جعلی دستاویزات اور حکومتی ذمے داری

سعودی عرب نے رواں سال 24 ہزار پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں واپس بھیجا

چیئرمین آغا رفیع اللہ کی زیر صدارت منعقدہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمندرپار پاکستانیز کے اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے نے پاکستانیوں کو آف لوڈ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مسافروں کو آف لوڈ کرنے کا فیصلہ دستاویزات، دستیاب ڈیٹا اور آن لائن ویریفیکیشن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

آف لوڈ کیے گئے مسافروں کے پاس اکثر اپنے کورس، یونیورسٹی یا ملازمت سے متعلق مکمل اور مستند معلومات موجود نہیں ہوتیں، متعدد کیسز میں مسافر ایجنٹس کے ذریعے نامکمل یا غلط معلومات کے ساتھ بیرون ملک سفر کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث انھیں روکا جاتا ہے،رواں سال سعودی عرب نے 24 ہزار، دبئی نے چھ ہزار جب کہ آذربائیجان نے اڑھائی ہزار پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے کے الزامات پرڈی پورٹ کیا، کمیٹی کو بتایا گیا کہ متعدد افراد عمرے کے نام پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ محکمے کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ 118 سے بہتر ہو کر 92 نمبر پر آ گئی ہے۔

دوسری جانب تارکین وطن کے عالمی دن کے موقع پر کمشنر اوورسیز پاکستانی کمیشن پنجاب ثمن رائے نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی وطن عزیز کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے ایک کروڑ سے زائد افراد بیرون ملک میں موجود ہیں اور پاکستان سے مائیگریشن تیزی سے جاری ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے پاکستانی معیشت کے لیے 38 ارب ڈالر کی ترسیلات کی ہیں۔

  روزگار، تعلیم، بہتر مستقبل اور معاشی استحکام کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے کا رجحان پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کوئی نئی بات نہیں۔ دہائیوں سے لاکھوں پاکستانی خلیجی ممالک، یورپ، امریکا، مشرقِ بعید اور دیگر خطوں کا رخ کرتے آ رہے ہیں۔

یہ وہی تارکینِ وطن ہیں جو نہ صرف اپنے خاندانوں کا سہارا بنتے ہیں بلکہ قومی معیشت کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلاتِ پاکستان آتی ہیں، جن سے زرمبادلہ کے ذخائر سنبھلتے ہیں، کرنسی کو سہارا ملتا ہے اور معاشی پہیہ چلتا ہے۔ مگر افسوس کہ انھی روشن حقائق کے ساتھ ساتھ ایک تاریک اور شرمناک پہلو بھی مسلسل ابھر کر سامنے آ رہا ہے، جو پاکستان کی عالمی ساکھ، قومی وقار اور پاسپورٹ کی حرمت کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے رفعت مختار کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمندرپار پاکستانیز کو دی جانے والی بریفنگ کئی حوالوں سے تشویشناک ہے۔

رواں سال بیرونِ ملک جانے والے 85 لاکھ افراد میں سے 51 ہزار افراد کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر آف لوڈ کیا جانا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر نظام میں سنگین خرابیاں موجود ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ صرف سعودی عرب نے رواں سال 24 ہزار پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں واپس بھیجا، جب کہ مجموعی طور پر اب تک 56 ہزار پاکستانی شہری اسی جرم میں سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہو چکے ہیں۔ دبئی، آذربائیجان اور دیگر ممالک سے بھی ہزاروں پاکستانیوں کی واپسی اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہم بطور قوم کس سمت جا رہے ہیں۔ بھیک مانگنا محض ایک فرد کا ذاتی فعل نہیں رہتا، بلکہ بیرونِ ملک یہ پورے ملک کی شناخت بن جاتا ہے۔

جب کسی پاکستانی کو کسی غیر ملکی ریاست میں گداگری کے الزام میں گرفتار یا ڈی پورٹ کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی پاکستان کا پرچم، اس کا پاسپورٹ اور اس کی قومی شناخت بھی سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے یہ وضاحت کہ مسافروں کو آف لوڈ کرنے کا فیصلہ دستاویزات، دستیاب ڈیٹا اور آن لائن ویریفیکیشن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، بظاہر ایک انتظامی وضاحت ہے، مگر اس کے پیچھے چھپے المیے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔

یہ حقیقت کہ اکثر مسافروں کے پاس اپنے کورس، یونیورسٹی یا ملازمت سے متعلق مکمل اور مستند معلومات نہیں ہوتیں، ہمارے تعلیمی، سماجی اور معاشی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ ایجنٹوں کے ذریعے غلط یا نامکمل معلومات کے ساتھ بیرون ملک جانے کی کوشش دراصل ایک پورے مافیا کی نشاندہی کرتی ہے، جو غریب اور نادان شہریوں کے خوابوں کا سودا کرتا ہے۔پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ کا 118 سے بہتر ہو کر 92 پر آنا بلاشبہ ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر یہ بہت نازک اور عارضی کامیابی ہے۔ اگر بھیک مانگنے، جعلی ویزوں، انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی ہجرت کا یہ سلسلہ نہ رکا تو یہ رینکنگ دوبارہ تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔

اس سارے معاملے کا ایک اور نہایت حساس اور اہم پہلو بھی ہے، جسے نظر انداز کرنا قومی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ خلیجی ممالک سمیت دنیا کے مختلف خطوں سے جب دہشت گردی یا دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد پکڑے جاتے ہیں اور ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ برآمد ہوتا ہے، تو پاکستان عالمی سطح پر بدنام ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک، بالخصوص امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے افغانوں کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

ایسے میں یہ اطلاعات سامنے آنا کہ بڑی تعداد میں افغان شہری جعلی یا غیر قانونی طریقوں سے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر کے دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں، نہایت خطرناک ہے۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ متعلقہ اداروں میں ماضی میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے باعث ہزاروں، بلکہ لاکھوں غیر ملکیوں کو پاکستانی شناختی دستاویزات جاری ہوئیں۔ ان میں سے کئی افراد جرائم، منشیات، دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ جب ایسے افراد بیرونِ ملک گرفتار ہوتے ہیں تو دنیا یہ فرق نہیں کرتی کہ وہ اصل میں افغان ہیں یا کسی اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ وہ انھیں پاکستانی شہری سمجھ کر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔

لہٰذا اب وقت آ چکا ہے کہ محض جذباتی بیانات یا وقتی اقدامات سے آگے بڑھ کر سنجیدہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائی جائے۔ ڈی پورٹ ہونے والے ہر فرد کے نادرا ریکارڈ کی مکمل جانچ ہونی چاہیے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ وہ واقعی پاکستانی شہری ہے یا جعلی دستاویزات کے ذریعے پاکستانی شناخت حاصل کرنے والا کوئی غیر ملکی۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی افغان یا کسی اور ملک کا شہری جعلی پاسپورٹ پر بیرونِ ملک گیا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ وہ سرکاری اہلکار بھی قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں جنھوں نے یہ دستاویزات جاری کیں۔

دوسری جانب یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو نہ صرف میزبان ممالک میں چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے بلکہ وطن عزیز میں بھی انھیں بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ تارکین وطن کے عالمی دن کے موقع پر کمشنر اوورسیز پاکستانی کمیشن پنجاب ثمن رائے کے بیانات ایک مثبت امید کی کرن ہیں۔

ان کا یہ کہنا کہ اوورسیز پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ ایک کروڑ سے زائد پاکستانیوں کا بیرونِ ملک ہونا اور 38 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اگر یہ سلسلہ رک جائے تو ملکی معیشت کو کتنا بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔لیکن افسوس کہ انھی اوورسیز پاکستانیوں کو وطن میں جائیداد پر قبضوں، سرمایہ کاری کے مسائل، مالی فراڈ اور عدالتی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیرونِ ملک قانونی مسائل، امتیازی سلوک اور سماجی دباؤ کے ساتھ ساتھ جب وطن میں بھی انھیں عدم تحفظ کا احساس ہو تو ان کی وابستگی کمزور پڑنے لگتی ہے۔

اوورسیز پاکستانی کمیشن پنجاب کی جانب سے پچاس ہزار سے زائد شکایات پر کام کرنا ایک حوصلہ افزا قدم ہے، مگر یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسائل کی نوعیت کتنی وسیع اور سنگین ہے۔ کیا یہ وقت نہیں آ گیا کہ ہجرت کے پورے نظام کو ازسرِنو ترتیب دیا جائے؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ ایجنٹ مافیا، جعلی تعلیمی اداروں، بوگس اسپورٹس کلبوں اور جعلی دستاویزات بنانے والوں کے خلاف بے رحم کارروائی کی جائے؟ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ انھیں بھیک مانگنے یا غیر قانونی راستے اختیار کرنے کی نوبت نہ آئے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فرد کی اپنی اخلاقی ذمے داری بھی ہوتی ہے۔ کوئی بھی معاشی تنگی اس بات کا جواز نہیں بن سکتی کہ انسان اپنے ملک کی عزت کو داؤ پر لگا دے۔

بیرونِ ملک جا کر بھیک مانگنا محض غربت کا مسئلہ نہیں بلکہ تربیت، اقدار اور سماجی رویوں کا بحران بھی ہے۔اب وقت آ چکا ہے کہ پاسپورٹ کے اجرا سے لے کر ایئرپورٹس پر امیگریشن، بیرونِ ملک سفارت خانوں کی نگرانی، نادرا کے ڈیٹا اور ایف آئی اے کی تحقیقات سب کو ایک مربوط، شفاف اور ڈیجیٹل نظام کے تحت لایا جائے۔ ہر شہری کی بیرونِ ملک روانگی کا مقصد واضح، دستاویزی اور قابلِ تصدیق ہونا چاہیے۔

جو لوگ محنت اور صلاحیت کے بل پر جانا چاہتے ہیں، ان کے لیے راستے آسان کیے جائیں، اور جو قانون توڑنا چاہتے ہیں، ان کے لیے زمین تنگ کر دی جائے۔پاکستان کی عزت صرف ایوانوں میں تقاریر سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بحال ہوگی، اگر ہم نے آج اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو کل دنیا ہمیں ایک محنت کش قوم نہیں بلکہ ایک مسئلہ زدہ، غیر ذمے دار اور بدنام معاشرے کے طور پر دیکھے گی۔ یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہے کہ ہم اپنے پاسپورٹ کو عزت کی علامت بنانا چاہتے ہیں یا شرمندگی کا استعارہ۔

Load Next Story