پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح
مجھے حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی، جب کوئی بیوی، بیٹی یا بہن اپنے ماں باپ کے ساتھ میرے چیمبر میں آتی ہے اور پہلے وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں اور پھر جب انہیں یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اب آفس میں صرف وکیل اور وہ ہیں تو پھر آہستہ آہستہ وہ بتلاتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو طلاق چاہیے۔
بہت سے کیسز میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شادی تو بہت دھوم دھام سے اور سب کی شراکت داری سے ہوئی تھی مگر سب سے اہم نکتہ یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا کہ لڑکا اور لڑکی جنہیں ہم اس بندھن میں باندھ رہے ہیں، ان میں لچک اور برداشت کا مادہ کس حد تک ہے اور کیا انہیں ایک دوسرے کی شکلیں بھی پسند ہیں یا ان میں ذہنی ہم آہنگی کا کوئی امکان ہے بھی؟
کیونکہ یہ بات تو والدین کے علم میں ہوتی ہے جو میرے حساب سے انہیں پہلے ایک دوسرے سے بیان کر دینی چاہیے یا جب پہلے مرحلے میں ایک نشست ہوتی ہے تو اس کے بعد خاندان کے فیملی ممبرز ایک دوسرے کے نسب و نسل اور معاشی حالات سے زیادہ مرکزی کرداروں کی معلومات لیں تو آنے والے بہت سے مسائل سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ کئی زندگیوں کو خراب ہونے سے بچایا بھی جا سکتا ہے۔ اور اگر شادی کے بعد مسائل پیدا ہو بھی جائیں تو والدین کو فریقین کو بٹھا کر انہیں اچھی طرح سننے کے بعد اگر انہیں یہ محسوس ہوکہ بہت کچھ سنگین اور خوفناک نوعیت کا ہے اور کسی ایک کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ہو تو پھر طلاق ہی بہترین حل ہے۔ کیونکہ آخر قدرت نے یہ آپشن رکھا بھی تو ہے۔
یہ سب باتیں مجھ سے ایک ایڈووکیٹ نے کی تھیں۔ جن کے پاس کچھ عرصہ سے فوجداری سے زیادہ فیملی کیسز آ رہے تھے۔ منہ مانگی فیسز مل رہی تھیں لیکن اب اس کی توانائی زیادہ تر خلع کے کیسز پر ہی لگ رہی تھی جس کا ایک سا ہی فارمیٹ ہوتا تھا اور یہ اس کے لیپ ٹاپ میں محفوظ تھا جس پر بس نام ہی تبدیل کیا یا ایک آدھ سطر ڈیلیٹ کردی یا پھر شامل کردی اور بس فائل تیار اور عدالت میں پیش۔ اور مختصر وقت میں ایک خوبصورت رشتے کا وجود بھک سے اڑ جاتا تھا۔
ہمارے عدالتی نظام میں الگ سے فیملی کورٹس فعال ہیں جو تیزی سے فیملی کیسز کو حل کرتی ہیں اور ان میں وہ تاریخ پر تاریخ والا سین نہیں چلتا۔
پاکستان میں یہ عدالتیں 1961 کے ایک آرڈیننس کے تحت خصوصی طور پر قائم کی گئی تھیں۔ ان کا بنیادی مقصد ہی فیملی کیسز جن میں طلاق (مرد کو حق حاصل ہے کہ وہ رشتہ ختم کردے)، خلع (اگر رشتہ برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے اور شوہر بیوی کو آزاد نہ کرے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بذریعہ فیملی کورٹ مکمل طور پر اس رشتہ کو ختم کروا سکتی ہے)، حق المہر (بوقت نکاح شوہر بیوی کو اس کی مرضی کے مطابق مخصوص رقم یا جائیداد دینے کا پابند ہوتا ہے جس کی ادائیگی اس پر فرض ہے اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو بیوی فیملی کورٹ سے اس کے خلاف دعوی دائر کرسکتی ہے اور اپنا حق لے سکتی ہے)، نان و نفقہ (بیوی اور بچوں کو ضروریات زندگی جیسے روٹی، کپڑا، مکان و روز مرہ کے اخراجات شوہر کی ذمے داری ہے، اگر وہ ایسا جان بوجھ کرمہیا نہیں کرتا ہے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیملی کورٹ میں دعویٰ دائر کرے)، سامان واپسی جہیز، بچوں کی حوالگی و ملاقات، میاں بیوی کے حقوق و فرائض کا توازن (دعویٰ اعادہ حقوق زن شوئی، اس میں اگر بیوی شوہر کے لئے مسائل پیدا کرتی ہے تو شوہر عدالت سے مدد طلب کر سکتا ہے ایسے میں عدالت یہ حکم صادر کرتی ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ گھر بسائے تاہم اگر عورت ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو عدالت اسے مجبور نہیں کر سکتی) کو قوانین کی چھتری تلے تحفظ دینا ہے۔
میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا سب سے خوبصورت ترین رشتہ ہے لیکن اگر ناہموار ہوجائے اور اس میں پیچیدگیاں بڑھتی جائیں تو یہ بہت بھیانک ثابت ہوتا ہے اور اذیت کا باعث بن جاتا ہے اور اگر اس میں اولاد بھی شامل ہوجائے تو اسے بھی اس کی بھاری قیمت دینا پڑتی ہے۔ تاہم اگر میاں بیوی کو یہ یقین ہو کہ ان کا ایک ساتھ رہنا تقریباً ناممکن ہے تو بہتر ہے کہ وضع داری اور عزت احترام کے ساتھ ایک دوسرے کو چھوڑ دیں۔
ہمارا معاشرہ ابھی گھٹن زدہ ہے اور طلاق یا خلع کو براہ راست عورت یا مرد کے کردار پر ایک دھبہ تصور کرتا ہے۔ تاہم ہم کم ازکم اگلی نسل کی تربیت میں یہ تو شامل کریں کہ عورت اور مرد جب میاں بیوی بنتے ہیں اور ان میں نباہ ناممکن ہوجائے اور دونوں ایک دوسرے کےلیے نا قابل برداشت ہوجائیں تو ایک وضع داری اور احترام سے اپنا اپنا راستہ الگ کرلیں، نہ کہ عدالتوں میں یا ایک دوسرے کے گھروں میں جاکر یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک دوسرے پر کیچڑ اور غلیظ الزامات کی بوچھاڑ کریں۔
مجھے ایک اور ایڈووکیٹ کی اس بات میں بھی سچائی دکھائی دیتی ہے کہ اس کے چیمبر میں آکر بس یہی جملہ دہرایا جاتا ہے کہ طلاق چاہیے اور کبھی کسی نے آکر جو مرکزی وجوہات ہوتی ہیں وہ بیان نہیں کیں، جیسے ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا، مزاج کا نہ ملنا، عادات و فطرت کا اختلاف، ناپسند سے شادی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے سارے وکلا اپنے کلائنٹس سے نکاح نامہ، فہرست سامان جہیز، شناختی کارڈ اور ایک دو سفید کاغذات پر انگوٹھے و دستخط لے کر اپنے منشی کو فائل تیار کرنے کو دیتے ہیں، جو عدالتوں میں کمپوزنگ ٹائپنگ شاپ پر جاتا ہے اوروہ ٹائپسٹ کمپیوٹر میں پہلے سے محفوظ کوئی سا بھی خلع یا طلاق کا دعویٰ کھولتا ہے ،بس اوپر نام بدلتا ہے اور نیچے وہی الزامات ایک ٹرینڈ یا ہیش ٹیگ کی طرح چل رہے ہوتے ہیں کہ مار پیٹ کرتا ہے، خرچ نہیں دیتا، کردار پر الزامات اور شک کرتا ہے اور نباہ ممکن نہیں ہے اور مدعیہ (بیوی) مدعا علیہ (شوہر) کے ساتھ رہنے کے بجائے موت کو ترجیح دے گی اور خلع کا دعویٰ دائر۔
ایک نے تو کمال کردیا۔ اس کا الزام جو مجھے نیا لگا وہ یہ تھا کہ میرا شوہر اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ کا پاسورڈ مجھے نہیں دے رہا اور خود تو برانڈڈ کوٹ سوٹ پہنتا ہے اور جب میں برانڈز کی ڈیمانڈ کروں تو کہتا ہے کہ پیسے تو گھر میں لگ جاتے ہیں، گھر کا خرچہ بہت ہے، بجلی کا بل بہت آگیا اور مہنگائی کا رونا رونے لگتا ہے۔ وہ مجھے اپنے موبائل، لیپ ٹاپ اور ای میل کا پاسورڈ نہیں دے رہا اور ہماری اس بات پر کئی دفعہ لڑائی بھی ہوئی ہے۔ کیا مجھے عدالت سے انصاف مل سکتا ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔