حکومتی معاونت کے بغیر ٹیکس خسارہ 560 ارب تک بڑھنے کا امکان

ریونیو میں کمی ہوئی تو اخراجات کم کرنا ہونگے، وزارتِ خزانہ

اسلام آباد:

ٹیکس مشینری نے جمعرات کے روز وزیراعظم کو بتایا کہ اگر اٹارنی جنرل کے دفتر کی مدد نہ ملی تو رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کا کم کیا گیا ہدف بھی 560 ارب روپے سے پورا نہیں ہو سکے گا۔

جبکہ وزارت خزانہ نے بڑے شارٹ فال کے اخراجات پر اثرات سے خبردار کیا ہے،مالیاتی امور پر یہ اجلاس ایک ایسے دن کے بعد منعقد ہوا جب آئی ایم ایف  کے ریزیڈنٹ نمائندے ماہر بینیچی نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرکے ایگزیکٹو بورڈ کا پیغام پہنچایا۔

اس ملاقات پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا، تاہم ایک سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ ماہر بینیچی کو محض چائے پر مدعو کیا گیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کو ایف بی آر کے معاملات پر روایتی اجلاس طلب کیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ ایف بی آر دوسروں پر انحصار کر رہا ہے جبکہ ملکی معیشت بھی اب تک مکمل بحالی کے لیے تیار نہیں۔

ذرائع کے مطابق شرکا  کی رائے تھی کہ اگر شرح سود کم کی گئی تو معاشی نمو کو تقویت مل سکتی ہے لیکن اس سے زرِمبادلہ کے کمزور ذخائر پر دبائو بڑھے گا۔

اجلاس میں کچھ شرکا  نے روپے کی قدر میں کمی کی حمایت کی تاکہ برآمدات اور ایف بی آر کی کم ہوتی آمدنی کو سہارا دیا جا سکے۔

تقریباً فکس ایکسچینج ریٹ نے پاکستانی برآمد کنندگان کا مسابقتی فائدہ ختم کر دیا ہے اور آئی ایم ایف بورڈ نے بھی پاکستان سے مکمل طور پر لچکدار ایکسچینج ریٹ نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر حکام نے وزیراعظم کو بتایا کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات سے رواں ماہ 200 ارب روپے کی ریکوری کی توقع ہے، جس سے کم کیا گیا ہدف کے مقابلے میں شارٹ فال 362 ارب روپے تک محدود ہو سکتا ہے۔

انتظامیہ نے ان مقدمات کے فوری فیصلوں کے لیے اٹارنی جنرل کے دفتر کی مدد مانگی۔ اگر یہ مقدمات ایف بی آر کے حق میں نہ نمٹائے گئے تو ٹیکس شارٹ فال کم کیے گئے ہدف کے مقابلے میں 562 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔

جولائی تا دسمبر اصل ٹیکس ہدف 6.7 کھرب روپے تھا جسے کم کر کے 6.49 کھرب کیا گیا، لیکن کم کیے گئے ہدف کے مقابلے میں بھی ایف بی آر کم از کم 560 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا کرے گا۔

اصل ہدف کے مقابلے میں شارٹ فال 775 ارب روپے سے زیادہ ہوگا۔ ایف بی آر پہلے ہی پانچ ماہ میں 413 ارب روپے کی کمی برداشت کر چکا ہے۔

وزیراعظم آفس کے مطابق شہباز شریف کو ٹیکس اہداف کے حصول، معیشت کی ڈیجٹائزیشن اور ٹیکس چوری کے خلاف اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔

انھیں زیر التوا ٹیکس مقدمات اور متعلقہ اداروں میں پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔وفاقی آئینی عدالت نے سپر ٹیکس کیس آئندہ ماہ کے لیے مقرر کر دیا ہے، لہٰذا اس ماہ فیصلے کا امکان نہیں۔

ایف بی آر متعدد مرتبہ آئی ایم ایف کو یقین دلا چکا ہے کہ سپر ٹیکس کیس جلد اس کے حق میں آ سکتا ہے۔ذرائع کے مطابق ایک شرکا نے کہا کہ بڑی آمدنی کمی سے منی بجٹ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

آئی ایم ایف نے رواں ہفتے ہی 1.2 ارب ڈالر کا قرضہ اس شرط پر منظور کیا ہے کہ پاکستان ریونیو کے نقصانات پورے کرنے کے لیے منی بجٹ لائے گا۔

ذرائع کے مطابق وزارتِ خزانہ نے وزیراعظم کو خبردار کیا کہ اگر ریونیو میں بڑی کمی ہوئی تو اخراجات کم کرنا ہوں گے، کیونکہ آئی ایم ایف پرائمری بجٹ سرپلس کے ہدف میں نرمی کی اجازت نہیں دے گا۔

شرکا  نے ایف بی آر کے اس رویے پر اعتراض کیا کہ وہ اپنا کام دیگر اداروں اسٹیٹ بینک، پاور ڈویژن، پٹرولیم ڈویژن اور اٹارنی جنرل پر ڈال رہا ہے اور اپنی کارکردگی پر سوالات اٹھائے۔

چیئرمین ایف بی آر نے اپنے افسران کو 1000 گاڑیاں اور چار گنا تک تنخواہوں میں اضافہ دیا ہے، اس امید پر کہ ٹیکس مشینری بہتر کارکردگی دکھا کر 14.13 کھرب روپے کا اصل ہدف پورا کر لے گی۔

وزیراعظم نے ایف بی آر کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ریفنڈ جاری کرنے کی ہدایت کی، تاہم ایف بی آر نے وزارتِ خزانہ سے فنڈز مانگے جو وزارت نے مسترد کر دیے۔

وزیراعظم آفس کے سرکاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے ایف بی آر کو 11 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کے ہدف کے حصول کی کوششیں تیز کرنے کی ہدایت کی۔

وزیراعظم نے کسٹمز ڈپارٹمنٹ کی ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے کلیئرنس ٹائم کم کرنے پر تعریف کی اور درآمدات و برآمدات کی کلیئرنس مزید کم کرنے کی ہدایت دی۔

وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں کو بھی ٹیکس چوری اور غیر قانونی فیکٹریوں کے خلاف ایف بی آر کی مدد جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ بتایا گیا کہ حالیہ دنوں میں بڑی مقدار میں غیر قانونی سگریٹس ضبط کی گئی ہیں۔

Load Next Story