آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
ہمارے دو شوقیہ سیاستدانوں نے حالات کے مارے ہوئے پاکستانیوں کو مسلسل کم و بیش تین ہفتوں تک اپنی چابکدستی اور چالاکی ...
Abdulqhasan@hotmail.com
ہمارے نام نہاد سیاستدانوں میں سے کسی نے زیر لب اور کسی نے برملا اپنے اپنے پندار کے صنم کدے کو ویران کر دیا۔ انھوں نے ایک فوجی افسر کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اعلیٰ حضرت ہم عوام کے منتخب ہیں یا کسی انتخاب کے بغیر عوام کے لیڈر بنے ہوئے ہیں اپنے اپنے منصب سے بصد حسرت و یاس استعفیٰ دیتے ہیں اور عرض گزار ہیں کہ اب ملک کو آپ چلائیں لیکن ہمارے اقتدار اور اس کی رسوائی کے مابین پڑا ہوا ہلکا سا پردہ چاک نہ کریں۔
کچھ جھوٹ موٹ کی ہماری عزت بھی باقی رہے اور آپ سرکار تو محترم ہیں ہی آپ کا کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو چند دنوں میں ہی برسوں کا نقصان پہنچانے اس کی معاشیات کو غرق کرنے اور آپ آخر میں خود اپنی اوقات کو برملا اور تباہ کرنے کا جرم کس ایف آئی آر میں لکھا جائے گا کون مدعی اس پر مقدمہ درج کرائے گا اور عدالت میں اس کی پیروی کرے گا۔ ان 'کون' میں سے ایک پاکستانی میں بھی ہوں اور اٹھارہ بیس کروڑ میرے دوسرے ہموطن بھی۔
ہمارے دو شوقیہ سیاستدانوں نے حالات کے مارے ہوئے پاکستانیوں کو مسلسل کم و بیش تین ہفتوں تک اپنی چابکدستی اور چالاکی سے یرغمال بنائے رکھا اور انتہائی غیر منطقی مطالبات کا خود بھی نشانہ بن گئے۔ اس دوران ملک اور قوم کو اس قدر نڈھال کر دیا کہ اب کون مائی کا لال اس ملک اور قوم کو سنبھالے گا۔ سقوط ڈھاکہ کے ناقابل فراموش سانحہ کے بعد آنجہانی خوشونت سنگھ دلی سے لاہور ایک تقریب میں شرکت کے لیے آئے تو انھوں نے ایک تقریر میں یہ شعر پڑھا کہ
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیا ہماری یہ سزا ختم ہو چکی ہے۔ کوئی نہ کوئی لمحہ یا لمحے ایسے آ جاتے ہیں کہ ان میں کی جانے والی خطائیں کسی مزید سزا کا سبب بن جاتی ہیں۔ اگر آپ کا حافظہ آپ کا ساتھ دے تو 1970ء کو یاد کیجیے کہ لمحے کیسے خطا کرتے ہیں اور ان کی کیسی سزا ملتی ہے۔ ہم نے اپنی فوج کے جس محاذ پر رضا کارانہ نہیں مجبورانہ بھرتی دی ہے وہ اسی وقت کئی محاذوں اور آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ شمالی پاکستان میں دشمن کی بھاری تخریب کاری کا مقابلہ جاری ہے اور لاکھوں پاکستانی اس ملک کی تاریخ میں ایک بار پھر نقل مکانی کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ ایک باقاعدہ محاذِ جنگ ہے اور ہماری تینوں افواج اس جنگ میں الجھی ہوئی ہیں۔ ہمارے دشمن نے بڑی ہوشیاری اور جنگی حکمت سے ہمارے خلاف ایک بہت ہی مشکل محاذ کھول دیا ہے اس جنگ کے بارے میں جو اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق ایک جہاد ہے اور آنحضرت ﷺ کے نام پر شروع کیا گیا انشاء اللہ کامیاب ہوگا لیکن فوج کی اس مشکل میں اسے اپنی نالائقی کی سزا دینا کیسے مناسب ہے کہ جو کام قوم نے فوج کے نہیں سول کے ذمے لگایا ہے وہ ہم اٹھارہ کروڑ کی سول نفری پورا نہیں کرسکی۔
ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری سیاستدان سبھی ہتھیار ڈال چکے ہیں اور اب چند لاکھ فوجیوں سے عرض پرداز ہیں کہ حضور ہمیں بچائیے۔ میں نے وزیر اعظم اور سپہ سالار کے مابین آخری ملاقات کی چند جھلکیاں ٹی وی پر دیکھیں اور ساری بات فوراً ہی میری سمجھ میں آ گئی۔ دونوں کے چہرے سب کچھ بتا رہے تھے۔
اب یہ سب میرا اندازہ ہے کہ سپہ سالار کے چہرے پر بے حد تلخی اور بے زاری تھی گویا وہ کہہ رہے ہوں کہ پاکستان کی فوج میں کوئی خدمت سر انجام دینا کوئی جرم ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے ملک کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرو دشمن کی ہر روز کی بمباری کا جواب بھی دو کسی بڑی جنگ کے لیے تیار بھی رہو اور ملک کے اندر کسی ایف آئی آر کی نگرانی بھی کرو۔ اپنی ہی قوم کے ہاتھوں سے اپنی ہی فوج کی یہ حالت ایک عبرت کا مقام ہے۔
آدھا ملک پہلے ہی گنوا دیا جس میں ہماری سیاسی قیادت کا بڑا ہاتھ تھا آج ایک بار پھر ہماری سیاسی قیادت کوئی ایسا ہی منظر دکھانے والی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے ایک پناہ گاہ بنا کر کوئی جرم کیا تھا کہ ہم انھیں اس کی مسلسل سزا دے رہے ہیں۔ بہر کیف ہماری سیاسی پلٹن کی فوج سے یہ درخواست کہ وہ ہمیں بچا لے ایک ایسی توہین آمیز درخواست ہے کہ بعض سیاستدان جن میں ہمارے دوست جاوید ہاشمی سر فہرست ہیں سر پیٹ رہے ہیں۔
ہمارے ایک دھرنے والے لیڈر نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ جب تک وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے وہ دھرنا جاری رکھیں گے۔ پہلے تو اس لیڈر کی سمجھ بوجھ پر بھی رونا چاہیے جسے یہ تک اندازہ نہیں کہ جب کوئی کہہ دیتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا مہربانی فرما کر آپ کریں تو کیا وہ پھر بھی اپنے کسی منصب پر فائز رہتا ہے جن سیاستدانوں نے وطن عزیز کو اس حال تک پہنچایا ہے ان سے باز پرس کون کرے گا۔
سوچا نہیں جا سکتا کہ ہماری کاروباری زندگی میں ہمیں کتنا نقصان اٹھانا پڑا ہے اس کی کم از کم سزا یہ کہ اس قومی نقصان کو ان کے محفوظ سرمائے سے پورا کیا جائے جو بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے اور یہ محفوظ سرمایہ بھی اسی ملک سے لوٹا گیا ہے۔ باہر کے کسی کاروبار سے تو جمع نہیں کیا گیا البتہ اب اس سرمائے سے کاروبار کیے جا رہے ہیں ہمارے وزیر اعظم حال ہی میں سرکاری دورے پر بھارت گئے تو وہاں انھوں نے بھارت کے ایک فولادی کاروباری سے ملاقات کی اور اپنے بیٹے کو لندن سے بلوا کر اس کاروباری سے ملوایا۔
یہ وہی بھارت ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے اپنے الیکشن کے بعد اعلان کیا کہ مجھے قوم نے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ووٹ دیے ہیں بقول مرحوم و مغفور مجید نظامی کے اگر وہ الیکشن میں کوئی ایسا اشارہ بھی کر دیتے تو ضمانت ضبط ہو جاتی کجا کہ اس قدر غیر معمولی حد تک ووٹ ملتے۔ بھارت نوازی بھی فوج کے لیے اس سیاسی گروہ کا ایک بڑا جرم ہے۔
یہ ایک الگ مستقل مسئلہ ہے فی الحال تو عرض ہے کہ میاں صاحبان اور ان کا شاہی خاندان قوم سے بُری حکومت کی معافی مانگے باقی باتیں وہ جانیں اور فوج جو ان کو بچانے کا مشکل کام لے کر آئی ہے۔ علاوہ ان کے سیاستدان بھی تو یہ ثابت ہوں اور اپنی شرمندگی کا کھل کر اظہار کریں اور قوم سے اپنی ناکام اور برُی سیاست کی معافی طلب کریں۔ مزید بہت کچھ آیندہ عرض کروں گا۔ فی الحال تو آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر۔
کچھ جھوٹ موٹ کی ہماری عزت بھی باقی رہے اور آپ سرکار تو محترم ہیں ہی آپ کا کیا جاتا ہے۔ اس ملک کو چند دنوں میں ہی برسوں کا نقصان پہنچانے اس کی معاشیات کو غرق کرنے اور آپ آخر میں خود اپنی اوقات کو برملا اور تباہ کرنے کا جرم کس ایف آئی آر میں لکھا جائے گا کون مدعی اس پر مقدمہ درج کرائے گا اور عدالت میں اس کی پیروی کرے گا۔ ان 'کون' میں سے ایک پاکستانی میں بھی ہوں اور اٹھارہ بیس کروڑ میرے دوسرے ہموطن بھی۔
ہمارے دو شوقیہ سیاستدانوں نے حالات کے مارے ہوئے پاکستانیوں کو مسلسل کم و بیش تین ہفتوں تک اپنی چابکدستی اور چالاکی سے یرغمال بنائے رکھا اور انتہائی غیر منطقی مطالبات کا خود بھی نشانہ بن گئے۔ اس دوران ملک اور قوم کو اس قدر نڈھال کر دیا کہ اب کون مائی کا لال اس ملک اور قوم کو سنبھالے گا۔ سقوط ڈھاکہ کے ناقابل فراموش سانحہ کے بعد آنجہانی خوشونت سنگھ دلی سے لاہور ایک تقریب میں شرکت کے لیے آئے تو انھوں نے ایک تقریر میں یہ شعر پڑھا کہ
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیا ہماری یہ سزا ختم ہو چکی ہے۔ کوئی نہ کوئی لمحہ یا لمحے ایسے آ جاتے ہیں کہ ان میں کی جانے والی خطائیں کسی مزید سزا کا سبب بن جاتی ہیں۔ اگر آپ کا حافظہ آپ کا ساتھ دے تو 1970ء کو یاد کیجیے کہ لمحے کیسے خطا کرتے ہیں اور ان کی کیسی سزا ملتی ہے۔ ہم نے اپنی فوج کے جس محاذ پر رضا کارانہ نہیں مجبورانہ بھرتی دی ہے وہ اسی وقت کئی محاذوں اور آزمائشوں سے گزر رہی ہے۔ شمالی پاکستان میں دشمن کی بھاری تخریب کاری کا مقابلہ جاری ہے اور لاکھوں پاکستانی اس ملک کی تاریخ میں ایک بار پھر نقل مکانی کی اذیت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ ایک باقاعدہ محاذِ جنگ ہے اور ہماری تینوں افواج اس جنگ میں الجھی ہوئی ہیں۔ ہمارے دشمن نے بڑی ہوشیاری اور جنگی حکمت سے ہمارے خلاف ایک بہت ہی مشکل محاذ کھول دیا ہے اس جنگ کے بارے میں جو اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق ایک جہاد ہے اور آنحضرت ﷺ کے نام پر شروع کیا گیا انشاء اللہ کامیاب ہوگا لیکن فوج کی اس مشکل میں اسے اپنی نالائقی کی سزا دینا کیسے مناسب ہے کہ جو کام قوم نے فوج کے نہیں سول کے ذمے لگایا ہے وہ ہم اٹھارہ کروڑ کی سول نفری پورا نہیں کرسکی۔
ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری سیاستدان سبھی ہتھیار ڈال چکے ہیں اور اب چند لاکھ فوجیوں سے عرض پرداز ہیں کہ حضور ہمیں بچائیے۔ میں نے وزیر اعظم اور سپہ سالار کے مابین آخری ملاقات کی چند جھلکیاں ٹی وی پر دیکھیں اور ساری بات فوراً ہی میری سمجھ میں آ گئی۔ دونوں کے چہرے سب کچھ بتا رہے تھے۔
اب یہ سب میرا اندازہ ہے کہ سپہ سالار کے چہرے پر بے حد تلخی اور بے زاری تھی گویا وہ کہہ رہے ہوں کہ پاکستان کی فوج میں کوئی خدمت سر انجام دینا کوئی جرم ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے ملک کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرو دشمن کی ہر روز کی بمباری کا جواب بھی دو کسی بڑی جنگ کے لیے تیار بھی رہو اور ملک کے اندر کسی ایف آئی آر کی نگرانی بھی کرو۔ اپنی ہی قوم کے ہاتھوں سے اپنی ہی فوج کی یہ حالت ایک عبرت کا مقام ہے۔
آدھا ملک پہلے ہی گنوا دیا جس میں ہماری سیاسی قیادت کا بڑا ہاتھ تھا آج ایک بار پھر ہماری سیاسی قیادت کوئی ایسا ہی منظر دکھانے والی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمارے لیے ایک پناہ گاہ بنا کر کوئی جرم کیا تھا کہ ہم انھیں اس کی مسلسل سزا دے رہے ہیں۔ بہر کیف ہماری سیاسی پلٹن کی فوج سے یہ درخواست کہ وہ ہمیں بچا لے ایک ایسی توہین آمیز درخواست ہے کہ بعض سیاستدان جن میں ہمارے دوست جاوید ہاشمی سر فہرست ہیں سر پیٹ رہے ہیں۔
ہمارے ایک دھرنے والے لیڈر نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ جب تک وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے وہ دھرنا جاری رکھیں گے۔ پہلے تو اس لیڈر کی سمجھ بوجھ پر بھی رونا چاہیے جسے یہ تک اندازہ نہیں کہ جب کوئی کہہ دیتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا مہربانی فرما کر آپ کریں تو کیا وہ پھر بھی اپنے کسی منصب پر فائز رہتا ہے جن سیاستدانوں نے وطن عزیز کو اس حال تک پہنچایا ہے ان سے باز پرس کون کرے گا۔
سوچا نہیں جا سکتا کہ ہماری کاروباری زندگی میں ہمیں کتنا نقصان اٹھانا پڑا ہے اس کی کم از کم سزا یہ کہ اس قومی نقصان کو ان کے محفوظ سرمائے سے پورا کیا جائے جو بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے اور یہ محفوظ سرمایہ بھی اسی ملک سے لوٹا گیا ہے۔ باہر کے کسی کاروبار سے تو جمع نہیں کیا گیا البتہ اب اس سرمائے سے کاروبار کیے جا رہے ہیں ہمارے وزیر اعظم حال ہی میں سرکاری دورے پر بھارت گئے تو وہاں انھوں نے بھارت کے ایک فولادی کاروباری سے ملاقات کی اور اپنے بیٹے کو لندن سے بلوا کر اس کاروباری سے ملوایا۔
یہ وہی بھارت ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے اپنے الیکشن کے بعد اعلان کیا کہ مجھے قوم نے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے ووٹ دیے ہیں بقول مرحوم و مغفور مجید نظامی کے اگر وہ الیکشن میں کوئی ایسا اشارہ بھی کر دیتے تو ضمانت ضبط ہو جاتی کجا کہ اس قدر غیر معمولی حد تک ووٹ ملتے۔ بھارت نوازی بھی فوج کے لیے اس سیاسی گروہ کا ایک بڑا جرم ہے۔
یہ ایک الگ مستقل مسئلہ ہے فی الحال تو عرض ہے کہ میاں صاحبان اور ان کا شاہی خاندان قوم سے بُری حکومت کی معافی مانگے باقی باتیں وہ جانیں اور فوج جو ان کو بچانے کا مشکل کام لے کر آئی ہے۔ علاوہ ان کے سیاستدان بھی تو یہ ثابت ہوں اور اپنی شرمندگی کا کھل کر اظہار کریں اور قوم سے اپنی ناکام اور برُی سیاست کی معافی طلب کریں۔ مزید بہت کچھ آیندہ عرض کروں گا۔ فی الحال تو آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر۔