پرائیویٹ لمیٹڈ بمقابلہ پبلک لمیٹڈ
اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ یہ تحریر پاکستان یا دنیا کے کاروباری اداروں کے متعلق ہے تو آپ کا خیال بالکل غلط ہے کیونکہ یہ تحریر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے متعلق ہے۔
آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پرائیویٹ اور پبلک لمیٹڈ ادارے تو کمپنیز آرڈیننس کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ان کے قیام، انتظام اور کارکردگی کی نگرانی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے تحت کی جاتی ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹر ہوتی ہیں اور اسی کے بنائے ہوئے قوانین اور ضابطہ اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتی ہیں تو پھر یہ تحریر سیاسی جماعتوں کے متعلق کیسے ہوسکتی ہے؟
پاکستان میں تمام چھوٹی سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ ادارے کی طرح کام کرتی ہیں اور تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک پبلک لمیٹڈ ادارے کی طرح کام کرتی ہے کہ جس کے اکثریتی حصص، میرا مطلب ہے کہ جس کے تمام یا زیادہ تر طاقتور عہدے ایک ہی خاندان یا ایک ہی گروہ کے پاس ہوتے ہیں۔ اب اس بات کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ کونسی سیاسی جماعت چھوٹی ہے؟ اور کونسی سیاسی جماعت بڑی ہے؟
یوں سمجھ لیجیے کہ جو سیاسی جماعت کسی گلی، محلے، علاقے یا کسی ایک شہر تک محدود ہوں تو وہ پرائیویٹ لمیٹڈ ہے اور اگر کوئی سیاسی جماعت ایک سے زائد شہر، پورے صوبے، یا ایک سے زائد صوبے یا پورے ملک میں موجود ہوں تو وہ پبلک لمیٹڈ ہے اور یہ ان کی بنیادی تعریف و تشریح ہیں۔
تمام پرائیویٹ لمیٹڈ سیاسی جماعتوں میں ایک سیٹھ ہوتا ہے جو اپنے لیے چئیرمین یا قائد کا عہدہ منتخب کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ منتخب ہے یا مقرر کردہ کیونکہ وہ ایک حقیقت کی طرح ہوتا ہے۔ وہ چئیرمین یا قائد اس لیے ہوتا ہے کہ وہ لمیٹڈ کمپنی کا تمام یا زیادہ تر خرچہ اٹھاتا ہے اور یہی اس کی بنیادی اور واحد قابلیت ہوتی ہے۔ ویسے وہ کبھی کبھی خود کےلیے خادم کا لقب بھی استعمال کرتا ہے لیکن دیگر خادمین سے خود کو ممتاز کرنے کےلیے خادم کے ساتھ ’اعلیٰ‘ بھی لگاتا ہے تاکہ دیگر خادمین کو کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہ ہوں۔ اس کی جماعت میں سیاسی کارکن اور عہدیداروں کا تقرر ملازمین کی طرز پر کیا جاتا ہے لیکن باقاعدہ تقرر نامے نہیں دیئے جاتے لیکن ہر ملازم میرا مطلب ہے ہر کارکن کو اپنی ذمداریوں کا پتہ ہوتا ہے۔ اختیارات کا منبع سیٹھ صاحب یا چئیرمین کی ذات ہوتی ہے، باقی لوگ عوام ہوتے ہیں کہ جس کےلیے آپ چاہے تو اپنی پسند کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ وہی حقیقت ہوتی ہے۔
تمام پبلک لمیٹڈ سیاسی جماعت میں بھی ایک چئیرمین یا قائد ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا مگر طاقتور گروہ بھی ہوتا ہے۔ اس گروہ کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یا تو سب کے نام کے آخر میں یا حرکتوں میں ایک ہی نام یا لفظ آتا ہے۔ نام کے آخر میں لفظ ہونے والوں کو حرکتوں والوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ حرکتیں عام طور پر غیر صوتی ہوتی ہے اور نام ایک واضح اعلان ہوتا ہے۔ حرکتوں والوں کو نام نہ ہونے کا بہت قلق ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کی سیاسی حیثیت کو متاثر کرتا ہے اور وہ اس کا الزام اپنے خاندان کی خواتین کو دیتے ہیں اور کچھ خواتین ہی کی وجہ سے اپنے عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں۔
چونکہ پرائیویٹ لمیٹڈ سیاسی جماعت ہوتی ہے اس لیے اس میں محلاتی سازشیں بہت ہوتی ہے اور آپ کے اپنے دوست اور خیرخواہ بھی آپ کو گرا کر آپ کے عہدے پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ عموماً یہ نوکری چوبیس گھنٹوں میں چھبیس گھنٹے کرنی پڑتی ہے تاکہ آپ اپنے عہدے پر قائم رہ سکے لیکن پھر بھی کوئی بات یقینی نہیں ہوتی کیونکہ سیٹھ صاحب کے باقی اعضاء چاہے کتنے ہی پکے کیوں نہ ہوں، کان عموماً کچے رہ جاتے ہیں۔
دونوں قبیل کی سیاسی جماعتوں میں باورچی خانے کی کابینہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے دنوں میں مختلف ہوتی ہیں۔ ویسے تو حکمران جماعت کی کابینہ عموماً مستقل ہوتی ہے اور ان کےلیے سیاسی جماعتوں کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے، قید صرف حزب اختلاف کےلیے ہوتی ہے اسی لیے سمجھدار لوگ کبھی بھی حزب اختلاف میں نہیں ہوتے ہیں اور حزب اقتدار میں ہی رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف ہمارے ملک میں ہوتا ہے، تمام ترقی پذیر ممالک کی یہی کہانی ہے بلکہ اگر آپ سچی بات پوچھیں تو ترقی یافتہ ممالک کی بھی یہی کہانی ہے بس ان کا اسکرپٹ اور اداکاری کا معیار ہم سے بہت زیادہ اچھا ہوتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ سب پڑھ کر اب آپ کو بھی یقین آگیا ہوگا کہ ہمارے ملک میں یا دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ پرائیویٹ اور پبلک لمیٹڈ ادارے ہوتے ہیں جو ملک اور دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں اور جس میں کاروباری لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اپنے سرمائے کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دیتے ہیں۔ یہ ان دو مواقع میں سے ایک موقعہ ہے کہ جب یہ محاورہ لفظی، معنوی اور تکنیکی تینوں اعتبار سے پورا اترتا ہے۔ دوسرا موقعہ کونسا ہوتا ہے یہ میں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔
آخر میں کہانی لکھنے کے بجائے صرف اس کا آخری جملہ ہی کافی ہے کیونکہ کہانی سب کی پڑھی یا سنی ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے اگر ابھی بھی آپ کو سیاسی جماعتوں کے پرائیویٹ یا پبلک لمیٹڈ ہونے پر کوئی ابہام ہوگا تو اس جملے کے بعد تو یقیناً دور ہوجائے گا۔ جملہ یہ ہے کہ: ’پاوے سارا گاؤں مرجائے پر تو چوہدری نئیں بننا‘۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔