کیا حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا؟

اس ضمن میں خود حماس کا مؤقف بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو اصل فریق معاملہ ہے

farooq.adilbhuta@gmail.com

حماس کو غیر مسلح کرنے میں کون تعاون کرے گا؟ یہ سوال پاکستان میں بھی توجہ پا رہا ہے۔ عالمی ذرایع ابلاغ میں اس ضمن میں کچھ تجزیہ نما رپورٹیں آئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ امتحان کا وقت ہے۔

کچھ دن ہوتے ہیں، نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان حماس کو غیر مسلح کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ ان کے بیان کے دو مزید نکات بھی قابل توجہ تھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان ایسی کسی کوشش کا حصہ کبھی نہیں بنے گا جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنے کے علاوہ اس کی مزاحمتی طاقت کو ختم کرنا ہو۔ دوسری بات انھوں نے ایک اعلان کی صورت میں اصول کے طور پر بیان کی کہ پاکستان کسی جائز امن فورس کا حصہ بن سکتا ہے تاہم حماس کو غیر مسلح کرنے اور اس کی مزاحمتی قوت ختم کرنا ایسی کسی فورس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اس ضمن میں خود حماس کا مؤقف بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو اصل فریق معاملہ ہے۔حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان سے اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے کہ پاکستان کو اس کام پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے ملک کو کئی سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ (پاکستان کے سوا بھی) کئی ایسے ممالک ہیں جو ایسا کر سکتے ہیں۔

غزہ میں جنگ بندی کے لیے جو معاہدہ ہوا ہے، اس موقع پر حماس نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ کسی قوت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گی البتہ یہ کام فلسطینی حکومت کے سامنے کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور حماس کے مؤقف میں بہت حد تک مماثلت ہے۔ ایسی صورت میں فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ سے آنے والے ایام میں ممکنہ یا متوقع ملاقات کے ضمن میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ فلسطین اور غزہ کے ضمن میں حکومت پاکستان کی واضح پالیسی کے باوجود کچھ خدشات محسوس کیے جاتے ہیں تو اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب ایک مفروضہ ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ امریکا ایک ایسی طاقت ہے جس کے سامنے انکار کرنے کی صلاحیت کوئی نہیں رکھتا۔ خاص طور پر صدر ٹرمپ کے سامنے تو یہ بالکل ہی ممکن نہیں۔ یہ خدشہ بہت حد تک درست ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ پیچیدہ بین الاقوامی معاملات کو سمجھنے اور اندازہ لگانے کے لیے دو جمع دو کا کلیہ زیادہ کارآمد نہیں ہوتا، اس مقصد کے لیے دستیاب مواقع اور تاریخ و روایت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حالیہ تاریخ اس ضمن میں ہماری راہ نمائی جس انداز میں کرتی ہے، وہ دلچسپ بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔

صدر ٹرمپ سے فیلڈ مارشل کی پہلی ملاقات بھی چونکا دینے والی تھی۔ اس موقع پر بھی کچھ ایسے اندازے ہی سامنے آئے تھے جیسے اب آ رہے ہیں۔ سب سے مقبول اندازہ یہی تھا کہ اب پاکستان ایران کے حوالے سے امریکا کا دست و بازو بن جائے گا۔ کیا ایسا ہوا؟ اس سوال کا جواب ہمیں ایران سے حاصل کرنا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر ادارہ فروغ قومی زبان کے مدار المہام ہیں۔ وہ جب سے اس ادارے کے سربراہ بنے ہیں، اسلام آباد کی علمی اور تہذیبی فضا میں برقی رو دوڑ گئی ہے جس کے لیے وہ بجا طور پر تعریف کے مستحق ہیں۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اسی ادارے کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی اقبال کانفرنس منعقد ہوئی جس سے ایران کے سفیر آقائے رضا امیری مقدم نے صدارتی خطاب کیا۔ انھوں نے اس موقع پر کہا کہ اسرائیل کے ساتھ بارہ روز کی جنگ میں پاکستان واحد ملک تھا جو ایران کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑا رہا۔ اس پر ہم پاکستان کے صرف شکر گزار نہیں، اس کی قیادت کی دست بوسی کرتے ہیں اور پاکستانی قوم کے سامنے عقیدت سے سر جھکاتے ہیں۔

حالیہ ایران اسرائیل جنگ کے موقع پر پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون کی کیا صورتیں رہی ہوں گی، اس راز سے تو دونوں ممالک کی قیادت واقف ہو گی لیکن جو بات سمجھ میں آتی ہے، یہ ہے کہ اس مرحلے پر پاکستان نے جس سفارتی حکمت سے کام لیا اس کے نتیجے میں ایران پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی اور یہ جنگ کسی بڑے المیے کو جنم دینے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ پاکستان کا یہی کردار تھا جس پر ایران پاکستان کا شکر گزار ہوا اور امریکا کے ماتھے پر بھی شکن نہیں آئی۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کتنی بہترین اور مؤثر ہے، اس کا اظہار ایسے واقعات سے ہی ہوتا ہے۔

جن دنوں غزہ میں جنگ بندی کی بات ہو رہی تھی، اس موقع پر بھی پاکستان کے ممکنہ کردار کے بارے میں کچھ اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن اس موقع پر بھی پاکستان نے بہترین سفارتی چابک دستی کا مظاہرہ کیا۔ اس نازک موقع پر پاکستان کو سعودی عرب اور ترکیہ جیسے دیگر ہم خیال مسلمان ملکوں کا تعاون حاصل تھا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ غزہ امن معاہدہ مثالی تھا اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا ہے لیکن یہ تو بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں غزہ میں کی جانے والی بدترین خون ریزی کا خاتمہ ہوا ہے۔

وہ غزہ جہاں سے ملنے والی لاشوں کا شمار ممکن نہیں تھا، اب اسی غزہ میں ہنستے مسکراتے فلسطینی خوشیاں مناتے اور عرب موسیقی کی روح پرور تانوں کے شور میں شادی کی تقریبات سجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنگ زدہ غزہ کو آج کے غزہ تک لانے میں پاکستان کے کردار کو کوئی ستم ظریف ہی نظر انداز کر سکتا ہے۔ پاکستان کا یہ کردار ہے جس کی روشنی یہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ فیلڈ مارشل کی ڈونلڈ ٹرمپ سے مجوزہ ملاقات کے نتائج کیا ہوں گے۔

اس ملاقات میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، اس بارے میں فی الحال تو اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں لیکن غزہ کے زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو مایوسی پر مبنی خدشات کا امکان زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں ۔ پہلی اور بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ موجودہ ماحول میں حماس کو غیر مسلح کرنے پر پوری مسلم دنیا بالاتفاق آمادہ نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان ملک حماس کو غیر مسلح نہیں کرنا چاہتا تو پاکستان یا کوئی اور مسلم ملک یہ کام تنہا کیسے کر سکتا ہے؟

اس ضمن میں پہلا سوال تو یہ ہے، اسی سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ خواہ کتنے ہی زور آور کیوں نہ ہوں، وہ پاکستان کو تنہا اس کام پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بندی کی طرح یہ بھی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے بڑی بھرپور سرگرمی کی ضرورت ہے جس میں حماس سمیت تمام فریق اطمینان محسوس کریں۔ میرا اندازہ ہے کہ مجوزہ ملاقات میں اسی جانب پیش قدمی ہو گی اور پاکستان کے سرنگوں ہونے کے تمام اندازے بلکہ بدگمانیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔

Load Next Story