افغان پالیسی ساز ہوش کے ناخن لیں

کابل کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان جیسے ایٹمی ملک کو کسی کے ایما پر دباؤ میں لانا ناممکن ہے

پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات اس وقت ایک ایسے تضاد کا شکار ہیں جہاں ایک طرف دہائیوں کی میزبانی ہے اور دوسری طرف کابل کے وزرا کے زہریلے بیانات۔

افغانستان کی موجودہ قیادت شاید اس خام خیالی اور دانستہ بھول کا شکار ہے کہ وہ عالمی فورمز پر پاکستان مخالف بیانیہ بیچ کر یا دشمن ممالک سے پینگیں بڑھا کر اسلام آباد کو مرعوب کرلے گی۔ کابل کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان جیسے ایٹمی ملک کو کسی کی ایما پر دباؤ میں لانا ناممکن ہے، بلکہ ایسی کوششیں خود افغانستان کے لیے ’سیاسی خودکشی‘‘ کے مترادف ہیں۔

حالیہ مہینوں میں افغان وزرا کے نئی دہلی اور دیگر دارالحکومتوں کے دورے محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی معلوم ہوتے ہیں۔ وہاں جاکر پاکستان کی سلامتی کے خلاف لب کشائی کرنا اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنا دراصل ’’آستین میں سانپ پالنے‘‘ کے مترادف ہے۔

افغانستان کے اربابِ اختیار یہ بھول رہے ہیں کہ سمندر سے محروم یعنی لینڈ لاکڈ ملک ہونے کے ناتے ان کی معیشت اور بقا کی شہ رگ پاکستان کے راستوں سے جڑی ہے۔اس تناظر میں وہ اپنے شمالی ہمسایوں سے سلوک اور تعلقات کو بھی ذہن میں رکھے اور اپنی احسان فراموشی جو کہ عالمی سطح پر زباں زد عام ہے اس پر بھی کچھ توجہ دے۔ 

اس وقت کابل کا سب سے بڑا تضاد افغان مہاجرین کی واپسی پر ان کا رویہ ہے۔ دہائیوں تک پاکستان نے لاکھوں افغانوں کو اپنی آغوش میں پناہ دی، انہیں تعلیم، روزگار اور چھت فراہم کی۔ اب جب پاکستان اپنے ملکی مفاد اور سیکیورٹی کی خاطر غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو باعزت طریقے سے ان کے اپنے ملک واپس بھیج رہا ہے، تو کابل کے حکمرانوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔

یہ کیسی منطق ہے کہ ایک طرف آپ پاکستان کو دشمن قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اپنے ہی شہریوں کو اپنے وطن میں خوش آمدید کہنے سے کتراتے ہیں؟ مہاجرین کی واپسی پر کابل کی یہ چیخ و پکار دراصل ان کی اس نااہلی کا اعتراف ہے کہ وہ اپنے عوام کو اپنے ملک میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

دنیا گواہ ہے کہ جب عالمی برادری نے افغانستان سے منہ موڑ لیا تھا، تو وہ پاکستان ہی تھا جس نے اقوامِ متحدہ کی اپیل پر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر خوراک اور ادویات کی ترسیل کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود افغان بھائیوں کے لیے گندم اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کو یقینی بنایا۔

زمینی حقیقت: کابل کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر پاکستان محض اپنی سرحدوں پر مکمل پابندی عائد کردے، تو افغانستان میں زندگی کا پہیہ جام ہوجائے گا۔ ایندھن، خوراک اور تجارت کےلیے پاکستان پر انحصار کرنے والا ملک اگر محسن کشی پر اتر آئے، تو اسے ’’جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا‘‘ ہی کہا جائے گا۔

افغانستان کی بقا دشمنوں کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو دھمکانے میں نہیں، بلکہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے میں ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ حقِ ہمسائیگی ادا کیا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ کابل بھی اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرے۔ اگر کابل کی قیادت نے اپنی روش نہ بدلی اور پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، تو سرحدی بندشیں اہل افغانستان کی زندگیوں کو داؤ پر لگا سکتی ہیں۔ کابل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ہمسایے بدلے نہیں جاسکتے‘‘، اور پاکستان سے دشمنی مول لے کر وہ اپنے ہی عوام کا مستقبل تاریک کررہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story