عارضی بہتری یا مستقل حل؟ پنجاب میں اسموگ کی شدت میں کمی کے اسباب پر سوالات

بہتری کو صرف حکومتی اقدامات سے منسوب کرنا سائنسی طور پر درست نہیں، تجزیہ کار

فوٹو: لاہور

لاہور:

پنجاب میں اسموگ کی شدت میں کمی کے اسباب پر کئی سوالات پیدا ہو رہے ہیں   کہ کیا یہ عارضی بہتری ہے یا حکومت نے مستقل حل کے اقدامات کیے ہیں؟۔

لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں 2025 کے دوران اسموگ کی صورتحال گزشتہ برس کے مقابلے میں قدرے بہتر رہی، تاہم ماہرین ماحولیات اور آزاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بہتری کو صرف حکومتی اقدامات سے منسوب کرنا سائنسی طور پر درست نہیں، کیونکہ موسمی حالات نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔

پنجاب حکومت کے مطابق رواں برس اسموگ سے نمٹنے کے لیے بروقت اور جامع حکمت عملی اپنائی گئی۔

سینئر وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف کارروائیاں، صنعتی یونٹس میں فلٹرز اور اسکرابرز کی تنصیب، گاڑیوں کے اخراج کی جانچ، فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی، تعمیراتی سرگرمیوں سے گرد و غبار پر کنٹرول اور اینٹی اسموگ اسکواڈز کے قیام جیسے اقدامات کیے گئے، جن کے نتیجے میں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں فضائی معیار بہتر ہوا۔

دوسری جانب ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اسموگ کی شدت کا انحصار صرف انسانی سرگرمیوں پر نہیں بلکہ موسمی عوامل پر بھی ہوتا ہے۔ رواں سیزن کے دوران تیز ہواؤں، ہلکی بارش اور درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کے باعث درجہ حرارت کے الٹاؤ (ٹمپریچر انورژن) میں کمی آئی، جس سے اسموگ زمین کے قریب جمع نہ ہو سکی۔

جامعہ پنجاب کے ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مطابق اسموگ کا سیزن عموماً اکتوبر کے آخر سے دسمبر کے وسط تک رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں برس ہوا کی رفتار اور رخ نسبتاً بہتر رہا، جس کی وجہ سے اسموگ گزشتہ برس جیسی شدت اختیار نہ کر سکی۔ بعض علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس 500 تک ریکارڈ ہوا، تاہم تیز ہواؤں نے پی ایم 2.5 جیسے مضر ذرات کو منتشر کرنے میں مدد دی۔

آزاد محققین کے مطابق چند دنوں میں ایئر کوالٹی میں بہتری کے باوجود لاہور مجموعی طور پر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل رہا۔

ماحولیاتی وکیل رفاعی عالم کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر، پرانی ڈیزل گاڑیاں، صنعتی اخراج، اینٹوں کے بھٹے اور کچرا جلانے جیسے بڑے ذرائع میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ نومبر 2024 اور 2025 میں شدید اسموگ کی لہروں میں کمی کی بنیادی وجہ سازگار موسمی حالات تھے، نہ کہ حکومتی اقدامات، جبکہ مجموعی فضائی معیار میں نمایاں فرق دیکھنے میں نہیں آیا۔

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے مطابق گاڑیوں کا دھواں اور ناقص معیار کا ایندھن اسموگ کی بڑی وجوہات ہیں۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے کہا کہ اسموگ گنز جیسے اقدامات وقتی اور محدود فائدہ دے سکتے ہیں، مگر دیرپا حل کے لیے صاف ایندھن، سخت اخراجی معیارات اور مؤثر عملدرآمد ناگزیر ہے۔

پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کی رپورٹ کے مطابق رواں برس اسموگ کی شدت میں کچھ کمی ضرور آئی، تاہم صورتحال اب بھی غیر تسلی بخش رہی۔ نومبر کے دوران فضائی معیار مسلسل “انتہائی مضر صحت” کی سطح پر رہا اور قومی ماحولیاتی معیار ہر روز تجاوز کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کے باعث پاکستانیوں کی اوسط عمر میں 3.9 سال کی کمی ہو رہی ہے اور سالانہ تقریباً ایک لاکھ 28 ہزار قبل از وقت اموات اس سے منسلک ہیں۔ لاہور میں سالانہ اوسط پی ایم 2.5 کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی ہدایات سے 22 گنا زیادہ رہی، جس کے نتیجے میں شہریوں کی اوسط عمر میں سات سال تک کمی کا خدشہ ہے۔

رپورٹس کے مطابق نومبر کے ایک ہفتے میں میو اسپتال میں 6,500، جناح اسپتال میں 5,000 جب کہ سروسز اور جنرل اسپتال میں تقریباً 4,000، 4,000 مریض اسموگ اور فضائی آلودگی سے متاثر ہو کر لائے گئے۔ نومبر کے دوران متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار کے لگ بھگ بتائی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات نے جزوی مدد ضرور فراہم کی، تاہم موجودہ بہتری کو مکمل حکومتی کامیابی قرار دینا درست نہیں۔ ان کے مطابق اصل امتحان آنے والے برسوں میں ہو گا، جب یہ واضح ہو سکے گا کہ آیا پنجاب حکومت فضائی آلودگی کی بنیادی وجوہات کو سائنسی اور ساختی اصلاحات کے ذریعے مستقل طور پر حل کر پاتی ہے یا نہیں۔

Load Next Story