کائنات،کاسموس اور خالق (آخری حصہ)

ہر تخئیل سے ماورا ہے تو،ہر تخئیل میں ہے مگر موجود ترا ادراک غیر ممکن ہے عقل محدود تو ہے لا محدود

barq@email.com

ازل اور ابد کا سلسلہ۔کہاں سے کہاں تک؟ نامعلوم۔گویا انسانی استطاعت سے باہر۔اس لیے کہ انسان جزو ہے اور جزو کے لیے کُل کا ادراک ممکن نہیں ہے۔اس ضمن میں طبعیات والوں کا کہنا ہے کہ کائنات میں نہ آغاز ہے نہ انجام نہ فنا ہے نہ بقا۔کیونکہ یہ سارا نظام’’دائروں‘‘ میں ہے یعنی ہر چیز گولائی میں چلتی ہے اور جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں پر جاکر ختم ہوتی ہے کیونکہ دائرے میں ابتدا اور انتہا نہیں ہوتی۔کوئی بھی چیز فنا نہیں ہوتی صرف شکل بدلتی ہے اس سلسلے میں غالب کا معرکتہ الارا شعر ہے اور میں حیران ہوں کہ اس شخس کا ذہن کیا تھا جس کا نام مرزا اسداللہ خان غالب تھا شعر ہے

نظر میں ہے ہماری جادہ راہ فنا غالب

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

دورسرا اس سے بھی زیادہ حیران کن شعر پڑھ لیجیے

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

یعنی اس عالم رنگ و بو کا ’’دوسرا قدم‘‘ کہاں ہے یہ تو ایک ’’نقش پا‘‘ ہے

نقش پا سے صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص اس راستے پر ’’اس طرف‘‘ سے آیا ہے اور اس طرف گیا۔یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون تھا کہاں سے آیا تھا اور کہاں جارہاتھا یا گیا ہے اور یہ بھی کہ

ہر چند ہر اک شے میں تو ہے

پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے

خیر اس ذکر کو یہیں چھوڑ دیتے کہ وہ بھی کہتے ہیں

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

خیر اپنے موضوع پر آتے ہیں کائنات اورا س کی ہر چیز’’دائروی‘‘ اور گولائی میں ہے یعنی اس میں کہیں بھی آغاز اور انجام یا ابتدا اور انتہا نہیں ہے۔ پانی سمندر سے بھاپ بن کر اٹھتا ہے۔بادل بنتا ہے بارش ہوتی ہے پھر وہ پانی بہہ کر سمندر میں پہنچتا ہے اور پھر اسی دائروی سفر پر روانہ ہوتا ہے اگر کسی زمین میں جذب ہوتا ہے یا کسی مخلوق کے وجود میں ٹھہرتا ہے تو وہ بھی آخر کار جب وہ وجود مٹی میں مل جاتا ہے تو زیر زمین جاتا ہے لیکن وہ آخر کار کنووں چشموں ٹیوب ویلوں یا سیم کی شکل میں نکل کر اس سفر میں مل جاتا ہے۔یہاں ایک اور بڑی اور حیران کن چیز ہمیں دکھائی دیتی ہے۔

بارش کے اس صاف شفاف پانی کو مخلوقات (زیادہ تر انسان) گندہ کرتی ہے، اپنی غلاظت اس میں شامل کرتی ہے لیکن سورج اسے فلٹر کرکے غلاظت سمندر میں چھوڑتا ہے اور پانی کو پھر بھاپ بناکر شفاف کردیتا یے یوں ہم سمندروں کو دنیا کے’’فلٹر‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔اسی طرح اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں اس گول دائروی سفر کا پتہ دیتی ہیں۔ ’’بیج‘‘ پھوٹتا ہے شاخیں نکالتا ہے لیکن ایک دن اسی بیج پر ختم ہوجاتا ہے۔ زندہ مخلوقات بھی ایک قطرہ سے پیدا ہوتی ہیں اور اسی قطرے کو آگے بڑھا کر ختم ہوجاتی ہیں۔ دیکھیے تو بگ بینگ کے ’’ذرے‘‘ کو بھی ہم ایک بیج سمجھ سکتے ہیں جو پھوٹتا ہے پھیلتا ہے اور پھر اسی بیج میں چلتا رہتا ہے۔لیکن اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ اگر دائروی کائنات بھی دائروی ہے اور ہماری اس کائنات کے علاوہ اور بھی بے شمار کائناتیں ہوسکتی ہیں تو یہ سب کچھ جہاں ہوتا ہے وہ کیا ہے؟وہ خلا وہ مقام۔جسے اب سائنس دانوں نے ’’کاسموس‘‘ کا نام دیا ہے وہ کہاں سے کہاں تک ہے۔

ایک اور پہلو سے بھی دیکھتے ہیں یہ تو اب سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ یہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد گھومتی ہے اس اصول کے تحت جسے آئزک نیوٹن نے گریوٹی یا کشش ثقل کا نام دیا ہے کہ اس زمین اور دوسرے بھی کئی سیاروں کو سورج اپنی طرف کھینچ رہا ہے لیکن دوسری طرف خلا میں اور بھی کئی وجود اسے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں وہ سورج سے بڑے ہیں لیکن دور ہیں اس لیے دونوں بلکہ چاروں اطراف کی کشش برابر ہوگئی ہے اور ’’فی فلک یسجون‘‘۔لیکن وہ بڑے وجود یا سورج بھی آزاد نہیں، ہر سورج اپنی کہکشاں کا اسیر ہوتا ہے اور اس کے گرد ہے۔

چنانچہ ہمارا یہ سورج کہکشاں کے گرد اپنا چکر بیس ہزار سال میں مکمل کرتا ہے اپنے خاندان سمیت۔یہ تو کچھ اندازہ ہوگا کہ یہ کائنات اور کاسموس کیاہے۔لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ آسمان کیا ہے کیونکہ آسمان بھی ویسا نہیں جیسا سمجھا جاتا ہے اوپر تلے اور کسی عمارت کی منزلوں کی طرح سات آسمان۔ اگر آسمان ہمارے سر کے اوپر ہے تو اس گول دنیا کی دوسری طرف  کھڑے ہو کے دیکھیں تو کیا اوپر بھی آسمان ہے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے ہر طرف آسمان ہے۔تو پھر آسمانوں کے بعد کیا ہے؟۔گویا ہر طرف،ہر پہلو،ہر زاویے سے دیکھیے تو سب کچھ لامحدود۔اور انسان ہر لحاظ سے محدود۔ذہن سے، جسم سے، عمر سے، رسائی سے ایک ذرہ بے مقدار۔تو لامحدود کا ادراک محدود کر ہی نہیں سکتا۔اب سوال یہ کہ یہ سب کچھ خود بخود ہے یا اس کے پیچھے کوئی نہایت ذہین ہستی کارفرما ہے۔

اس کی تفصیل کے لیے تو آپ کو میری کتاب’’وحدت الوجود بگ بینگ اور خالق‘‘ پڑھنا پڑے گی لیکن مختصر طور پر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ اس ہستی یا سپریم پاور کا ادراک بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے اور اس کے لیے بہتر ہے کہ جتنا اس کی سمجھ میں آجائے اتنا اس کے لیے کافی ہے۔ چار اندھوں نے جتنا’’ہاتھی‘‘ پایا تھا وہ بھی ہاتھی تھا۔لیکن پورا ہاتھی نہیں تھا

ہر تخئیل سے ماورا ہے تو،ہر تخئیل میں ہے مگر موجود

ترا ادراک غیر ممکن ہے عقل محدود تو ہے لا محدود

Load Next Story