نریندر مودی کی مسلم دشمنی : چند تازہ وارداتیں

سمبر1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد شہید کی گئی تھی اور6دسمبر2025 ہی کو مرشد آباد میں نئی بابری مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے

آدمی جب 10بار اسمبلی کا رکن اور کئی بار وزیر اعلیٰ منتخب ہو جائے تو اُس کا دماغ بھی خراب ہو جاتا ہے اور اُس کا ذہنی توازن بھی بگڑ جاتا ہے ۔ یہی حال75سالہ نتیش کمار کا ہے ۔ موصوف بھارتی صوبہ بہارکے وزیر اعلیٰ ہیں ۔

دس بار بہار اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں اور کئی بار وزیر اعلیٰ۔ ابھی حال ہی میں ریاستِ بہار میں ہونے والے انتخابات میں نتیش کمار اور نریندر مودی کی اتحادی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہُوئی ہے۔ مگر15دسمبر2025 کو صوبہ بہار کے دارالحکومت، پٹنہ، میں بد تمیز ، بیہودہ اور متعصب ہندو وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ایک مسلمان خاتون ڈاکٹر (نصرت) سے جو غیر پارلیمانی سلوک کیا ہے، سارا ہندوستان اِس پر شرمندہ ہو گیا ہے ۔

ایک سرکاری تقریب میں نتیش کمار فارغ التحصیل نوجوانوں میں تقرر نامے تقسیم کررہے تھے ۔ اُن کے سامنے جب مسلمان خاتون ، ڈاکٹر نصرت، اپنا اپوائنٹمنٹ لَیٹر وصول کرنے آئیں تو ہندو بنیاد پرست وزیر اعلیٰ، نتیش کمار ، نے مسلمان خاتون کا حجاب نفرت سے کھینچ کر اُتار دیا ۔ یہ منظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو کر اب ساری دُنیا میں وائرل ہو چکا ہے اور نتیش کمار پر لعنتیں بھیجی جا رہی ہیں ۔ بھارتی کانگریس نے تو موصوف وزیر اعلیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔

حیرانی اور بداخلاقی کا حال یہ ہے کہ نتیش کمار جب یہ بیہودہ اور دل آزار حرکت کے مرتکب ہو رہے تھے، ساتھ کھڑے صوبائی چیف سیکرٹری اور صوبائی وزرا قہقہے لگا رہے تھے ۔ یہ واقعہ بی بی سی کے ساتھ ساتھ جملہ بھارتی اخبارات نے بھی تفصیل سے رپورٹ کیا ہے ، مگر بد تہذیب ہندو وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو شرم آئی ہے نہ اُنھوں نے مذکورہ مسلمان خاتون ڈاکٹر اور20کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں سے معذرت ہی کی ہے ۔  

نتیش کمار کو نریندر مودی، آر ایس ایس اور بی جے پی نے (19نومبر2025 کو) ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بنایا ہے ۔ گویا15دسمبر کو ڈاکٹر نصرت سے جو بیہودہ حرکت نتیش کمار نے کی ہے، اجتماعی طور پراس کے ذمے دار مودی اور بی جے پی بھی ہیں ۔ تینتیس سال قبل بھارتی ریاست، اُتر پردیش، میں واقع ایودھیا کی صدیوں پرانی بابری مسجد کی شہادت کی ذمے دار بھی بی جے پی ہی تھی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارتی ، پاکستانی اور عالمِ اسلام کے مسلمانوں نے دل پر پتھر رکھ کر سوچا تھا کہ بھارتی بنیاد پرست اور مقتدر ہندو بھارت میں مزید مساجد کو شہید کرنے کی جرأت و جسارت نہیں کریں گے ۔

لیکن مسلمانوں کی یہ اُمید پوری نہیں ہو سکی ہے۔33 سال قبل شہید کی گئی 464 سالہ قدیم بابری مسجد کی یاد میں اب بھارتی مسلمانوں نے مغربی بنگال کے مشہور شہر ’’مرشد آباد‘‘ میں ، بابری مسجد ہی کے ہو بہو ڈیزائن پر، نئی مسجدکا سنگِ بنیاد رکھا ہے تو بی جے پی ایک بار پھر بھڑک اُٹھی ہے ۔ نریندر مودی کی مقتدر پارٹی کے منتخب عہدیدار نئی بابری مسجد کے خلاف زبان درازیاں کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر 7دسمبر2025ء کو اُتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ( کشیب پرشاد موریا) نے ’’جھانسی ‘‘ شہر میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے یوں زہر افشانی کی:’’ نئی مسجد بنانے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، لیکن اگر کسی نے مغل حکمران، بابر، کے نام پر نئی مسجد تعمیر کرنے کی جسارت کی تو یاد رکھئے ہم اسے بھی یقیناً مسمار(شہید) کر دیں گے ۔‘‘

مرشد آباد میں نئی بابری مسجد کا سنگِ بنیاد مسلمان رہنما ، ہمایوں کبیر، نے رکھا ہے ۔ چونسٹھ سالہ ہمایوں کبیر سابق پولیس افسر ہیں اور کئی برسوں سے مغربی بنگال اسمبلی کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ آج کل وہ مغربی بنگال کی مشہور سیاسی جماعت ’’ترنمول کانگریس‘‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ ’’بھرت پور‘‘ سے منتخب ہُوئے تھے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ، ممتا بینر جی ،ہیں۔ ممتا بینر جی اور نریندر مودی میں خاصی مخاصمت اور مخالفت پائی جاتی ہے ۔ ممتا بینر جی مغربی بنگال کے مسلمانوں میں بھی خاصی مقبول ہیں ۔ شائد ایک وجہ یہ ہے کہ مغربی بنگال (جہاں مسلمانوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد ہے) میں مسلمانوں کو نسبتاً زیادہ مذہبی آزادیاں حاصل ہیں، لیکن نئی بابری مسجد کے سنگِ بنیاد رکھے جانے پر وہ بھی مغربی بنگال کے مسلمانوں کے خلاف بھڑک اُٹھی ہیں ۔ گویا بھارتی آوے میں سارے متعصب ہندوؤں کا پورا آوا ہی بگڑا پڑا ہے ۔

6دسمبر1992 کو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد شہید کی گئی تھی اور6دسمبر2025 ہی کو مرشد آباد میں نئی بابری مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ اور ’’دی ہندو‘‘ ایسے معروف بھارتی اخباروں کا دعویٰ ہے کہ مرشد آباد کی نئی بابری مسجد کے لیے ایک کروڑ 33لاکھ روپے اکٹھے ہو چکے ہیں ۔ یہ رقم بھارتی مسلمانوں کے چندوں سے وصول ہُوئی ہے ۔ سنگِ بنیاد رکھتے وقت مرشد آباد میں فساد کی کیفیت تھی ۔

بھارتی ہندو ، بی جے پی کی ایما پر، بپھر گئے تھے اور اعلان کررہے تھے کہ یہ مسجد ہر گز نہیں بننے دیں گے ۔ بی جے پی کلکتہ ہائیکورٹ میں مسجد کے خلاف اسٹے لینے بھی چلی گئی تھی، مگر عدالت نے اسٹے تو نہیں دیا ، بس یہ کہہ دیا:’’ فساد پیدا نہیں ہونا چاہیے ، اور حالات پُر امن رہیں۔‘‘ اِسی فساد کے ڈر سے مذکورہ مسجد کے آس پاس4ہزار پولیس بھی تعینات کر دی گئی تھی ۔ ہمایوں کبیر کو سنگِ بنیاد رکھنے کی یہ سزا دی گئی ہے کہ اُن کی پارٹی نے اُن کی رکنیت معطل کر دی ہے ۔ حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے بھی غیر متوقع طور پر ہمایوں کبیر کی یہ کہہ کر سرزنش کی ہے:’’ آپ نے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھ کر اچھا نہیں کیا۔ یہ قدم اُٹھا کر آپ نے دراصل نریندر مودی اور بی جے پی کی خواہش پوری کی ہے کہ مغربی بنگال میں بد امنی پھیلے اور ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑک اُٹھے۔‘‘ اگلے ماہ مغربی بنگال میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی تو ہیں۔اور ممتا بینر جی کو اپنے ووٹوں کی فکر ہے ۔

 مغربی بنگال میں بی جے پی کے مشہور ہندو لیڈر، سخاروف سرکار، نے مرشد آباد میں نئی بابری مسجد کے قریب ہی ایک خالی پلاٹ میں بی جے پی کے ہزاروں کارکنوں اور سیوکوں کی معیت میں 6دسمبر 2025 ہی کو ’’بھومی پوجا‘‘ کی تقریب رکھ دی ۔ اِس کٹڑ ہندو مذہبی تقریب کا مقصد اور ہدف یہ تھا کہ ’’مرشد آباد ہی میں ہم ، نئی بابری مسجد کے مقابل ، رام لیلا مندر کے ہو بہو ڈیزائن کا نیا مندر تعمیر کریں گے‘‘ ۔ یاد رہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد شہید کرکے، بابری مسجد ہی کی جگہ پر ، جو مندر تعمیر کیا گیا ہے، اسے ’’رام لیلا مندر‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، اور اُن کی مقتدر پارٹی (بی جے پی) نے بھارتی مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے اِسی پر بس نہیں کی ، بلکہ وہ مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے آگے ہی آگے قدم بڑھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مودی حکومت نے بھارتی ریاست ، راجھستان، میں واقع ایک مشہور مسلمان صوفی درگاہ کے آس پاس کئی عمارات کو ’’تجاوزات‘‘ قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے ۔ تقریباً آٹھ سو سالہ قدیم یہ درگاہ و مزار شریف برصغیر کے مشہور صوفی بزرگ ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، کی ہے : وہی خواجہ معین الدین چشتی ؒ جنھوں نے صدیوں قبل متحدہ ہندوستان میں لاکھوں ہندوؤں کو مشرفِ اسلام کیا ۔ 6نومبر2025 کو جب مودی حکومت اور راجھستان حکومت بلڈوزرز لے کر مذکورہ درگاہ شریف سے متصلہ کئی عمارات( جن میں صدیوں پرانی تین تاریخی مساجد بھی ہیں) شہید کرنے پہنچ گئی تھیں ، عین اُس وقت ’’درگاہ خواجہ صاحب‘‘ کے چیف خادم، سید معراج میاں، نے متعلقہ عدالت کے دروازے پر شنوائی کی درخواست دائر کی۔

مقامی اعلیٰ عدالت میں کیس مناسب انداز میں اور فوری نہ سنا گیا تو سید معراج میاں نے دہلی ہائیکورٹ کے دروازے پر دستک دی ۔ دہلی ہائیکورٹ کے جج ، جسٹس ساچن دَتّا، نے بھی کوئی خاص حکم جاری کرنے کی بجائے ہندوؤں کی خوشنودی کے لیے، اب9دسمبر کو، ایک نام نہاد کمیٹی بنانے کا حکم صادر کر دیا ہے۔ مگر درگاہ خواجہ شریف کے خدام، متولیوں اور بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیٹی بنانے کا حکم محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے ۔

Load Next Story