ڈگری یافتہ بے روزگار نوجوان: ایک خاموش قومی بحران

ملک میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 9.1 فیصد ہے

نوجوان کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہی نوجوان مستقبل کی قیادت، معیشت اور فکری سمت کا تعین کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج پاکستان کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگاری کا شکار ہے۔

ڈگری یافتہ بے روزگار نوجوان نہ صرف معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے بلکہ ذہنی دباؤ، مایوسی اور عدمِ تحفظ کی کیفیت میں بھی مبتلا ہے۔ یہ مسئلہ اب محض فرد کا نہیں رہا بلکہ ایک سنگین قومی بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان میں ہر سال لاکھوں نوجوان یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ڈگریاں حاصل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، مگر ملازمتوں کے محدود مواقع ان کے خوابوں کو چکنا چور کر دیتے ہیں۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق ملک میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 9.1 فیصد ہے، جبکہ گریجویٹ نوجوانوں میں یہ شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل صورتحال سرکاری اعداد و شمار سے بھی زیادہ تشویشناک ہے، کیونکہ بڑی تعداد میں نوجوان مایوسی کے باعث روزگار کی تلاش ہی ترک کر چکے ہیں۔

تعلیم کو ہمیشہ کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا ہے۔ والدین اپنی جمع پونجی بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ڈگری انہیں باعزت روزگار فراہم کرے گی۔ مگر جب یہی ڈگری یافتہ نوجوان سالہا سال نوکریوں کے لیے در بدر ٹھوکریں کھاتے ہیں تو ان کا اعتماد ٹوٹنے لگتا ہے۔

ایک تلخ قول ہے:
’’جب تعلیم روزگار نہ دے سکے تو ڈگری کاغذ کا ایک ٹکڑا بن جاتی ہے۔‘‘

ڈگری یافتہ بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ ہمارا غیر متوازن تعلیمی نظام ہے۔ یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں گریجویٹس تو پیدا کر رہی ہیں، مگر انہیں مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مہارتیں فراہم نہیں کی جاتیں۔ نتیجتاً ایک طرف ہزاروں نوجوان بے روزگار ہیں، اور دوسری طرف صنعتیں ہنرمند افرادی قوت کی کمی کا شکوہ کرتی ہیں۔ یہ خلا ہماری پالیسی سازی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

عالمی ادارۂ محنت (ILO) کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں نوجوانوں کی بے روزگاری ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے، اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیم اور روزگار کے درمیان واضح فرق موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تین میں سے ایک نوجوان یا تو بے روزگار ہے یا اپنی صلاحیتوں سے کم درجے کا کام کرنے پر مجبور ہے۔

اس مسئلے کا ایک اور پہلو سماجی دباؤ ہے۔ ہمارے معاشرے میں روزگار کو عزت اور خودمختاری سے جوڑا جاتا ہے۔ بے روزگار نوجوان کو ناکام، نالائق اور بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے۔ رشتوں میں رکاوٹ، خود اعتمادی میں کمی اور احساسِ کمتری جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس تناظر میں ایک فکر انگیز قول قابلِ غور ہے:
’’بے روزگاری صرف جیب کو نہیں، انسان کی عزتِ نفس کو بھی خالی کر دیتی ہے۔‘‘

بے روزگاری کے باعث نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق مسلسل مایوسی، مالی عدم استحکام اور سماجی دباؤ ڈپریشن، اضطراب اور خودکشی جیسے خطرناک رجحانات کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ذہنی صحت پر ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ بے روزگار نوجوانوں میں ذہنی دباؤ کی شرح ملازمت پیشہ افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

ڈگری یافتہ بے روزگاری کا ایک خطرناک نتیجہ ’’برین ڈرین‘‘ کی صورت میں بھی سامنے آ رہا ہے۔ باصلاحیت نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ترقی کی رفتار کو بھی سست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے:
’’جب نوجوان وطن میں خود کو غیر ضروری سمجھنے لگیں تو قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔‘‘

اس بحران کی ذمے داری صرف نوجوانوں پر ڈالنا ناانصافی ہوگی۔ ریاست، تعلیمی ادارے اور پالیسی ساز سب اس کے ذمے دار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام کو مارکیٹ کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے، ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کو فروغ دیا جائے، اور انٹرن شپ و اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز کو مؤثر بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے اعتماد اور سہولت فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے۔

نوجوانوں کو بھی مایوسی کے بجائے خود کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ صرف ڈگری پر انحصار کرنے کے بجائے عملی مہارتیں، ڈیجیٹل اسکلز اور خود روزگاری کے مواقع تلاش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ریاست اور معاشرہ نوجوانوں کا ساتھ دے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ڈگری یافتہ بے روزگار نوجوان کسی ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری قوم کا آئینہ ہے۔ ’’جب نوجوان سوال کرنے لگیں کہ ہماری تعلیم ہمیں کہاں لے جا رہی ہے، تو سمجھ لیں کہ اصلاح کا وقت آ چکا ہے۔‘‘

اگر ہم نے اس خاموش بحران کو سنجیدگی سے نہ لیا تو اس کے نتائج نسلوں تک بھگتنا پڑیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story