آئی ایم ایف پروگرام میں کوئی نئی شرائط شامل نہیں، وزارت خزانہ کی تردید
وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت جاری اصلاحات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں شامل اقدامات کوئی نئی یا اچانک عائد کی گئی شرائط نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا تسلسل ہیں۔
اس حوالے سے وزارت خزانہ نے اتوار کو جاری کردہ اپنے اعلامیہ میں آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت طے شدہ اصلاحاتی اقدامات کے پس منظر، تسلسل اور مرحلہ وار نوعیت کو بیان کیا۔
اعلامیے میں واضح کیا ہے کہ نئی شرائط سے تعبیر کیے جا رہے اقدامات نہ تو اچانک عائد کیے گئے ہیں اور نہ ہی غیر متوقع ہیں، بلکہ یہ حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے شدہ درمیانی مدت کی اصلاحاتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جن میں سے کئی اصلاحات خود حکومتِ پاکستان کی جانب سے شروع کی جا چکی ہیں۔
آئی ایم ایف کا ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی پروگرام رکن ممالک کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ درمیانی مدت میں ایسی ساختی اصلاحات نافذ کریں جن کے ذریعے طے شدہ پالیسی اہداف حاصل کیے جا سکیں، یہ اصلاحات کسی ایک مرحلے میں نہیں بلکہ پورے پروگرام کے دوران مرحلہ وار انداز میں نافذ کی جاتی ہیں۔ اسی اصول کے تحت (ای ایف ایف) پروگرام کے تحت اقدامات کو منطقی مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
وزارت خزانہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ہر جائزے کے ساتھ نئے اقدامات شامل کیے جاتے ہیں تاکہ پروگرام کے آغاز میں طے شدہ حتمی اہداف کو بتدریج حاصل کیا جا سکے، یوں آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرے جائزے کے بعد طے پانے والا میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) پہلے جائزے کے ایم ای ایف پی کا تسلسل ہے اور اسے مکمل کرتا ہے۔
اسی طرح، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران حکومتِ پاکستان اپنی مجوزہ اصلاحاتی پالیسیاں بھی پیش کرتی ہے۔ جہاں اور جب آئی ایم ایف یہ سمجھتا ہے کہ حکومت کی یہ اصلاحات ای ایف ایف کے طے شدہ اہداف کے حصول میں مددگار ہوں گی، انہیں ایم ای ایف پی کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حالیہ ایم ایف ایف پی میں شامل کئی ساختی اقدامات وہی ہیں جو حکومتِ پاکستان پہلے ہی شروع کر چکی تھی یا جن پر کام جاری تھا۔
اسی تناظر میں میڈیا میں زیر بحث مبینہ ’’نئی شرائط‘‘ کے حوالے سے درج ذیل حقائق کو مد ںطر رکھنا ضروری ہے۔ سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کے گوشواروں کی اشاعت کا معاملہ ای ایف ایف پروگرام کے آغاز یعنی مئی 2024 سے ہی ایم ای ایف پی کا حصہ رہا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق موجودہ ساختی ہدف دراصل سول سرونٹس ایکٹ 1973 میں ترمیم کے بعد اگلا منطقی قدم ہے، جو پہلے ہی کامیابی سے مکمل ہو چکا ہے اور گزشتہ جائزوں میں حکومت اس بات پر پہلے ہی متفق ہو چکی تھی کہ نیب کی مؤثر کارکردگی اور دیگر تحقیقاتی اداروں خصوصاً صوبائی اینٹی کرپشن اداروں کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنایا جائے گا۔
وزارت خزانہ نے واضح کیا کہ زیادہ خطرات سے دوچار اداروں کے لیے ایکشن پلان کی تیاری اسی تسلسل کا حصہ ہے اور یہ اقدام گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ سے پہلے ہی طے شدہ اصلاحات کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے کہنا ہے کہ صوبائی اداروں کو بدعنوانی کے مالیاتی پہلوؤں کی تحقیقات کے لیے مالی معلومات فراہم کرنا اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام (اے ایم ایل/سی ایف ٹی) سے متعلق اصلاحات کا حصہ ہے، جو ای ایف ایف پروگرام کے آغاز سے شامل ہیں۔ ترسیلاتِ زر پاکستان کے بیرونی مالی استحکام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
اعلامیہ کے مطابق غیر رسمی ذرائع کی حوصلہ شکنی کے بعد، مالی سال 2025 میں ترسیلاتِ زر میں مالی سال 2024 کے مقابلے میں 26 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ مالی سال 2026 میں 9.3 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ حکومتِ پاکستان اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر ترسیلاتِ زر کی لاگت کم کرنے کے لیے رکاوٹیں دور کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کے ان اقدامات کو مزید مضبوط بناتے ہوئے ایم ای ایف پی میں شامل کیا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق مئی 2025 میں جاری کردہ آئی ایم ایف اسٹاف رپورٹ میں سرمایہ کاروں کی تعداد بڑھانے کے لیے مقامی بانڈ مارکیٹ میں رکاوٹوں کا جامع مطالعہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی، جسے اب ایک ساختی ہدف کے طور پر پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح، شوگر سیکٹر میں اصلاحات حکومتِ پاکستان کا اپنا اقدام ہے۔ وزیراعظم آفس نے وزیرِ توانائی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو شوگر مارکیٹ کی مکمل آزاد کاری اور صوبوں کی مشاورت سے قومی پالیسی کی سفارشات تیار کر رہی ہے۔ چونکہ یہ اقدام ای ایف ایف کے اس مقصد سے ہم آہنگ ہے جس کے تحت اجناس کی منڈیوں میں حکومتی مداخلت کم کی جا رہی ہے اس لیے آئی ایم ایف نے اسے ایم ای ایف پی کا حصہ بنایا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے لیے جامع اصلاحاتی روڈ میپ متعارف کروایا گیا ہے اور ایف بی آر میں اصلاحات حکومت کے وسیع تر ریونیو بڑھانے کے ایجنڈے کا حصہ ہیں جس کی قیادت خود وزیراعظم کر رہے ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں ٹرانسفارمیشن پلان کی منظوری، ٹیکس پالیسی آفس کا قیام اور کمپلائنس رسک مینجمنٹ میں بہتری جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ ساختی ہدف انہی اصلاحات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہے۔ ٹیکس پالیسی آفس کے قیام کے بعد، ٹیکس پالیسی اور ایف بی آر کے عملی امور کو الگ کرنا ایک بڑا قدم تھا، اب درمیانی مدت کی ٹیکس اصلاحاتی حکمتِ عملی کی تیاری اسی عمل کا فطری تسلسل ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈیسکوز) کی نجکاری سی ایف ایف پروگرام کے آغاز سے ہی شامل ہے اور اسے مرحلہ وار انجام دیا جانا ہے، حیسکو اور سیپکو کے لیے نجی شعبے کی شمولیت کی شرائط کو حتمی شکل دینا پہلے مرحلے کے بعد اگلا قدم ہے۔
اسی طرح، سات بڑے اداروں کے ساتھ پبلک سروس آبلیگیشن معاہدے بھی پہلے سے طے شدہ اقدامات کا تسلسل ہیں۔
وزارت خزانہ کے مطابق ریگولیٹری اصلاحات اور کاروباری ماحول میں بہتری کیلئے کمپنیز ایکٹ 2017 میں غیر لسٹڈ کمپنیوں کے لیے تعمیل کو مضبوط بنانے کی ترامیم کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کی وسیع اصلاحات کا حصہ ہیں جو ای ایف ایف پروگرام کے آغاز سے شامل ہیں۔
اسی طرح ایس ای زیڈ ایکٹ میں ترامیم سے متعلق تصوراتی نوٹ، پہلے کیے گئے اسپیشل اکنامک زونز جائزہ مطالعے کا اگلا مرحلہ ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ریونیو میں کمی کی صورت میں متبادل اقدامات کے تناظر میں آمدنی میں ممکنہ کمی کی صورت میں متبادل اقدامات ایم ایف ایف پی کا مستقل حصہ رہے ہیں۔ مئی 2024 سے ابتدائی ایم ایف ایف پی میں بھی کھاد اور زرعی ادویات پر پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی متعارف کرانے کا ساختی ہدف شامل تھا۔
وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ تازہ ایم ایف ایف پی میں شامل اقدامات حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے شدہ اصلاحاتی ایجنڈے کا فطری تسلسل ہیں جو مرحلہ وار انداز میں ملک کے معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے نافذ کئے جا رہے ہیں اور انہیں اچانک یا غیر متوقع نئی شرائط سے تعبیر کرنا حقائق سے بے خبری کے مترادف ہے۔