ڈی این اے

ڈے این اے میں میوٹیشن کے ذریعے تبدیلی کا عمل نہایت سست رفتار ہوتا ہے

اب پراسرار ڈی این اے کے حوالے سے مزید کچھ بات ہو جائے۔ انسان کے بارے میں جو سائنسی معلومات ہیں اگر اس پر ایک کتاب لکھی جائے تو اس کتاب کی کتنی ضخامت ہوگی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ایک سائنسدان نے کام کیا جن کا نام ہے ریکارڈو سباتینی یہ کمپویٹیشن جینٹک پر کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم ایک چھوٹے بچے کی باڈی کے تمام ایٹم کی انفارمیشن جمع کرنا چاہتے ہیں اور اس کا ڈیٹا USBمیں جمع کریں تو ہمیں اتنی UBS چاہیے ہونگی جس سے ٹائٹینک جیسے 2000بحری جہاز بھر جائیں۔ ڈاکٹر ریکارڈو کے مطابق انفارمیشن کا بلڈنگ بلاک انسان اور جانوروں کی لائف میں ایک جیسا ہے۔ ڈی این اے سب سے پہلے 1950میں دریافت ہوا جب کہ ڈی این اے کے اسٹریکچر کو سیل سے نکالنے میں ہی 40برس لگ گئے۔

اس کو پڑھنا آسان نہیں ہے۔ 1953میں ہی سائنسدان روزلین فرینکلن نے ایکسرے ڈیفلیکشن کے ذریعے اس کے اسٹریکچر کو جان لیا۔ اس کے بعد ہی ہمیں پتہ چلا کہ ڈی این اے کا اسٹرکچر کیا ہے اور اس کی بنیادیں کیا ہیں۔ جب اس کو ریکارڈ کیا گیا تو ہمارے پاس 130والیوم کی کتابیں بنیں جن کے صرف صفحات ہی 2,62,000بنتے ہیں جب کہ اس میں صرف ایک انسان کی انفارمیشن موجود ہے۔ یہ بیسز چار قسم کی ہوتی ہیں۔ ان کو سادہ زبان میں ATGCکہا جاتا ہے۔

یہ چارنائٹروجن ہیں جن کے ذریعے ہمارے جسم کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلتا ہے ڈی این اے ہماری شکل و صورت کے بارے میں بتاتا ہے۔ ہماری آنکھوں کا رنگ، سر کے بالوں کا رنگ، ہمارا بلڈ گروپ، ہمارے قد کے بارے میں بتاتا ہے۔ غور فرمائیں خون کے صرف ایک قطرے سے مجرم تک پہنچا جا سکتا ہے اس کی تصویر اور چہرہ سامنے آجاتا ہے ۔اس کے ذریعے مجرم کے جنس وزن عمر کے بارے میں تقریباً صحیح بتایا جا سکتا ہے۔ یعنی انسان کی ساخت کے بارے میں خون کا صرف ایک قطرہ کافی ہے۔ یہاں تک کہ اسی خون کے ایک قطرے کے ذریعے ہمیں دس سے پندرہ سال پہلے ہونے والی بیماریاں کا پتہ چل سکتا ہے۔

ڈے این اے میں میوٹیشن کے ذریعے تبدیلی کا عمل نہایت سست رفتار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں میں مائی ٹو کونڈریل کی بہت کم ورائٹی پائی جاتی ہے۔ کل ملا کر انسانوں کی آٹھ ارب کی آبادی میں سات اقسام ہیں۔

جنھیں L0سے لے کرL6کا نام دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساتوں قسمیں ہمیں افریقہ کی مختلف آبادیوں میں مل جاتی ہیں۔ لیکن افریقہ سے باہر تمام غیر افریقی انسان یعنی تمام ایشین یورپین آسٹریلین اور امریکن لوگ مائی ٹو کونڈریل کے صرف ایک گروپ L3سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس سے یہ بات دوبارہ ثابت ہوتی ہے کہ ہوموسپین کا آغاز افریقہ میں ہوا۔ L3گروپ کو مزید 19چھوٹے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کل ملا کر مائی ٹوکونڈریل کے 25بڑے گروپ ہیں۔ یہ دراصل انسانوں کی 25نسلیں ہیں۔ مائی ٹوکونڈریل کا نظم صرف ماؤں سے چلتا ہے۔ یعنی ماؤں کے حساب سے تمام دنیا کے انسان کل 25نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام گروپس آپس میں رشتہ دار ہیں۔ جنھیں ایک فیملی ٹری میں جوڑا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مائی ٹو کونڈریل ڈے این اے کی تمام قسمیں صرف ایک ٹائپ کے ڈی این اے کی پیداوار ہیں۔ بالکل اس طرح جس طرح تمام قسم کے آم ایک جنگلی آم کی قسم سے پیدا ہوئے۔ بالکل اسی طرحL0سے L6تک تمام قسم کے مائی ٹو کونڈریل ڈی این اے ایک ہی Lٹائپ کی Varitionہے۔ اور Lہپلوگروپ کی وہ خاتون جس کے ایگ سیل میں میوٹیشن کے ذریعےL0ٹائپ کا مائی ٹوکونڈریل ڈی این اے بنا تو وہ خاتون ہم سب انسانوں کی Most Recent Motherہیں۔

یہ وہ خاتون ہیں جنھیں مائی ٹوکونڈریل EVE(حوا) کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور کروموزوم میں بھی کراسنگ کا عمل نہیں ہوتا یہ کرومو زومYکہلاتا ہے۔ یہ میل سیکس کروموزوم ہے جو صرف مردوںمیں پایا جاتا ہے اور نسل در نسل باپ سے بیٹوں میں منتقل ہوتا ہے۔ وہ انسان جس کے سپرم میں میوٹیشن کے ذریعے Yکروموزوم کا آغاز ہوا تھا وہ انسان آج زمین پر موجود تمام 8ارب انسانوں کا باپ ہے۔ ڈی این اے میں ایک میوٹیشن تقریباً8ہزار سال بعد واقع ہوتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق۔ اس طرح ہم باآسانی حساب کر سکتے ہیں کہ اگر تمام میوٹیشن کے دورانیہ کو جمع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مائی ٹوکانڈریل EVE(حوا) کا زمانہ آج سے 2لاکھ سال پہلے کا ہے۔ اور Yمرد کروموزوم ایڈم (آدم) کا زمانہ آج سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے کا بنتا ہے۔ آج صرف ایک ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ انسان کی مختلف نسلوں کے آغاز کب اور کہاں سے ہوا۔

Load Next Story