اسی ملک میں جہاد بھی ہو رہا ہے

کچھ لوگ بھارت جا کر وہاں ثقافتیے بن جاتے ہیں اور پاکستان دشمنی کا انعام پاتے ہیں ...

Abdulqhasan@hotmail.com

وطن عزیز پاکستان پر خطرناک حملے کا مقابلہ جاری ہے اور ہماری سپاہ وطن کے بلند اور خوبصورت سبز زاروں اور پہاڑوں پر اپنے دشمنوں سے برسرپیکار ہے۔ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے جس میں ہمارا قدیمی دشمن اور اس کے مہربان شامل ہیں۔ کوئی دامے درمے اور اسلحے اور کوئی براہ راست فوجی انداز میں۔ خود ملک کے اندر بھی ایک لابی موجود ہے جو اس جہاد میں دشمن کے ساتھ ہے۔ کبھی افواج پاکستان کے کسی جرنیل کو جو اس جہاد سے متعلق ہے بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کی کھلم کھلا توہین سے باز نہیں آتی اور کئی گھنٹے اس کی تصویر کو اپنے ٹی وی پر لٹکائے رکھتی ہے۔

کچھ لوگ بھارت جا کر وہاں ثقافتیے بن جاتے ہیں اور پاکستان دشمنی کا انعام پاتے ہیں اور اب تو ہمارے حکمران بھی بھارت کے لیے اس قدر نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اپنی بے مثال جمہوری فتح کو بھی اس کے نام کر دیتے ہیں اور بھارت دوستی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ جب ایک بار بھارت کو 'انتہائی پسندیدہ' ملک قرار دینے کا پروگرام بنایا گیا تو مرحوم مجید نظامی صاحب نے اپنے ان دوستوں سے کہا کہ پھر اس کے بعد پاکستان سے آپ کو ووٹ نہیں ملے گا۔ یہ وقتی طور پر تو خاموش ہو گئے لیکن بھارت کو خاص ملک قرار دینے کی تجویز اور شدید خواہش اب تک موجود ہے۔

ابھی چند دن کی بات ہے کہ سرکاری دورے پر بھارت جانے والے ہمارے وزیر اعظم وہاں ایک ذاتی کاروباری شخصیت سے ملے تو اس ملاقات کے لیے لندن سے اپنا کاروباری بیٹا بھی بلوا لیا۔ ایسی بھارت پسند حکومت میں پاکستانی فوج کی حمایت ذرا احتیاط سے ہی کی جا سکتی ہے اور یہ احتیاط ہر سطح پر جاری ہے۔ جہاد کے سلسلے میں پاکستان کے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں پاکستانی پہنچ چکے ہیں شروع میں تو ان کی دیکھ بھال پر توجہ دی گئی لیکن اب ان پاکستانیوں نے اطلاع دی ہے کہ جب سے پاکستان میں سیاسی ہنگامے شروع ہوئے ہیں ان کو پوچھا نہیں جا رہا۔

اگر یہ سچ ہے اور سچ ہے تو ہم پاکستانیوں کے لیے باعث شرم ہے جہاد کسی ایک فرد کا نہیں ہوتا یہ پوری قوم کرتی ہے اور اس میں قربانی دینے کا ثواب میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی بھی عمرے زیادہ ہے جو ایک نفلی عبادت ہے جب کہ جہاد فرض اولین ہے اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کی تو زیادہ تر زندگی جہاد کے میدان میں گزر گئی۔ ایک سپاہی اور جرنیل کی طرح۔ اقتدار کے پجاری اقتدار میں ہیں یا اس کی تلاش میں اس وقت ایک دینی اور اسلامی فرض سے غافل ہیں اور اس سے غفلت کے عالم میں اگر انھیں اقتدار میں سے کچھ مل جاتا ہے یا موجودہ اقتدار بچ جاتا ہے تو وہ یہ سب اسلامی تعلیمات اور فرائض کی خلاف ورزی میں ہو گا۔ ان سیاسی لیڈروں کی نمازیں روزے اور عمرے وغیرہ کس کام کے اور ان کا اجر کہاں سے ملے گا۔

کئی بار عرض کیا ہے کہ حالات نے جہاد جیسی عبادت کو ہمارے دروازہ پر لا کھڑا کیا ہے اور چند قدم آگے جہاد کا میدان ہے اور یہ میدان صرف جنگ کا میدان ہی نہیں فوج سے محبت کا میدان بھی ہے اور نقل مکانی کرنے والوں کی خدمت کا میدان بھی۔ ہمارے اس جہاد کے دور میں سیاست کی سرگرمیوں میں بعض عالم بھی موجود ہیں جن کے علم و فضل کے دعوے عام ہیں۔


وہ بلا اجازت شیخ الاسلام کی پگڑی باندھتے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی دعوت پھیلاتے ہیں جو ان کا حق ہے لیکن ان دنوں پاکستان میں ایک جگہ جہاد ہو رہا ہے اس کا ذکر ان کی زبان مبارک سے میں نے نہیں سنا۔ وہ اتنا زیادہ بولتے ہیں اور اس قدر طوالت کے ساتھ کہ عین ممکن ہے میں ان کی زبان سے جہاد کے حق میں بات نہ سن سکا ہوں لیکن اخبار میں بھی ان کا کوئی ایسا ارشاد نہیں دیکھا۔

ہمارے ان دونوں لیڈروں قادری اور عمران کے بعض ساتھیوں کو ناچتے گاتے ضرور دیکھا ہے اور قادری صاحب کی خواتین کو تسبیح کرتے بھی دیکھا ہے مگر افسوس کہ ان کو اسلامی جہاد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ورنہ یہ نیک بیبیاں ان مجاہدین بھائیوں کے لیے بھی دعا کریں تسبیح کریں اور پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی کچھ ضرور کریں جو بھی کوئی پاکستانی خاتون کر سکتی ہے وہ خاموش نہ رہے اور اپنے لیڈروں سے کہے کہ وہ عقل سے کام لیں اور اقتدار کے لالچ میں حد سے نہ گزر جائیں۔

عمران خان کے ساتھی بھی بہت سرگرم ہیں اور پرجوش۔ ان کے رقص کے والہانہ انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس وقت تو میں کچھ بھی عرض نہیں کر سکتا کہ کیونکہ اسلام آباد میں معرکہ گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے اور کل تک جب یہ کالم چھپے گا تو ہمارے لیڈر کسی سول نافرمانی میں کہاں تک پہنچ چکے ہوں گے۔ افسوس کہ کسی بھی ساتھی نے عمران کو سول نافرمانی کا سیاسی ترجمہ نہیں بتایا کہ کب ہوا کرتی ہے اور کس کے خلاف۔ پاکستان میں تو یہ اس گئے گزرے ملک کا بھٹہ ہی بٹھا دے گی۔

مجھے یقین ہے کہ عمران کا ہر ساتھی ٹیکس بھی دے گا اور بل بھی ورنہ وہ بجلی کے بغیر زندگی کیسے گزارے گا۔ اے سی کیسے چلے گا۔ حبس کے زمانے میں ان لوگوں کے لیے اے سی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہم آپ تو دستی پنکھے سے بھی کام چلا لیں گے مگر یہ ہمارے رہنما اور لیڈر کیا کریں گے۔ یہ تو ہماری طرح کے انسان نہیں ہیں۔ میں جب ان بے مقصد سیاست کرنے والوں کو دیکھتا سنتا ہوں اور اپنے محبوب وطن کو یاد کرتا ہوں تو اللہ تبارک تعالیٰ سے یہ فریاد کرتا ہوں کہ میرے اور میرے رسولؐ کے نام پر جو ملک بنایا گیا تھا کیا وہ ان ناچنے گانے والوں کے لیے تھا۔

ہمارے بانیان پاکستان نے کیا خطا کی تھی کہ اس ملک کو اب تک معافی نہیں ملی۔ خیال تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد قوم بدل جائے گی لیکن وہ تو نہ جانے کتنے 'سقوطوں' کی طلب گار دکھائی دیتی ہے اور خطرے کا یہ سلسلہ ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ اب بات اس امید پر ختم کرتے ہیں کہ ہمارے اقتدار کے طلبگار شاید اس ملک کا دھیان بھی کر لیں جس کے اقتدار کے لیے وہ یہ تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ جہاں تک حکمرانوں کا تعلق ہے تو اس صورت حال کے صرف وہی ذمے دار ہیں۔

نہ وہ اس قدر ناکام اور عوام دشمن حکومت کرتے اور نہ کسی کو موقع ملتا لیکن وہ تو اس قدر دولت مند ہیں کہ پاکستان ایسے کئی ملک ان کی گرفت میں ہیں یہاں تو وہ شوقیہ مقیم ہیں کہ حکمرانی کے مزے اور کہاں مل سکتے ہیں ویسے یاد آتا ہے کہ امریکا کے ایک بے پناہ دولت مند فورڈ نے اپنے صدارت کے امید وار بیٹے سے کہا تھا کہ الیکشن کی فکر نہ کرنا تم ہار بھی گئے تو میں تمہارے لیے ایک ملک خرید لوں گا۔ ایسے لوگوں کو پاکستان جیسے غریب اور انتہائی مقروض ملک کی کیا پروا۔
Load Next Story