پنجاب کا نیا اشرافیہ

میاں صاحب جیسے سمجھدار لوگوں کو اس صورت حال کا مکمل احساس ہے اور وہ اس کا حل بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں

Abdulqhasan@hotmail.com

شاید پہلے بھی کبھی عرض کیا تھا کہ قائداعظم اور ان کے سرتاپا پاکستانی ساتھیوں کے رخصت ہوتے ہی ہماری سیاسی قیادت رفتہ رفتہ ماضی اور برطانوی دور کی طرف لوٹ گئی۔ برطانیہ نے اپنی حکومت کو آسان اور مضبوط بنانے کے لیے مراعات یافتہ طبقوں کا ایک جال پورے ہندوستان میں پھیلا دیا۔ سرکاری زمینیں' جاگیریں بنا کر ان خاندانوں میں بانٹ دی گئیں۔ ان خاندانوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو اونچی ملازمتیں دی گئیں۔ جو پہلے سے بڑے لوگ تھے ان کو اعزاز دیے گئے' کسی کو وائسرائے کے دربار میں کرسی دی گئی اور یہ کرسی نشین مشہور ہوئے۔

اسی طرح گورنروں کو بھی اپنی ضرورت کے افراد تیار کرنے کا اختیار دیا گیا۔ جن بڑے خاندانوں نے اپنے بیٹے برطانوی فوج میں بھرتی کرائے ان کے نام خاص فہرست میں لکھوا دیے گئے اور ان خاندانوں نے مزید خوشامد کے لیے بھی اپنے بیٹے فوج میں بھیجے جب کہ ان کو اس کی ضرورت نہ تھی۔ پنجاب کے سر سکندر حیات کا بیٹا سردار شوکت حیات بھی فوج میں خدمات سرانجام دیتا رہا۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے خصوصی غلاموں کا جو طبقہ تیار کیا وہ اشرافیہ کہلایا۔ یہ طبقہ اب تک پاکستان پر حکمران ہے۔ الیکشن ہو یا حکمرانی کا کوئی اور طریقہ یہ لوگ اقتدار میں آ جاتے ہیں اور پھر لُوٹ مچاتے ہیں۔ ملی بھگت کے ساتھ حکومت کرتے ہیں۔ بالعموم وزیر اعظم تک ان کے طبقے سے ہوتا ہے۔

ادھر کچھ عرصہ سے مال و دولت کی طاقت سے کچھ باہر کے لوگ بھی حکمران طبقے میں گھس آئے ہیں چونکہ اقتدار ان باہر کے لوگوں کے پاس آ گیا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اصلی اشرافیہ کے لوگ بھی وزیروں کی صف میں شامل ہیں اور ان باہر کے لوگوں کی حکومت میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ان دنوں میاں نواز شریف اسی غیر اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اشرافیہ کے کئی سکہ بند نمائندے ان کی وزارتوں میں شامل ہیں اور خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ کئی ایک اس صورت حال میں بڑی الجھن محسوس کرتے ہیں مگر اس کے بغیر وہ اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکتے۔ میاں صاحب جیسے سمجھدار لوگوں کو اس صورت حال کا مکمل احساس ہے اور وہ اس کا حل بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات کامیابی نہیں ہوتی۔

ہمارے ضلع سرگودھا کا ایک بے حد معروف اونچا خاندان ٹوانوں کا تھا اور ہے لیکن حالات زمانہ نے اس خاندان کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ سر خضر حیات اپنے والد سر سکندر حیات کے اکلوتے بیٹے تھے اور اپنے خاندانی اثرات کے تحت پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ سرگودھا کے قریب اس خاندان نے اپنی جاگیر کے ایک حصے میں اپنے لیے محلات تعمیر کیے اور زمینیں آراستہ کیں۔ یہ حصہ کالرا کہلاتا تھا اور اسے کالرہ اسٹیٹ کہا گیا۔ سر خضر حیات فوت ہو گئے ان کا ایک بیٹا امریکا چلا گیا۔ غالباً ایک اور بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔ اس طرح کالرا اسٹیٹ اس کے سابقہ ملازمین اور نگرانوں کے پاس محفوظ رہی۔


عرض یہ کرنی ہے کہ میاں صاحب نے اپنے ایک سابقہ دور حکومت میں کالرا اسٹیٹ خریدنے کا پروگرام بنایا۔ مشہور ہے کہ خاصی پیش رفت بھی ہوئی۔ امریکا میں مقیم اس کے وارث سے رابطے ہوئے۔ بات چلتی گئی لیکن مجھے معلوم نہیں اور میں نے معلوم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ کہاں یہ سلسلہ ٹوٹا یا ختم ہوا۔ میاں شہباز شریف اس سلسلے میں سرگرم رہے۔ ایک وقت تھا کہ اس پورے علاقے میں کالرا اسٹیٹ کا یہ سودا مشہور ہو گیا اور لوگ نئے مالک کا انتظار بھی کرنے لگے۔

میاں صاحب کالرا اسٹیٹ میں کیوں دلچسپی لے رہے تھے۔ ایک تو شاید یہ مصروفیت کا ایک نیا میدان دلچسپ تھا دوسرے وہ اس ملکیت سے پنجاب کے قدیمی رؤسا میں شامل ہو جاتے اور ان سے غیر کاشتکار ہونے کا لیبل اتر جاتا۔ پھر یہ سودا نفع بخش بھی تھا۔ اگر پرانے طرز کے زمینداری نظام میں یہ بہت مفید تھی تو میاں صاحب کی سرمایہ کاری کے بعد تو اس کا حلیہ ہی بدل جاتا اور پنجاب میں ایک بہت کامیاب خاندان کا اضافہ ہو جاتا مگر پنجاب اس خطرے سے بچ گیا کیونکہ صرف زمینداروں کے تو پنجاب کے لوگ عادی تھے لیکن یہ نئی قسم کے زمیندار ان کے مقامی معاشرے کے لیے ایک پرابلم تھے۔

بہر کیف پنجاب اشرافیہ کے ایک خطرناک اضافے سے بچ گیا لیکن میاں صاحب کی حکومت ایک حقیقت ہے۔ آج ان کا اقتدار خطرے میں ہے لیکن وہ اس طبقے میں شامل ہو چکے ہیں جس کے پاس اقتدار آتا جاتا رہتا ہے۔ یہ خطرہ بھی کسی نہ کسی صورت میں ختم ہو جائے گا لیکن اپنے اثرات چھوڑ جائے گا۔

اس وقت میاں صاحب کے غیرزمیندارانہ اقتدار کے لیے اگرچہ خطرہ تو پرانے زمیندار طبقے سے آنا تھا لیکن ایک ان کے طبقے کا ایک کمزور امیدوار ان کے مدمقابل ہے اور دوسرا ایک مولوی طبقہ عموماً جو اشرافیہ کے وظیفوں پر پلتا ہے یا دولت مندوں کے داد و دہش پر۔ جیسے قادری صاحب میاں صاحب کی مالی اور اخلاقی مہربانیوں میں ''جوان'' ہوئے اور اب ان کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ یہ قول سو فیصد سے بھی زیادہ اس صورت حال پر صادق آتا ہے۔

مولانا طاہر القادری پنجاب کی سیاست میں ایک نیا عنصر ہیں جو وقتی طور پر خوب چمک رہا ہے اور جس کا بڑا نام ہے۔ دوسرے مدمقابل عمران خان ہیں۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کی ایک بڑی نامور شخصیت ہیں۔ ان کا کسی کالم میں سرسری ذکر کافی نہیں ہے لیکن اتنی عرض ہے کہ انھوں نے سیاست میں آنے کی غلطی کی ہے۔ اس پر بات ہوتی رہے گی۔ بہرکیف وہ پنجاب کے اشرافیہ میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں۔
Load Next Story