سیاسی اور معاشی سطح پر محرومی کی سیاست
salmanabidpk@gmail.com
پاکستان کا سیاسی،سماجی،انتظامی اور معاشی ڈھانچہ عام یا کمزور طبقات کے تناظر میں کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔حکومت کے اپنے اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی مختلف نوعیت کی محرومی کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے بنیادی حقوق جو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں متاثر ہورہے ہیں۔
تعلیم،صحت ،روزگار ، صفائی ،نقل و حمل ، بنیادی انصاف،تحفظ، گھر کی عدم فراہمی ہو یا خوارک کا بحران ،صاف پانی ،سیوریج، آمدورفت کے ذرایع، نئے معاشی امکانات کا پیدا نہ ہونا جیسے امور نے عام آدمی کی زندگی کو خوفناک حد تک مشکل میں ڈال دیا ہے۔لیکن ریاست اور حکمرانی کا مجموعی نظام ایک طرف ان بنیادی نوعیت کے مسائل کے حل میں ناکام ہے، دوسری طرف جھوٹ پر مبنی اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر لوگوں کو بیوقوت بنایا جاتا ہے ۔
پاکستان میں سیاسی ،سماجی ،معاشی ،ترقیاتی امور سے متعلق ماہرین اور علمی و فکری حلقوں میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا مجموعی ریاستی ڈھانچہ عدم توازن، تفریق اور غیر ہموار ترقی سے جڑا ہوا ہے ۔ایک طبقاتی نظام کی خامی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ریاستی سطح پر موجود تمام افراد یا آبادی کا ترجمان بننے یا ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کے بجائے ایک مخصوص طاقت ور طبقات کی ترجمانی میں پیش پیش ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت عام اور کمزور طبقات جن میں مزدور مرد اور عورتیں ،اقلیت، خواجہ سرا،کسان،نوجوان طبقہ،معذور افراد یا دیہی علاقوں میں موجود لوگوں کا سیاسی اور معاشی مقدمہ سب سے کمزور نظر آتا ہے ۔سب سے بڑا مسئلہ حکمرانی کے نظام میں انسانی ترقی کی بنیاد پر مالی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا معاملہ ہے اور انسانی ترقی کی ترجیحات کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے ۔
حال ہی میں حکومتی سطح پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پنجاب کے علاوہ تین صوبوں کو نسبتا کمزور انسانی ترقی کی بنیاد پر دکھایا گیا ہے ۔جب کہ حقایق یہ بھی ہیں کہ پنجاب ہی میں جنوبی پنجاب کے بہت سے اضلاع کا سماجی اور اقتصادی سمیت انتظامی ڈھانچہ بہت کمزور ہے ۔دی اکنامسٹ نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی پاکستان کی انسانی ترقی پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں اور ان کے بقول انسانی ترقی کے اہم اشاریوں میں پاکستان کی درجہ بندی کئی ممالک سے بہت پیچھے ہے ۔بالخصوص عورتو ں کی ترقی کے اعداد وشمار میں بہت زیادہ صنفی خلیج پائی جاتی ہے ۔
آج کی دنیا میں موجود اہم عالمی امور سے متعلق ترقیاتی ادارے ترقی کے پیمانوں کو جانچنے کے لیے محروم طبقات سمیت بنیادی نوعیت کے مسائل کو جانچ کر ملکوں کی درجہ بندی کرتے ہیں۔ جب یہ عالمی ادارے پاکستان کی عالمی رینکنگ پر سوالات اٹھاتے ہیں تو ہمیں حکمران طبقہ کی جانب سے ان عالمی اداروں کے خلاف تنقید سننے کوملتی ہے ۔حکمران طبقات اپنے داخلی معاملات یا ترقی کی سچائی کو قبول نہیں کرتے بلکہ الٹا ان پر الزام لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں وہ اضلاع جو بڑے شہروں سے بہت دور ہیں ان میں جو لوگوں کے حالات ہیں وہ واقعی قابل رحم ہے۔اسی طرح دیہی اور شہری ترقی یا بڑے اور چھوٹے شہروں کے درمیان بڑھتی ہوئی محرومی یا خلیج بھی لوگوں میں حکمرانی کے نظام کے خلاف سخت ردعمل کے طور پر سامنے آتی ہے۔صاف پانی ایک بنیادی مسئلہ بن چکا ہے اور اب اس وقت صاف پانی کے لیے ہمیں کمرشل بنیادوں پر پانی لینا پڑتا ہے ۔
حکومت جس خوفناک انداز سے ریاست یا حکومتی اداروں کی جو بنیادی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں کی نج کاری کررہی ہے اس سے بھی عام لوگوں کی بنیادی حقوق کے حصول میں رسائی کمز ور ہوگی، ایک تو ریاست یا حکومت کا نظام بنیادی حقوق سے خود کو دست بردار کررہا ہے اور دوسرا نج کاری کے نام پر نجی شعبوں میں موجود کمزور ریگولیٹری نظام لوگوں کے لیے مزید مشکلات کا کھیل بن گیا ہے اور یہ نجی شعبہ کسی جگہ پر بھی کسی کو جوابدہ نہیں ۔اسی بنیاد پر لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ہم ریاست یا حکومت کو کیونکر ٹیکس دیں جب ہمارے بنیادی حقوق حکومتی سطح سے جڑے ہوئے نہیں ہیں۔
بجلی،گیس،پٹرول، ڈیزل،ادویات ،روزمرہ کی اشیا اور مہنگائی یا ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد عام آدمی تو چھوڑیں خود مڈل کلاس کو بھی موجودہ حالات میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔گورننس کا نظام وفاقی ،صوبائی اور مقامی حکومتوں کی سطح پر ایک بحران کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں بھی گورننس کے نظام میں جدید بنیادوں پر اصلاحات کے لیے تیار نہیں اور معاملات کو صوبائی مرکزیت میں چلانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔
بیوروکریسی کا نظام از خود اپنے اندر سخت گیر اصلاحات کا تقاضہ کرتا ہے ۔لیکن نہ تو حکومت اور نہ ہی بیوروکریسی ان اصلاحات کے لیے تیار ہیں۔لوگوں کی مقامی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان معاملات کو مقامی وسائل کی سیاسی تقسیم کے ساتھ نہیںجوڑا جائے گا۔بدقسمتی سے ہماری ترقی کا منظر نامہ بڑے اور محدود شہروں تک ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے اور اسی وجہ سے اب لوگ روزگار کے لیے چھوٹے شہروں یا دہیات سے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور خود بڑے شہر اب اپنے داخلی معاملات میں شدید بگاڑ کا منظر پیش کرتے ہیں ۔لوگوں میں یہ احساس بڑی تیزی سے پیدا ہورہا ہے اور ان میں جہاں چھوٹے شہر یا صوبے ہیںوہیں بڑے شہروں میں موجود چھوٹے علاقے شامل ہیں کہ موجودہ حکمرانی کے نظام میں ہمارے بنیادی حقوق کی فراہمی کا عمل ممکن نظر نہیں آتا یا وہ اس نظام سے بددل ہوکر اس پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایک طرف کڑوروں بچے اور بچیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں یا علاج معالجہ کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں یا عملا خوارک کی کمی کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کی افزائش متاثر ہورہی ہے لیکن ان معاملات پر مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام مجرمانہ غفلت یا کوتاہی کا شکار ہے۔ان معاملات پر ملک میں موجود پالیسی ساز،قانون ساز یا پارلیمنٹ سمیت فیصلہ کرنے والی قوتوں کی کمزور سیاسی کمٹمنٹ یا ان کی عدم درست ترجیحات نے معاشرے میں غربت اور محرومی کی سیاست کو اور زیادہ جنم دیا ہے۔
اگر ہم نے ریاست اور حکومت کے نظام کو طاقت ور طبقات کی شکل میں موجود اشرافیہ کی بنیاد پر چلانا ہے تواس سے عام آدمی میں محرومی کی سیاست اور زیادہ جنم لے گی ۔سوال یہ بھی ہے کہ نیشنل فنانس کمیشن یا صوبائی کمیشن کی موجودگی میں مقامی ترقی کا عمل کیونکر نہیں ہورہا اور کیوں ملک کی بڑی اکثریت اس موجود ترقی پر مبنی نظام سے ناخوش ہے یا اسے چیلنج کررہی ہے ۔ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام دنیا میں ترقی کے تناظر میں ہونے والے اہم تجربات سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور تواتر سے ہم وہی غلطیاں کررہے ہیں جو ماضی کی سیاست کا حصہ رہا ہے ۔
بنیادی خرابی یہ ہی ہے کہ ہم آج تک اپنی مجموعی ترقی کا کوئی بڑا واضح اور شفاف روڈ میپ ہی تشکیل نہیں دے سکے او رنہ ہی اس طرز کی سوچ اور فکر اوپر یا نیچے تک ہمیں پالیسی سازی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈرائنگ روم اور بند کمروں میں بیٹھ کر نچلی سطح کے تلخ حقایق کو پالیسی سازی میں نظرانداز پر مبنی پالیسی ہمیں مضبوط ترقی کے عمل سے اور پیچھے کی طرف دکھیل رہی ہے ۔نئی نوجوان نسل کو ہم نے کہاں لے کر جانا ہے اور کیسے ان کو معیشت کی ترقی سے جوڑنا ہے یا کیسے تعلیمی اداروں کو موجودہ ذمینی حقایق کی بنیاد پر تیار کرنا ہے اس کا گہرا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔وہ علمی اور فکری ماہرین جو اپنے اندر سماج کی تبدیلی کا ایک خاکہ رکھتے ہیں جو ان کی کئی دہائیوں پر مبنی تحقیق کا نتیجہ ہے وہ ریاست اور حکومت کے نظام میں نہ تو رسائی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کی وہاں کوئی پزیرائی ہے۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ مجموعی طور پر اپنے ریاستی اور حکمرانی کے نظام میں وہ کچھ تبدیل کرنے کی کوشش کریں جو واقعی اس ریاستی نظام میں ہماری ترجیحات کا حصہ ہوناچاہیے۔کیونکہ ریاست کا جو بھی نظام عوام کے ساتھ یا ان کے مسائل کے حل کیے ساتھ جڑا ہو ا نہیں ہوگا تویہ ریاست کا نظام ہو یا جمہوریت پر مبنی نظام اپنی سیاسی ساکھ کھودیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت جمہوریت اور ریاست کے نظام پر لوگ اپنی اپنی سطح پر سوالات بھی اٹھارہے ہیں اور ان میں ایک ردعمل کی سیاست بھی جنم لے رہی ہے۔ردعمل کی سیاست لوگوں کو انتہا پسندی یا لاتعلقی کی سیاست کی طرف لے جاتی ہے جو نظام کو اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔